--- ٭ تراویح ۔۔۔۔۔ فقہ جعفریہ کی روشنی میں ٭ ---
تحریر: سید جواد حسین رضوی
پچھلے دنوں ایک پوسٹ میں ہم نے یہ ثابت کیا تھا کہ ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں مخصوص نافلہ نمازیں ہیں جن کی تاکید رسول اللہ(ص) اور آئمہ معصومین(ع) کیا کرتے تھے۔ لیکن امّت نے ان نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی شروعات کر دی جس کو "تراویح" کہتے ہیں۔ یہ بدعت رسول اللہ(ص) کی زندگی میں ہی شروع ہونے والی تھی لیکن انہوں نے اس کا تدارک کرنے کے لئے مسجد میں ان نافلہ نمازوں کو پڑھنا ترک کر دیا۔ چنانچہ یہ معتبر حدیث ملاحظہ ہو؛
سَأَلَ زُرَارَةُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ الْفُضَيْلُ أَبَا جَعْفَرٍ الْبَاقِرَ وَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقَ ع عَنِ الصَّلَاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ نَافِلَةً بِاللَّيْلِ جَمَاعَةً فَقَالا إِنَّ النَّبِيَّ ص كَانَ إِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ انْصَرَفَ إِلَى مَنْزِلِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَقُومُ فَيُصَلِّي فَخَرَجَ فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِيُصَلِّيَ كَمَا كَانَ يُصَلِّي فَاصْطَفَّ النَّاسُ خَلْفَهُ فَهَرَبَ مِنْهُمْ إِلَى بَيْتِهِ وَ تَرَكَهُمْ فَفَعَلُوا ذَلِكَ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَقَامَ ص فِي الْيَوْمِ الثَّالِث عَلَى مِنْبَرِهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مِنَ النَّافِلَةِ فِي جَمَاعَةٍ بِدْعَةٌ وَ صَلَاةَ الضُّحَى بِدْعَةٌ أَلَا فَلَا تَجْتَمِعُوا لَيْلًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِصَلَاةِ اللَّيْلِ وَ لَا تُصَلُّوا صَلَاةَ الضُّحَى فَإِنَّ تِلْكَ مَعْصِيَةٌ أَلَا فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلَّ ضَلَالَةٍ سَبِيلُهَا إِلَى النَّارِ ثُمَّ نَزَلَ ص وَ هُوَ يَقُولُ قَلِيلٌ فِي سُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ فِي بِدْعَة
زرارہ، محمد بن مسلم و فضیل جیسے جلیل القدر اصحاب نے امام باقر(ع) و امام صادق(ع) سے رمضان کے مہینے میں رات کے نافلہ کو جماعت سے پڑھنے کے متعلق پوچھا تو امام(ع) نے جواب دیا کہ رسول پاک(ص) جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو اپنے گھر چلے جاتے۔ پھر رات کے آخری حصّے میں مسجد واپس آتے جہاں نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ چنانچہ جب شھر رمضان کی پہلی رات آئی تو حسب معمول (نافلہ) پڑھنے کے لئے مسجد تشریف لائے، اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو لوگوں نے ان کے پیچھے صفیں باندھ لیں۔ آپ(ص) ان کے سامنے ان کو ترک کر کے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے ایسا مسلسل تین راتوں میں کیا۔ تیسرے دن آپ(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: "اے لوگوں رمضان کی راتوں میں نافلہ کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے، اور چاشت کی نماز بھی بدعت ہے۔ آگاہ رہو کہ رمضان کے مہینے میں رات کی نافلہ نمازیں پڑھنے کے لئے اجتماع مت کرو، اور چاشت کی نماز بھی نہ پڑھو، کیونکہ یہ گناہ ہے۔ یاد رکھو کہ ہر بدعت گمراھی ہے اور ہر گمراھی کا ٹھکانہ جہنّم ہے۔"
پھر آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اترے: "وہ قلیل عبادت جو سنّت پر عمل کرتے ہوئے کی جائے اس کثیر عبادت سے افضل ہے جو بدعت پر عمل کرتے ہوئے کی جائے۔"
(من لا يحضره الفقيه: ج2، ص: 137، حدیث 1964)
ایک اور روایت میں اس واقعے کو نقل کرنے سے پہلے امام صادق(ع) فرماتے ہیں؛
صَومُ شَهرِ رَمَضانَ فَريضَةٌ ، وَالقِيامُ في جَماعَةٍ في لَيلِهِ بِدعَةٌ ، وما صَلاّها رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله ولَو كانَ خَيراً ما تَرَكَها
امام صادق(ع): "رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہیں اور اس کی راتوں میں جماعت کے لئے کھڑے ہونا بدعت ہے، رسول اللہ(ص) نے یہ نمازیں (جماعت میں) کبھی نہیں پڑھیں اور اگر یہ ٹھیک ہوتا تو آپ اس کو متروک قرار نہ دیتے۔"
(دعائم الاسلام: ج1 ص213، بحارالانوار: ج97 ص 381)
یہی واقعہ جس کو امام جعفر صادق(ع) نے نقل کیا ہے، اہل سنّت کی صحاح میں بھی نقل ہوا ہے۔ صحیح مسلم و بخاری و دیگر کتب معتبرہ میں ابو ھریرہ سے روایت ہے؛
كانَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يُرَغِّبُ في قِيامِ رَمَضانَ مِن غَيرِ أن يَأمُرَهُم فيهِ بِعَزيمَةٍ ، فَيَقولُ : «مَن قامَ رَمَضانَ إيماناً وَاحتِساباً غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ» . فَتُوُفِّيَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وَالأَمرُ عَلى ذلِكَ ، ثُمَّ كانَ الأَمرُ عَلى ذلِكَ في خِلافَةِ أبي بَكرٍ وصَدراً مِن خِلافَةِ عُمَرَ عَلى ذلِكَ
یعنی رسول اللہ(ص) ماہ رمضان میں عبادت کی ترغیب کرتے تھے اور فرماتے تھے "جو شخص بھی رمضان کے مہینے میں ایمان کی بدولت اللہ کے لئے (عبادت) کے لئے قیام کرے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں"۔ پھر آپ(ص) کا وصال ہوا اور اسی طرح سے یہ امر جاری رہا (یعنی نافلہ کو فرادی پڑھنا)، ابو بکر کی خلافت میں بھی ایسا ہی رہا اور خلیفۂ دوّم عمر کے دور میں بھی۔
(صحيح مسلم : ۱/۵۲۳/۱۷۴ ، صحيح البخاري : ۲ / ۷۰۷ / ۱۹۰۵، الموطّأ : ۱/۱۱۳/۲ ، السنن الكبرى : ۲ / ۶۹۳ / ۴۵۹۹ وص ۶۹۴ / ۴۶۰۲)
گویا رسول اللہ(ص) کی سنّت تھی کہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو خود پڑھتے تھے اور جماعت سے منع فرمایا ہے۔ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی رسم خلیفۂ دوّم حضرت عمر بن خطاب نے شروع کی۔
خَرَجتُ مَعَ عُمَرَ بنِ الخَطّابِ لَيلَةً في رَمَضانَ إلَى المَسجِدِ ، فَإِذَا النّاسُ أوزاعٌ مُتَفَرِّقونَ ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفسِهِ ، ويُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلّي بِصَلاتِهِ الرَّهطُ ، فَقالَ عُمَرُ : إنّي أرى لَو جَمَعتُ هؤُلاءِ عَلى قارِىً?واحِدٍ لَكانَ أمثَلَ ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُم عَلى اُبَيِّ بنِ كَعبٍ ، ثُمَّ خَرَجتُ مَعَهُ لَيلَةً اُخرى وَالنّاسُ يُصَلّونَ بِصَلاةِ قارِئِهِم۔ قالَ عُمَرُ : نِعمَ البِدعَةُ هذِهِ!
راوی کہتا ہے کہ عمر بن الخطاب کے ساتھ رمضان کی کسی رات مسجد میں آیا، لوگوں کو ہم نے متفرّق دیکھا، ہر شخص خود نماز پڑھ رہا تھا، یا ایک قلیل جماعت کسی ایک شخص کے پیچھے نماز پڑھ رہی تھی۔ عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہوں تو میری نگاہ میں بہتر ہے۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا اور سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ اگلی رات کو میں دوبارہ ان کے ساتھ باہر نکلا، لوگ ایک قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ خلیفۂ دوّم عمر نے کہا کہ "یہ کتنی بہترین بدعت ہے۔"
(صحيح البخاري : ۲ / ۷۰۷ / ۱۹۰۶ ، الموطّأ : ۱ / ۱۱۴ / ۳ ، السنن الكبرى : ۲ / ۶۹۴ / ۴۶۰۳ وح .۴۶۰۴)
خلیفۂ دوّم نے اس سلسلے کو شروع کیا اور اہل سنّت آج تک ان کی اس سنّت پر عمل کرتے ہیں جبکہ شیعیانِ علی رسول اللہ(ص) کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ان نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
بعد میں مولا علی(ع) نے اپنی ظاہری خلافت میں اس بدعت کے خلاف اقدام کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اپنی جہالت پر باقی رہے۔ اس ضمن میں ہم مندرجہ ذیل معتبر حدیث پیش کرتے ہیں؛
عَنْ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع الْكُوفَةَ أَمَرَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع أَنْ يُنَادِيَ فِي النَّاسِ لَا صَلَاةَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ جَمَاعَةً فَنَادَى فِي النَّاسِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ع بِمَا أَمَرَهُ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ مَقَالَةَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ صَاحُوا وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاهْ فَلَمَّا رَجَعَ الْحَسَنُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ لَهُ مَا هَذَا الصَّوْتُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ النَّاسُ يَصِيحُونَ وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاهْ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع قُلْ لَهُمْ صَلُّوا
امام صادق(ع) سے رمضان کی نافلہ نمازوں کے مساجد میں پڑھے جانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ(ع) نے فرمایا: "جب امیر المؤمنین(ع) نے کوفہ میں قدم رکھا تو آپ نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کروائیں کہ رمضان کے مہینے میں جماعت کے ساتھ (نافلہ) نماز نہیں ہے۔ امام حسن(ع) نے منادی کروائی جیسا کہ امیر المؤمنین(ع) کا حکم تھا۔ جب لوگوں نے امام حسن(ع) کی ندا سنی تو فریاد کرنے لگے: وا عمراہ، وا عمراہ ۔۔۔ یعنی ھائے عمر، ھائے عمر ۔۔۔۔۔
امام حسن(ع) واپس امام علی(ع) کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ تو امام حسن(ع) نے جواب دیا کہ اے امیرالمؤمنین(ع) لوگ ھائے عمر، ھائے عمر کی صدا بلند کر رہے ہیں۔ تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ پھر تم لوگ جیسے چاہے نماز پڑھو۔
(تهذيب الأحكام: ج3، ص: 70، وسائل الشیعہ: ج8 بَابُ عَدَمِ جَوَازِ الْجَمَاعَةِ فِي صَلَاةِ النَّوَافِلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَا فِي غَيْرِهِ عَدَا مَا اسْتُثْنِي)
اس حدیث کی سند معتبر ہے اور علم درایت کے حساب سے مؤثق حدیث کہلائی جائے گی۔ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام علی(ع) نے اس بدعت کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اپنی پرانی ڈگر پر قائم رہنا چاہتے تھے اور ایک سخت فتنہ برپا ہونے کا خطرہ تھا جس کی وجہ سے امام علی(ع) نے لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔
اس کے بعد ہمیں باقی آئمہ اھل بیت(ع) سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے تراویح کو بدعت کہا۔ یہاں تک مشہور سنّی فقیہ امام شوکانی نے بھی لکھا کہ اہل بیت(ع) کے نزدیک تراویح بدعت بھی۔ امام رضا(ع) سے ہمیں یہ حدیث ملتی ہے؛
الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شُعْبَةَ فِي تُحَفِ الْعُقُولِ عَنِ الرِّضَا ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: وَ لَا تَجُوزُ التَّرَاوِيحُ فِي جَمَاعَة
امام رضا(ع): تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
(تحف العقول: 419، وسائل الشیعہ: ج8 بَابُ عَدَمِ جَوَازِ الْجَمَاعَةِ فِي صَلَاةِ النَّوَافِلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَا فِي غَيْرِهِ عَدَا مَا اسْتُثْنِي)
ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ امّت اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہوئی ہے، ایک طرف تو اہل سنّت ہیں جنہوں نے رمضان کی نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بدعت شروع کی اور اس پر قائم و دائم ہیں، اور دوسری طرف شیعہ ہیں جنہوں نے رمضان کی نافلہ نمازوں کو پڑھنا ہی ترک کیا اور روزہ صرف دن بھر بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام رہ گیا۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں سنّتوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہر طرح کے بدعتوں سے دور رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
وما علینا الاّ البلاغ
اس پہ کوئی تبصرہ ہی نہیں کیوں کہ جب رسول اکرم صلو علیہ وا لہ نے اپنے آخری خطبہ میں واضح فرما دیا تھا کہ دین مکمل ہو چکا تو اسکے بعد جو عبادت دین میں شامل ہوئی بدعت ہے ہیں اگرچہ وہ نیک مقاصد پہ مبنی کیوں نا ہوں وہ اپ سرکار دو عالم کے آخری خطبہ کی نفی کرتی نظر آتی ہیں ۔
جواب دیںحذف کریں