سوال: کیا مولا علی(ع) سے منسوب یہ مشہور قول درست ہے "یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے"؟
جواب: یہ قول مولا علی(ع) سے منسوب اور مشہور ہے۔ اصل عربی متن ہے؛
انظر إلى ما قال و لا تنظر إلى من قال
"یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"
یہ حدیث مولا علی(ع) کے اقوال میں سے ایک ہے۔ آپ کے اقوال کی مشہور کتاب غرر الحکم و درر الکلم میں صفحہ 58 پر حدیث نمبر 612 اور صفحہ 438 میں حدیث نمبر 100337 پر موجود ہے۔ غررر الحکم چھٹی صدی ہجری کے ایک شیعہ عالم عبدالواحد تمیمی آمدی کی تصنیف ہے۔
نیز مشہور فقیہ اور محدّث ابن ادریس حلّی نے اپنی مشہور کتاب "السّرائر الحاوی لتحریر الفتاوی" میں تین جگہوں پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔ سب سے پہلے کتاب کے مقدّمے میں صفحہ 41 پر، اس کے بعد پہلی جلد میں تیمّم کے باب اور اس کے احکام میں صفحہ 135 پر، اور پھر تیسری جلد میں مجوس کی وراثت کے باب میں نقل کیا ہے۔
لہذا یہ روایت مستند ہے اور اس کا متن بھی بہترین ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس قول پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
انظر الیٰ ما قال ولا تنظر الیٰ من قال (امیر المؤمنین علیہ السلام---کتاب غررالحکم)
جواب دیںحذف کریںاس طرف توجہ دو جو کہا جا رہا ہے نا کہ اس طرف توجہ دو کہ کون کہ رہا ہے.
-------------------------------
ہم اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ اپنے پسندیدہ افراد کے اقوال کی حمایت اور ناپسندیدہ افراد کے اقوال کی مخالفت میں صرف کر دیتے ہیں. جس کے سبب بہت زیادہ خوف رہتا ہے کہ حق کی ہمنوائی ترک ہو جائے گی.
بعض اوقات ہمارے بہت پسندیدہ اور طاقت ور افراد ایسے فیصلے صادر فرماتے ہیں جو حق کے عین منافی ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہم کسی نہ کسی طور معاشرت یا معیشت کےبندھن میں ان سے جڑے ہوتے ہیں تو ہم اسے من و عن قبول کر لیتے ہیں یا برداشت کر لیتے ہیں. اسی طرح معاشرے کے کمزور, نا تواں یا معاشرتی و سیاسی مخالفت کی بناء پر ہم اپنے نا پسندیدہ افراد کی حق گوئی کو قابل شنوائی نہیں سمجھتے یا انکی مخالفت تک کر دیتے ہیں. ہر دو صورت میں ہم حق کے دشمن اور باطل کے طرفدار بن جائیں گے اگر ہم نے حقیقت کلام پر غور کئے بناء اسے ترک کر دیا.
تحقیق کی دنیا کی بھی ایک بنیادی ضرورت یہی ہے جسے content analysis کہا جاتا ہے کہ جو موضوع سامنے ہے اسکے مندرجات کو سمجھا جائے اور غیر متعلقہ امور کو زیر توجہ نہ لایا جائے.
خلیفہ عثمان کے عہد میں جناب ابو ذر غفاری کی مخالفت اسی لئے کی گئی کہ کون کہ رہا ہے اور کیا کہ رہا ہے پرتوجہ نہ دی گئی.
انکی کمزور مالی حیثیت کو انکی علمی و ادبی کمزوری کا سبب جانا گیا حالنکہ وہ حکومت کے ایوانوں میں موجود سب علماء سے بزرگ و اعلم تھے.
خود جناب امیر علیہ السلام کو اسی لئے ترک کیا گیا کہ وہ کمسن ہیں. کون کو کس پر افضل جانا گیا.
جب سرکار حجت علیہ السلام کی ظہور پُر نور ہوگا تو کئی وہ لوگ جنہیں ہم اپنا نوکر, معاشرے کا کمزور فرد یا چھوٹا سمجھتے ہونگے انہیں ہمارا امیر بنایا جائے گا اور ہمیں انکی اطاعت کا امر ہوگا. باپ کو ممکن ہے بیٹے کی اطاعت کرنا پڑے, آجر کو اجیر کی اطاعت کرنا پڑے, وزیر کو ووٹر کی اطاعت کرنا پڑے.
اگر ہم اپنے محلے کے, اپنے معاشرے کے, خاندان کے, اور کاروبار کے کمتر یا چھوٹے لوگوں کو امر امام سے اپنا امیرماننے کو تیار ہیں تو ہم ظہور امام کے لئے آمادہ ہیں. ورنہ حضور پاک نے اسامہ بن زید کی قیادت میں جو لشکر تیار کیا تھا ہم بھی اسی کے بھگوڑوں میں شمار ہونگے جہاں لوگوں نے امیر کو چھوڑ کر خود کو خلیفہ و افضل جانا.
احقر: سید محمد مصباح حسین حسنی.
عام لوگ صحیح اور غلط بات/ کام میں فرق نہیں کر سکتے- اسی لئے اتنے زیادہ فرقے اور گروہ ہیں دین سے جڑے ہوئے لوگوں کے بھی اور دنیا داروں کے بھی۔ اب کیا کریں؟
جواب دیںحذف کریں