اپنی نمازوں کی اصلاح کیجیئے








اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے: سیریز نمبر 6
حماد بن عیسی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادق(ع) نے مجھ سے کہا: کیا درست طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہو؟



میں نے کہا: میرے آقا میں نے حریز کی کتاب کو یاد کیا ہے جو نماز کے بارے میں ہے۔


آپ(ع) نے فرمایا: تمہارے لئے کافی نہیں ہے، کھڑے ہو کر نماز پڑھو


حماد بن عیسی آپ(ع) کے برابر میں قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور رکوع و سجود انجام دیا۔ 

آپ(ع) نے فرمایا: اے حمّاد! ٹھیک سے نماز نہیں پڑھ رہے ہو۔ ایک شخص کے لئے کتنی بری بات ہے کہ وہ 60 یا 70 سال کی عمر کا ہو چکا ہو اور ایک کامل نماز انجام نہ دے سکتا ہو۔

حماّد کہتے ہیں کہ میں اپنی ہی نگاہوں میں شدید شرمندہ ہوا اور کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، مجھے نماز سکھائیں

امام صادق(ع) اپنے تمام قد کے ساتھ رو بقبلہ کھڑے ہوئے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے رانوں پر رکھا اور انگلیوں کو باہم ملایا۔ دونوں پیروں کو قریب لے کر آئے یہاں تک کہ ان کے درمیان فاصلہ تین انگلیوں کے برابر رہا، اور پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا اور نہایت خشوع اور سکون کے ساتھ "اللہ اکبر" کہا 

اس کے بعد حمد اور قل ھو اللہ کو ترتیل اور خوبصورت قرات کے ساتھ پڑھا، اور پھر ایک سانس کے برابر وقفہ لیا۔ اورپھر دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے اور کہا "اللہ اکبر"

اس کے بعد رکوع میں چلے گئے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں کھلی ہوئی تھیں اپنے دونوں گھٹنوں کا احاطہ کیا اور گھٹنوں کو پیچھے اس طرح سے کیا کہ ان کی پشت ہموار ہو گئی، اگر پانی یا کوئی روغن بہایا جاتا تو وہ ہرگز نہ گرتی کیونکہ آپ کی پشت بالکل ہموار تھی۔ گردن کو جھکا کر اپنی آنکھوں کو بند کیا اور تین بار بڑے آرام و متانت سے کہا؛

سبحان ربی العظیم وبحمدہ

اس کے بعد کھڑے ہو گئے اور جب حالت سکون میں آگئے تو فرمایا: سمع اللہ لمن حمدہ

اسی طرح کھڑے ہو کر تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے۔ اس کے بعد سجدے میں گئے اور اپنے ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں اپنے چہرے کے برابر رکھا اور تین بار کہا؛

سبحان ربی الاعلی وبحمدہ

اور اپنے بدن میں کسی عضو کو نہیں ہلایا، اور آٹھ اعضاء کے ساتھ سجدہ کیا۔ دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں پیروں کے انگوٹھے، پیشانی اور ناک۔

آپ(ع) نے فرمایا: سجدہ میں ان آٹھ اعضاء میں سے سات اعضاء کا زمین پر رکھنا واجب ہے، اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: وَ أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً اور یہ اعضاء دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنوں، دونوں پیروں کے انگوٹھے، اور پیشانی ہیں۔ اور ناک کو زمین پر رکھنا سنّت ہے۔

اس کے بعد سر کو سجدہ سے اٹھایا، اور جب زمین پر حالت سکون میں بیٹھ گئے تو اللہ اکبر کہا اور اپنے بائیں طرف اس حالت میں بیٹھے کہ دائیں پیر کے اوپری حصّے کو (جس پر مسح ہوتا ہے) بائیں پیر کی پشت پر رکھا۔ اور کہا؛

استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

اور بیٹھ کر ہی دوبارہ تکبیر کہی اور دوسرے سجدے میں گئے اور وہی پڑھا جو پہلے سجدے میں پڑھا۔ رکوع و سجود میں اپنے کسی عضو کو کسی اور عضو پر نہیں رکھا، اور اپنے ہاتھوں کو (سجدے میں) بدن سے باہر کی جانب رکھا اور کہنیوں کو زمین پر نہیں رکھا۔ اسی طرح سے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر تشہد کے لئے ایسے بیٹھے کہ ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں۔ اور جب تشہد کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا: اے حمّاد اس طرح نماز پڑھا کرو۔

(کافی ج6 ص141 طبع دارالحدیث، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص300، تہذیب الاحکام ج2 ص81)

مذکورہ حدیث مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) نے نقل کیا ہے اور تینوں کی اسناد صحیح ہیں۔

اس حدیث سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں؛

اوّل) یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ نماز کی ہمارے آئمہ(ع) کی نگاہوں میں کتنی اہمیت تھی، ان کی نگاہ میں صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ نماز کو مکمّل طریقے سے پڑھنا ضروری ہے

دوّم) اس سے ان لوگوں کی بھی رد ہوتی ہے جو مروّجہ نماز کو نماز نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ ناموں کو یا نعروں کو یا دیگر افعال کو نماز کا رتبہ دیتے ہیں

سوّم) اگر آئمہ(ع) کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو نماز کو احسن طریقے سے ادا کر کے خدا کی خوشنودی حاصل کریں

چہارم) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) اپنے شیعوں کی تربیت کے لئے کتنے فکرمند رہتے تھے، اس بارے میں ہمارے علماء و عمائدین کو سوچنا چاھئے۔

اصلاح نماز پر ہماری پرانی سیریز کی روشنی میں یہ حدیث پڑھیں تو ان تحریروں کی بھی تاکید مکرّر ہو جاتی ہے۔

وما علینا الاّ البلاغ



اپنی نمازوں کی اصلاح کیجئے: سیریز نمبر 7
امام زمانہ (عج) اپنی ایک توقیع میں فرماتے ہیں؛
مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ أَخَّرَ الْغَداةَ إِلى أَنْ تَنْقَضيِ الْنُجُومْ
"ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جو نماز فجر پڑھنے میں اتنی تاخیر کرے کہ آسمان سے ستارے غائب ہو جائیں۔"
(الغيبة، طوسى، ص271، ح236 ; احتجاج، ج2، ص298 ; بحارالأنوار، ج52، ص16، ح12 ; وسائل الشيعة، ج4، ص201، ح4919)
ذرا غور کیجئے، امام زمانہ(عج) ان لوگوں پر لعنت کر رہے ہیں جو نماز فجر کو سبک سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر تاخیر سے پڑھتے ہیں۔ تو ان لوگوں کا سوچئے جو نماز فجر پڑھتے ہی نہیں !!!
اللہ اکبر!
دیکھا یہ گیا ہے کہ نمازی حضرات باقی نمازیں تو وقت پر پڑھتے ہیں لیکن فجر پڑھنے میں تساہل سے کام لیتے ہیں اور فجر کے وقت جاگنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یا کوئی جگائے تو نماز فجر کو اہمیت دیئے بغیر سو جاتے ہیں۔
اور جو لوگ نمازی نہیں ہیں وہ یہ سوچیں کہ ایک وقت کی نماز کو تاخیر سے پڑھنے پر یہ حال ہے، جو سرے سے کوئی نماز پڑھتے ہیں نہیں ان کا کیا حال ہوگا؟
اپنے وقت کے امام کے فرمان کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں۔
یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ آپ کے دوست احباب اپنی نمازوں کی اصلاح کریں۔



٭٭نماز جماعت کی اہمیت٭٭

آئیے ہم یہاں پر کچھ احادیث نماز جماعت کی اہمیت کے پیش نظر پیش کرتے ہیں؛

1) مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْهُ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فَلَا صَلَاةَ لَه

امام باقر(ع): "امیر المؤمنین ع نے فرمایا کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور پھر کسی عذر کے بغیر لبیک نہ کہے (یعنی جماعت میں حاضر نہ ہو) تو اس کی نماز نہیں ہے۔"

(الکافی: ج3 ص372، تہذیب الاحکام: ج3 ص24، وسائل الشیعہ: ج8 ص291)

مذکورہ حدیث کی دو اسناد ہیں، اور دونوں میں جلیل القدر ثقات موجود ہیں۔ پس درایت کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح اعلائی کے مرتبے پر ہے۔

2) مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ تَفْضُلُ عَلَى كُلِّ صَلَاةِ الْفَرْدِ بِأَرْبَعٍ وَ عِشْرِينَ دَرَجَةً تَكُونُ خَمْساً وَ عِشْرِينَ صَلَاة

امام صادق(ع): "جماعت میں نماز تمام فرادی نمازوں سے چوبیس گنا افضل ہے، یعنی 25 نمازوں کے برابر درجہ ہے۔"

(تہذیب الاحکام: ج ص25، وسائل الشیعہ: ج8 ص285)

اس حدیث کے بھی تمام راوی ثقہ ہیں، پس یہ روایت بھی صحیح کے درجے پر ہے۔ نماز جماعت تب فرادی نماز سے چوبیس گنا افضل ہے جب ایک امام اور ایک ماموم ہوں، جتنے مقتدی/ ماموم بڑھیں گے اتنا ہی ثواب میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ شہید ثانی(رض) شرح لمعہ میں فرماتے ہیں کہ مذکورہ ثواب اس صورت میں ہے جب امام غیر عالم ہوگا، اگر وہ (صحیح معنوں میں) عالم ہوگا تو نماز جماعت کا ثواب بڑھ جائے گا اور اس کا درجہ ہزار فرادی نمازوں کے برابر ہوگا۔ اور جیسے جیسے ماموم بڑھیں گے ثواب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دیگر عوامل کے سبب اس ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مثلا اگر یہ جماعت بازار کی مسجد میں منعقد ہو تو ثواب میں اضافہ ہوگا، اگر محلّے کی مسجد میں ہو مزید اضافہ ہوگا، شہر کی جامع مسجد میں ہو تو اس میں اور اضافہ ہوگا۔ اسی طرح مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اور آئمہ(ع) کے روضوں کی مساجد میں یہ ثواب بیشتر ہوتا چلا جائے گا۔

3) قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَهُمُّ بِعَذَابِ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيعاً حَتَّى لَا يُرِيدَ أَنْ يُحَاشِيَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالْمَعَاصِي وَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى الشِّيبِ نَاقِلِي أَقْدَامِهِمْ إِلَى الصَّلَوَاتِ وَ الْوِلْدَانِ يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ رَحِمَهُمْ وَ أَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِك

امام علی(ع): "اللہ تعالی جب ارادہ کرتا ہے کہ اہل زمین کو عذاب کرے اور کسی ایک آدمی کو بھی ان کی برائی اور گناہوں کی وجہ سے نہ چھوڑے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ بوڑھے اپنے قدم نماز (جماعت) کی طرف اٹھا رہے ہیں اور چھوٹے بچے قرآن سیکھ رہے ہیں، تو اللہ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو مؤخر کر دیتا ہے۔"

(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص239، علل الشرائع: ج2 ص521)

4) عَنِ النَّبِيِّ ص مَنْ صَلَّى أَرْبَعِينَ يَوْماً فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى كُتِبَ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاق

نبی کریم(ص): "جو شخص چالیس دن جماعت کو تکبیرۃ الاولی کے ساتھ پڑھے تو اس کے لئے دو چیزوں کی برائت (امان) لکھ دی جاتی ہے، ایک جہنّم سے برائت اور دوسرا منافقت سے برائت۔"

(بحارالانوار: ج85 ص4، مستدرک الوسائل: ج46ص448)

تکبیرۃ الاولی سے مراد نماز کی پہلی تکبیر ہے۔ احادیث میں جماعت کو پڑھنے کا ثواب موجود ہے لیکن اس جماعت کو بہترین کہا گیا ہے جس میں ماموم تکبیرۃ الاولی کو درک کرے یعنی امام جماعت کی پہلی تکبیر میں موجود ہو۔

تمام مؤمنین سے گزارش ہے کہ خاکسار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ



1 تبصرہ:

  1. سلام علیکم اس حدیث میں معلون سے مراد کیا ہے وضاحت فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں