بدھ، 26 نومبر، 2014

مام زمانہ عج کے زمانے کی ایک حقیقت

علامہ مجلسی بحارالانوار میں فضل بن شاذان کی کتاب سے اس کی اسناد سے یہ روایت نقل کرتے ہیں؛

وَ بِإِسْنَادِهِ يَرْفَعُهُ إِلَى ابْنِ مُسْكَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ الْمُؤْمِنَ فِي زَمَانِ الْقَائِمِ وَ هُوَ بِالْمَشْرِقِ لَيَرَى أَخَاهُ الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ وَ كَذَا الَّذِي فِي الْمَغْرِبِ يَرَى أَخَاهُ الَّذِي فِي الْمَشْرِق

عبداللہ ابن مسکان کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق ع کو کہتے سنا: "قائم (آل محمد) ارواحنا فداہ کے زمانے میں مشرق میں موجود مومن، مغرب میں موجود مومن کو دیکھے گا۔ اور بالعکس جو مغرب میں ہے وہ مشرق میں موجود اپنے مومن بھائی کو دیکھے گا۔"

(بحارالانوار: جلد 52 ص391)

اسی طرح کافی میں شیخ کلینی رح نے یہ روایت نقل کی؛

عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ الشَّامِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ مَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِشِيعَتِنَا فِي أَسْمَاعِهِمْ وَ أَبْصَارِهِمْ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقَائِمِ بَرِيدٌ يُكَلِّمُهُمُ فَيَسْمَعُونَ وَ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَ هُوَ فِي مَكَانِه

ابی الرّبیع شامی کہتے ہیں کہ امام صادق(ع) کو میں نے فرماتے سنا: "جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو اللہ ہمارے شیعوں کی سماعتوں اور بصارتوں کو اتنی قوّت دے گا کہ ان کے درمیان اور قائم عج کے درمیان کسی قاصد کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہمارا قائم(عج) ان سے گفتگو کرے گا اور وہ لوگ ان کو سنیں گے اور دیکھیں گے جبکہ آپ(عج) اپنی جگہ پر ہی موجود ہوں گے۔"

(الكافي ج8، ص: 241؛ الخرائج و الجرائح، ج2، ص: 840)

احادیث پر تبصرہ:

یہ دونوں احادیث امام زمانہ عج کے دور میں ٹیکنالوجی کی ترقّی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آجکل کے جدید دور میں یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی جگہ پر بیٹھے مشرق و مغرب، شمال و جنوب اور دنیا کے گوشہ و کنار میں موجود کسی سے بھی فون اور انٹرنیٹ پر رابطہ کر سکتے ہیں، ان کی آواز سنتے ہیں اور ان کو دیکھتے ہیں۔ اگر ہم علامہ مجلسی کے دور کا سوچیں تو ان کے زمانے میں لوگوں کو یقینا یہ بات عجیب لگتی ہوگی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی جگہ بیٹھے اس طرح میلوں دور لوگوں کی آواز سنیں یا ان کو دیکھیں۔ علامہ مجلسی کا زمانہ تو بہت دور کی بات، ٹیلی فون کی ایجاد سے پہلے یہ بات ناممکن لگتی تھی کہ تاروں کے ذریعے آواز بھی سن سکتے ہیں، اور شاید آج سے بیس برس پہلے یہ بات عجائب میں لگتی ہوگی کہ اس طرح ایک دوسرے کو میلوں دور سے دیکھتے ہوئے بات بھی کر سکیں۔ لیکن سائنس نے یہ سب کر دکھایا اور آج ہم ان احادیث کو سمجھ سکتے ہیں اور آئمہ(ع) کی احادیث پر ہمارا مکمّل ایمان بڑھ جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ علامہ مجلسی کے دور میں کوئی "کج فہم" ان احادیث کا انکار کرے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اور قرآن کی آیت پیش کرے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مشرق و مغرب کا حال نہیں جان سکتا، جبکہ اس حدیث کو سمجھنے کے لئے وقت چاھئے تھا لیکن یہ "کج فہم" اپنی "کج فہمی" کی وجہ سے آئمہ(ع) کے اقوال کا انکار کر بیٹھتے۔

اور یہ بات بھی عجیب ہوگی کہ پہلی روایت سند کے اعتبار سے مرفوع کہلائے گی جبکہ دوسری روایت مجہول ہے۔ گویا دونوں روایات ضعیف ہیں، لیکن ان کے متن کو دیکھا جائے تو اس حدیث کے صادر ہونے پر پختہ ایمان ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ضروری نہیں کہ جو روایت مرفوع یا مرسل ہو یا اس کے راوی کے احوال نہ ملتے ہوں تو ہم اس روایت کو رد کر دیں، بلکہ ہم دیگر قرائن کی مدد سے روایت کے صدور کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

اس بات سے درج ذیل حقائق آشکار ہوتے ہیں؛

اوّل) سو فیصد رجال کے سخت اصولوں پر چلنا درست نہیں بلکہ جمہور علمائے شیعہ "وثوق صدوری" کے قائل ہیں

دوّم) جو روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہو، ممکن ہے کہ وہ متن کے حوالے سے قوی ہو

سوّم) امام زمانہ (عج) کے وجود پر ان روایات کو جمع کیا جائے جو "وثوق صدوری" پر پورا اترتے ہوں تو ایسی روایتیں سینکڑوں میں ہوں گی۔ اب ان سینکڑوں روایتوں کو متواتر نہ کہا جائے تو پھر متواتر کس کو کہتے ہیں؟

چہارم) کلام معصوم(ع) حق ہے اگر "وثوق صدوری" کے معیار پر پورا اترا جائے۔

پنجم) "کج فہمی" کا نتیجہ گمراہی ہے، لہذا لازمی ہے کہ منحرفین کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے علمائے حق کی بات سنی جائے اور اس کو مانا جائے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں