٭کیا واقعی شیاطین رمضان میں قید کئے جاتے ہیں؟٭
سوال: کہا جاتا ہے کہ رمضان میں شیطان جکڑے جاتے ہیں اور رمضان کے بعد آزاد کئے جاتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں پھر بھی گناہ ہوتے ہیں، عملی طور پر تو شیاطین جکڑے نہیں جاتے۔
جواب: احادیث میں شیاطین کے جکڑے جانے اور رمضان کے بعد ان کو آزاد کئے جانے کا ذکر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عام تصوّر یہی ہے کہ ان کو زنجیروں میں جکڑا گيا ہے اور وہ پورا مہینہ قید ہوتا ہے، یہ تصوّر غلط ہے۔ اس سے حقیقت میں قید کیا جانا مراد نہیں۔
رمضان المبارک میں شیطان کو جکڑے جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیاطین اس ماہ مبارک میں انسانوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے انسان کی حیوانی قوّت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے اور انسان ان گناہوں سے دور ہو جاتا ہے جو عموما وہ عام دنوں میں کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص رمضان میں ان باتوں کا بہت خیال رکھتا ہے، اور جو حضرات روزے رکھتے ہیں ان کا روزہ ان کو بہت سارے گناہوں سے باز رکھتا ہے۔
اس ماہ مبارک میں قوّت عقلیہ قوی ہوتی ہے جو نیکیوں کا باعث ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس ماہ انسان کثرت سے عبادت کی طرف مائل ہوتا ہے اور شیطانی وسوسوں میں نہیں آتا۔
اور شیطان کی مثال اس کتّے کی طرح ہے جس کے بھونکنے سے ہم جتنا ڈریں اتنا وہ شیر ہوتا ہے، اور اگر ہم اس کے بھونکنے کی پرواہ نہ کریں تو رفتہ رفتہ اس کی آواز مغلوب ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ بھونکنا بند کر دیتا ہے۔ روزہ ہمیں شیطان سے دور رہنا سکھاتا ہے، جب ہم اس کی خواہش کے برعکس کوئی نیک کام انجام دیں یا کسی گناہ سے باز رہیں تو وہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان اس ماہ مبارک سے بہت ڈرتا ہے جہاں اس کے دام کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اگر کوئی اس ماہ گناہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تربیت میں غافل رہا، یا تو روزے نہیں رکھے یا اگر رکھے بھی تو روزے کا حق ادا نہ کر سکا۔ روزے کی حالت میں انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو چاہے وہ مبطلات روزہ میں سے نہ بھی ہو، ہمارا نفس ہمیں ضرور ٹوکتا ہے کہ اے غافل! کچھ خیال کر کہ تو روزے سے ہے۔ اگر ہم نے ضمیر کی اس آواز کو نظر انداز کیا تو شیطان کو موقع مل جاتا ہے اور ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہ بہت خوش ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص رمضان المبارک میں بھی گناہ کرنے پر راغب ہے۔
رمضان المبارک کے بعد شیطان کا آزاد ہونا بھی ایک کنایہ ہے۔ کوئی یہ بات درک کرنا چاہے تو رمضان المبارک کے فورا بعد چاند رات میں دیکھے کہ شیطان کس طرح بیباک ہو جاتا ہے کیونکہ اب لوگوں کے نفوس گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اگر کسی کو توفیق ہو تو رمضان کے فورا بعد عید الفطر والے دن فجر کی نماز مسجد میں پڑھنے جائے اور راستے میں لوگوں کے گھروں کی طرف توجّہ کرے۔ وہ واضح طور پر مشاہدہ کرے گا کہ جن گھروں میں اس وقت لائٹ جلی ہوتی تھی اور لوگ سحری کے مبارک اوقات کو درک کرتے تھے آج سب سوئے ہوئے ہیں۔ آج ان تمام گھروں کی لائٹ بند ہے، کل تک یہ لوگ جاگے ہوتے تھے، کوئی سحری کھا کر ثواب کماتا تھا، کوئی تہجد کی نماز پڑھتا تھا، کوئی دعائے سحر پڑھتا تھا، کوئی مسواک کرتا تھا۔۔ غرض اس بابرکت لمحات میں نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی تھیں۔ لیکن وائے ہو ان لوگوں پر جو رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد ان مبارک لمحات کو درک کرنے کی سعادت سے محروم رہتے ہیں، جو سحر خیزی کی اس نعمت سے قطع تعلّق کر لیتے ہیں۔ انہی حقائق کو احادیث میں کنایۃ کے طور پر شیاطین کا آزاد ہونا کہا گیا ہے۔ شیاطین کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوگی کہ رمضان المبارک ختم ہو گیا ہے؟ اور جب آپ نماز فجر پڑھنے مسجد میں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نمازیوں کی تعداد میں بہت کمی ہوگئی ہے، جبکہ ماہ رمضان میں مساجد بہت زیادہ آباد ہوتی تھیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں روزے کی فرضیّت کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان ایک ماہ اپنی کردار سازی کرےاور رمضان کے نتیجے میں جو انسان تیّار ہو وہ سارا سال اللہ کی عبادت اور اس کے مخلوقات کی خدمت کرتا رہے۔ لیکن افسوس جیسے ہی یہ مہینہ ختم ہوتا ہے ہم سب اسی پرانی ڈگر پر واپس لوٹ آتے ہیں۔ تہجّد پڑھنا تو دور کی بات، ہم میں سے اکثر فجر بھی نہیں پڑھتے۔ چاند رات میں بازاروں کے گشت اور صبح تھکن کی وجہ سے فجر بھی نہیں پڑھتے اور بادل نخواستہ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں جو واجب بھی نہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس مبارک مہینے میں اپنے کردار سازی کی توفیق عنایت فرمائے، اور ماہ مبارک کے فیوض و برکات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعادت نصیب کرے تاکہ ہم رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد ایک بہترین مسلمان و مومن کی صورت میں سامنے آئیں۔
آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہمیشہ شیطان کو شکست فاش دیتے رہیں گے اور اس کی ناک زمین پر رگڑتے رہیں گے۔
وما علینا الاّ البلاغ
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
سوال: کہا جاتا ہے کہ رمضان میں شیطان جکڑے جاتے ہیں اور رمضان کے بعد آزاد کئے جاتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان میں پھر بھی گناہ ہوتے ہیں، عملی طور پر تو شیاطین جکڑے نہیں جاتے۔
جواب: احادیث میں شیاطین کے جکڑے جانے اور رمضان کے بعد ان کو آزاد کئے جانے کا ذکر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عام تصوّر یہی ہے کہ ان کو زنجیروں میں جکڑا گيا ہے اور وہ پورا مہینہ قید ہوتا ہے، یہ تصوّر غلط ہے۔ اس سے حقیقت میں قید کیا جانا مراد نہیں۔
رمضان المبارک میں شیطان کو جکڑے جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیاطین اس ماہ مبارک میں انسانوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے انسان کی حیوانی قوّت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے اور انسان ان گناہوں سے دور ہو جاتا ہے جو عموما وہ عام دنوں میں کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص رمضان میں ان باتوں کا بہت خیال رکھتا ہے، اور جو حضرات روزے رکھتے ہیں ان کا روزہ ان کو بہت سارے گناہوں سے باز رکھتا ہے۔
اس ماہ مبارک میں قوّت عقلیہ قوی ہوتی ہے جو نیکیوں کا باعث ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ اس ماہ انسان کثرت سے عبادت کی طرف مائل ہوتا ہے اور شیطانی وسوسوں میں نہیں آتا۔
اور شیطان کی مثال اس کتّے کی طرح ہے جس کے بھونکنے سے ہم جتنا ڈریں اتنا وہ شیر ہوتا ہے، اور اگر ہم اس کے بھونکنے کی پرواہ نہ کریں تو رفتہ رفتہ اس کی آواز مغلوب ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ بھونکنا بند کر دیتا ہے۔ روزہ ہمیں شیطان سے دور رہنا سکھاتا ہے، جب ہم اس کی خواہش کے برعکس کوئی نیک کام انجام دیں یا کسی گناہ سے باز رہیں تو وہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان اس ماہ مبارک سے بہت ڈرتا ہے جہاں اس کے دام کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اگر کوئی اس ماہ گناہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی تربیت میں غافل رہا، یا تو روزے نہیں رکھے یا اگر رکھے بھی تو روزے کا حق ادا نہ کر سکا۔ روزے کی حالت میں انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو چاہے وہ مبطلات روزہ میں سے نہ بھی ہو، ہمارا نفس ہمیں ضرور ٹوکتا ہے کہ اے غافل! کچھ خیال کر کہ تو روزے سے ہے۔ اگر ہم نے ضمیر کی اس آواز کو نظر انداز کیا تو شیطان کو موقع مل جاتا ہے اور ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہ بہت خوش ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص رمضان المبارک میں بھی گناہ کرنے پر راغب ہے۔
رمضان المبارک کے بعد شیطان کا آزاد ہونا بھی ایک کنایہ ہے۔ کوئی یہ بات درک کرنا چاہے تو رمضان المبارک کے فورا بعد چاند رات میں دیکھے کہ شیطان کس طرح بیباک ہو جاتا ہے کیونکہ اب لوگوں کے نفوس گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
اگر کسی کو توفیق ہو تو رمضان کے فورا بعد عید الفطر والے دن فجر کی نماز مسجد میں پڑھنے جائے اور راستے میں لوگوں کے گھروں کی طرف توجّہ کرے۔ وہ واضح طور پر مشاہدہ کرے گا کہ جن گھروں میں اس وقت لائٹ جلی ہوتی تھی اور لوگ سحری کے مبارک اوقات کو درک کرتے تھے آج سب سوئے ہوئے ہیں۔ آج ان تمام گھروں کی لائٹ بند ہے، کل تک یہ لوگ جاگے ہوتے تھے، کوئی سحری کھا کر ثواب کماتا تھا، کوئی تہجد کی نماز پڑھتا تھا، کوئی دعائے سحر پڑھتا تھا، کوئی مسواک کرتا تھا۔۔ غرض اس بابرکت لمحات میں نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی تھیں۔ لیکن وائے ہو ان لوگوں پر جو رمضان المبارک کے گزرنے کے بعد ان مبارک لمحات کو درک کرنے کی سعادت سے محروم رہتے ہیں، جو سحر خیزی کی اس نعمت سے قطع تعلّق کر لیتے ہیں۔ انہی حقائق کو احادیث میں کنایۃ کے طور پر شیاطین کا آزاد ہونا کہا گیا ہے۔ شیاطین کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوگی کہ رمضان المبارک ختم ہو گیا ہے؟ اور جب آپ نماز فجر پڑھنے مسجد میں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نمازیوں کی تعداد میں بہت کمی ہوگئی ہے، جبکہ ماہ رمضان میں مساجد بہت زیادہ آباد ہوتی تھیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں روزے کی فرضیّت کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان ایک ماہ اپنی کردار سازی کرےاور رمضان کے نتیجے میں جو انسان تیّار ہو وہ سارا سال اللہ کی عبادت اور اس کے مخلوقات کی خدمت کرتا رہے۔ لیکن افسوس جیسے ہی یہ مہینہ ختم ہوتا ہے ہم سب اسی پرانی ڈگر پر واپس لوٹ آتے ہیں۔ تہجّد پڑھنا تو دور کی بات، ہم میں سے اکثر فجر بھی نہیں پڑھتے۔ چاند رات میں بازاروں کے گشت اور صبح تھکن کی وجہ سے فجر بھی نہیں پڑھتے اور بادل نخواستہ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہیں جو واجب بھی نہیں۔
اللہ تعالی ہم سب کو اس مبارک مہینے میں اپنے کردار سازی کی توفیق عنایت فرمائے، اور ماہ مبارک کے فیوض و برکات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعادت نصیب کرے تاکہ ہم رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد ایک بہترین مسلمان و مومن کی صورت میں سامنے آئیں۔
آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہمیشہ شیطان کو شکست فاش دیتے رہیں گے اور اس کی ناک زمین پر رگڑتے رہیں گے۔
وما علینا الاّ البلاغ
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں