بدھ، 26 نومبر، 2014

حضرت عمر کا یوم وفات ۔

حضرت عمر کا یوم وفات ۔

حضرت عمر کی تاریخ وفات کے باب میں دو قول مشہور ملتے ہیں۔

۔ 1 ۔ ایک قول یہ ھے کہ حضرت عمر زخمی ہونے کے بعد تین دن زندہ رہے اور پھر چھبیس 26 ذی الحجہ کو ان کا وصال ہوا ، چنانچہ علامہ قلقشندی ، اور حافظ ابن النجار البغدادی نے اسی قول کو اختیار کیا ھے ۔
علامہ قلقشندی لکھتے ہیں ۔

وطعنه أبو لؤلؤة الفارسي غلام المغيرة بن شعبة فبقي ثلاثاً ومات لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة
نهاية الأرب في معرفة أنساب العرب// جلد1 // صفحہ152// ۔

اسی قول کو حافظ ابن النجار البغدادی نے بھی اختیار کیا ھے،

وكانت وفاته رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين من الهجرة ۔

الدرة الثمينة في أخبار المدينة // ذکر وفات عمر // ۔

قلقشندی اور ابن النجار کے اس قول کی تایئید اس روایت سے بھی ہوتی ھے جس کو حافظ ابن شبہ نے اپنی تاریخ میں اور امام بیہقی نے سنن میں نقل کیا ھے، یہ روایت معدان ابن ابی طلحہ سے مروی ھے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے جمعہ کو خطبہ دیا اور جب ذی الحج کے چار دن باقی تھے، یعنی چھبیس ذی الحج کے دن حضرت عمر کا انتقال ہوا ملاحظہ ہو :
قال خطب لھم یوم الجمعة و مات یوم الأربعاء لأربع بقین من ذی الحجة ۔
السنن الکبری للبیھقی // رقم الحدیث 16578 //۔
تاریخ المدینة لأبن شبة // باب مقتل عمر // ۔

۔ 2 ۔ دوسرا قول جو کہ مشہور ھے، اور اسی قول کو جمھور مؤرخین اور علماء نے اپنی کتب میں بیان کیا ھے کہ ابو لؤلؤ نے چھبیس 26 ذی الحج کو ضرب لگائی تھی، جس سے حضرت عمر تین دن تک زخمی رہے اور پھر ان کا وصال ہوا اور حضرت صھیب رومی نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا، چنانچہ مؤرخ ابن اثیر نے اسی قول کو ابن قتیبہ سے نقل کیا ھے، ملاحظہ ہو ،

و قال ابن قتیبة : ضربه أبو لؤلؤة يوم الأثنين لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي، فصلى عَلَيْهِ صهيب ۔

أسد الغابة في معرفة الصحابة// جلد3// صفحہ676 //۔

مشہور سلفی محقق شیخ شعیب الأرنؤوط نے بھی مسند احمد کی تحقیق میں اسی قول کو اختیار کیا ھے، شیخ ارنؤوط رقمطراز ہیں ۔

وكانت خلافته رضي الله عنه عشر سنين وستة أشهر، ضربه أبو لؤلؤة المجوسي لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثاً وتوفي، فصَلَّى عليه صهيبٌ

المسند للأحمد // تحت رقم الحدیث 82 // مسند عمر //۔

یہ کلام تھا حضرت عمر کی تاریخ وفات کے باب میں، جہاں تک تدفین کی بات ھے تو بعضے علماء نے بیان کیا ھے، کہ حضرت عمر کو محرم کے پہلے دن دفن کیا گیا، تدفین کے اس قول کو ملا علی قاری نے شرح مشکاة میں اور حافظ ابن اثیر الجزری نے جامع الاصول میں اختیار کیا ھے، ملاحظہ ہو ،

وطعنه أبو لؤلؤة غلام المغيرة بن شعبة مصدر الحاج بالمدينة يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد غرة المحرم سنة أربع وعشرين ۔

جامع الاصول //جلد 12// صفحہ127// عمر بن الخطاب //۔

خلاصہ کلام : حضرت عمر کی تاریخ وفات سے متعلق جتنے بھی اقوال ہیں ان اقوال میں اختلاف اس حد تک ھے کہ ابو لؤلؤ نے ضرب کس دن لگائی ؟
جمھور کے نزدیک چھبیس ذی الحج ھے، بعض کے نزدیک چھبیس سے پہلے ضرب لگائی ، اور بعض کے نزدیک ستائیس ذی الحج کو ضرب لگائی ۔
لیکن ابو لؤلؤ کی ضرب اور حضرت عمر کی تدفین، ان دونوں باتوں سے قطع نظر ، کم از کم اس بات پر تو تمام مؤرخین و علماء کا اجماع ھے کہ حضرت عمر کا وصال ذی الحج کے مہینہ میں ہی ہوا ھے ، اس میں کوئی دو رائے نہی ہیں ۔ و اللہ اعلم بالصواب ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں