بدھ، 26 نومبر، 2014

علمائے رجال کے قول کو کیوں حجت مانا جائے؟

قول رجالی کس لحاظ سے حجت ہے؟ کیوں ہم علمائے رجال کے قول کو مانیں؟ اس لحاظ سے ہمارے ہاں تین آراء ملتی ہیں؛

1) قول رجالی حجت ہے کیونکہ قول ثقہ حجت ہے۔ اکثر علماء کا یہی نظریہ ہے اور اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں "ان جاءکم فاسق بنبا فتبیّنو"۔۔۔۔ یعنی کوئی فاسق خبر لائے تو فورا نہ مانیں بلکہ تحقیق کریں لیکن اگر ثقہ خبر لائے تو قبول کریں۔

2) دوسرا قول کہتا ہے کہ قول رجالی اسی طرح سے حجت ہے جس طرح سے کسی فیلڈ کے ایکسپرٹ کی بات حجت ہے۔ مثلا ڈاکٹر کی بات کسی زخم کی دیت کے بارے میں حجت ہے کہ کتنا زخم لگا ہے۔ لہذا فقہی ابواب میں تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی فیلڈ میں اس کے ایکسپرٹ کی بات حجت ہے، اور یہی بات قول رجالی میں بھی ہے۔

3) ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ قول رجالی باب شہادت سے ہے، یعنی جس طرح عادل گواہوں کی بات حجت ہے اسی طرح علمائے رجال کا قول حجت ہے۔ ان کے مطابق ضروری ہے کہ یہ گواہ حسّی ہوں اور کم سے کم دو گواہ ہوں کیونکہ شہادت کی آیت "واستشھدو شھیدین من رجالکم" کہتا ہے کہ دو گواہ کم سے کم ضروری ہیں۔

محقق اردبیلی کے دو شاگرد صاحب معالم (شیخ حسن عاملی) اور صاحب مدارک (سید محمد موسوی عاملی) اس کے قائل ہیں۔

اگر پہلے اور دوسرے قول کو قبول کریں تو ایک گواہی یا قول کافی ہے، لیکن اگر تیسری رائے کو قبول کریں تو دو گواہیاں لازمی ہیں۔ اکثر نے پہلے دو اقوال پر تکیہ کیا ہے اور تیسرا قول اپنی محدودیت کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔

اوّل تو یہ کہ تمام جگہ پر دو شہادتیں ضروری نہیں ہیں، کیونکہ بعض جگہ ایک گواہ بھی کافی ہے ۔ مثلا کسی کا انتقال سفر میں ہو جائے تو اس کی وفات کی خبر کی حجیت کے لئے ایک گواہ کافی ہے۔ حتی بعض موارد میں ضروری بھی نہیں کہ گواہ مسلمان ہو۔

دوّم یہ کہ ہر راوی کے بارے میں ہمارے پاس دو گواہیاں نہیں مل سکتیں، لہذا اس سے توثیق و تضعیف کافی مشکل ہو جائے گی۔

اسی لئے علماء صاحب معالم و صاحب مدارک کی تصحیحات کو "صحیح اعلائی" کہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا کسی خبر کو صحیح قرار دینا ہمیں ایک قوی فیکٹر مہیّا کرتا ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں