عقائد کی اہمیت اور معرفت کیا ہے؟
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ يَرْفَعُهُ إِلَى أَحَدِهِمْ ع أَنَّهُ قَالَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صَلَاةً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ حَجّاً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صَدَقَةً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صِيَاماً مِنْ بَعْضٍ وَ أَفْضَلُكُمْ أَفْضَلُ مَعْرِفَة
ابن ابی عمیر امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) میں سے کسی ایک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: تم میں سے کچھ شیعہ زیادہ نماز گزار ہوتے ہیں، اور کچھ دوسروں کی نسبت زیادہ حج بجا لاتے ہیں اور کچھ باقیوں سے زیادہ صدقہ دیتے ہیں اور بعض باقیوں سے زیادہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن تم میں سے افضل وہی ہیں جو معرفت میں افضل ہوں۔
(صفات الشیعہ از شیخ صدوق: حدیث 28)
یہ روایت مرفوع ہے لیکن ابن ابی عمیر نے رفع کیا ہے، لہذا یہ حدیث امام خمینی سمیت کئی علماء کے نزدیک معتبر ہے۔
معرفت کیا ہے؟ ہر چیز کو صحیح انداز میں پہچاننا معرفت کہلاتا ہے۔ لہذا توحید کی صحیح پہچان بھی معرفت ہے، تمام انبیاء(ع) کو صحیح انداز میں پہچاننا خصوصا رسول اللہ(ص) کے مقام و منزلت کی صحیح معرفت اختیار کرنا اور اہل بیت(ع) سے ایسی محبّت کرنا جو نہ افراط پر مبنی ہو اور نہ تفریط پر، یہ سب معرفت کے درجات ہیں۔ چنانچہ نہ تو غلو معرفت ہے اور نہ تقصیر معرفت ہے۔
رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے: أوّل العلم معرفة الجبّار و آخر العلم تفويض الأمر اليه۔۔۔۔۔ یعنی "علم کا پہلا مرحلہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنا ہے، اور علم کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ تمام امور فقط اللہ کو تفویض کئے جائیں"۔۔
تمام تکوینی امور اور ربوبیت و خلق و رزق کو صرف اللہ کے لئے مخصوص کرنا اور اپنی دعاؤں کا ملجا و ماوی اللہ کو سمجھنا اور صرف اسی سے دعا مانگنا اللہ کی صحیح معرفت ہے (فلا تدعو مع اللہ احدا)۔ توحید کی اصل روح کو درک کئے بغیر باقی کوئی بھی عقیدہ استوار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ توحید ہر عقیدے کی بنیاد ہے، اگر مضبوط بنیاد کے بغیر عمارت کھڑی کی جائے تو وہ جلد منہدم ہو جاتی ہے۔
اب اس گفتگو کی روشنی میں اس حدیث کو سمجھیں، معصوم(ع) سب سے بنیادی چیز "عقائد" کو قرار دے رہے ہیں، جس کے عقائد صحیح انداز میں استوار ہوں وہ سب سے افضل ہے۔ معرفت حاصل کرنے کے بعد عبادت کی جائے تو اس عبادت میں بھی جان پیدا ہوتی ہے۔ لہذا وہی عبادتیں افضل ہیں جو تمام عقائد کی صحیح معرفت اور روح کے ساتھ کی جائیں، ایسی قلیل عبادت بھی ان کثیر عبادتوں سے افضل ہے جو بغیر معرفت کے کی جائے۔
وما علینا الا البلاغ
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ يَرْفَعُهُ إِلَى أَحَدِهِمْ ع أَنَّهُ قَالَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صَلَاةً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ حَجّاً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صَدَقَةً مِنْ بَعْضٍ وَ بَعْضُكُمْ أَكْثَرُ صِيَاماً مِنْ بَعْضٍ وَ أَفْضَلُكُمْ أَفْضَلُ مَعْرِفَة
ابن ابی عمیر امام باقر(ع) یا امام صادق(ع) میں سے کسی ایک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: تم میں سے کچھ شیعہ زیادہ نماز گزار ہوتے ہیں، اور کچھ دوسروں کی نسبت زیادہ حج بجا لاتے ہیں اور کچھ باقیوں سے زیادہ صدقہ دیتے ہیں اور بعض باقیوں سے زیادہ روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن تم میں سے افضل وہی ہیں جو معرفت میں افضل ہوں۔
(صفات الشیعہ از شیخ صدوق: حدیث 28)
یہ روایت مرفوع ہے لیکن ابن ابی عمیر نے رفع کیا ہے، لہذا یہ حدیث امام خمینی سمیت کئی علماء کے نزدیک معتبر ہے۔
معرفت کیا ہے؟ ہر چیز کو صحیح انداز میں پہچاننا معرفت کہلاتا ہے۔ لہذا توحید کی صحیح پہچان بھی معرفت ہے، تمام انبیاء(ع) کو صحیح انداز میں پہچاننا خصوصا رسول اللہ(ص) کے مقام و منزلت کی صحیح معرفت اختیار کرنا اور اہل بیت(ع) سے ایسی محبّت کرنا جو نہ افراط پر مبنی ہو اور نہ تفریط پر، یہ سب معرفت کے درجات ہیں۔ چنانچہ نہ تو غلو معرفت ہے اور نہ تقصیر معرفت ہے۔
رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے: أوّل العلم معرفة الجبّار و آخر العلم تفويض الأمر اليه۔۔۔۔۔ یعنی "علم کا پہلا مرحلہ اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنا ہے، اور علم کا آخری مرحلہ یہ ہے کہ تمام امور فقط اللہ کو تفویض کئے جائیں"۔۔
تمام تکوینی امور اور ربوبیت و خلق و رزق کو صرف اللہ کے لئے مخصوص کرنا اور اپنی دعاؤں کا ملجا و ماوی اللہ کو سمجھنا اور صرف اسی سے دعا مانگنا اللہ کی صحیح معرفت ہے (فلا تدعو مع اللہ احدا)۔ توحید کی اصل روح کو درک کئے بغیر باقی کوئی بھی عقیدہ استوار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ توحید ہر عقیدے کی بنیاد ہے، اگر مضبوط بنیاد کے بغیر عمارت کھڑی کی جائے تو وہ جلد منہدم ہو جاتی ہے۔
اب اس گفتگو کی روشنی میں اس حدیث کو سمجھیں، معصوم(ع) سب سے بنیادی چیز "عقائد" کو قرار دے رہے ہیں، جس کے عقائد صحیح انداز میں استوار ہوں وہ سب سے افضل ہے۔ معرفت حاصل کرنے کے بعد عبادت کی جائے تو اس عبادت میں بھی جان پیدا ہوتی ہے۔ لہذا وہی عبادتیں افضل ہیں جو تمام عقائد کی صحیح معرفت اور روح کے ساتھ کی جائیں، ایسی قلیل عبادت بھی ان کثیر عبادتوں سے افضل ہے جو بغیر معرفت کے کی جائے۔
وما علینا الا البلاغ
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں