٭کن مواقع پر نماز میں تاخیر مستحب ہے٭
اکثر ہمارے ہاں مشہور یہی ہے کہ نماز اوّل وقت پڑھنی چاھئے اور اس پر کافی تاکید کی جاتی ہے۔ البتہ شرع میں کچھ موارد ایسے ہیں جن میں تاخیر کا حکم ہے۔ ہم یہاں عالم تشیّع کے ایک عظیم عالم شیخ بہائی کے الفاظ نقل کرتے ہیں جنہوں نے ان عوامل کو جمع کیا ہے:
"نماز کو اوّل وقت میں پڑھنا عظیم ثواب کا حامل ہے خصوصا فجر اور مغرب کی نمازیں۔ اور نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے مگر چند جگہوں پر جہاں اوّل وقت سے تاخیر سے پڑھنا سنّت ہے۔
1) عشاء کی نماز میں تاخیر کرنا تاکہ مغرب کی طرف کی سرخی برطرف ہو جائے (عموما اس ٹائم پر اہل سنّت کی عشاء کی اذان ہوتی ہے)۔ اور بعض مجتہدین اس تاخیر کو واحب کہتے ہیں۔
2) نماز ظہر میں تاخیر کرنا۔۔ ان جگہوں پر جہاں ھوا کافی گرم ہو جاتی ہے، اس وقت تک جب تک ھوا کی گرمی کم نہ ہو جائے۔
3) نماز عصر کو تاخیر سے پڑھنا یہاں تک کہ زوال (ابتداء ظہر) کے بعد جو سایہ پیدا ہوتا ہے وہ شاخص کے برابر ہو جائے۔
4) وہ عورت جس کو استحاضۂ کثیرہ ہے، وہ ظہر و عصر اور مغرب کو آخر وقت میں پڑھے تاکہ چاروں نمازوں کو ایک غسل سے انجام دے
5) نماز فجر، ظہر و عصر میں تاخیر تاکہ ان کی نافلہ کو انجام دے۔
6) پیش نماز کا نماز کو تاخیر سے پڑھنا تاکہ مامومین جمع ہو جائیں۔
7) مامومین کا نماز تاخیر سے پڑھنا تاکہ پیشنماز حاضر ہو سکے (یعنی پیشنماز کا انتظار کرنا)۔
مسافر کا اس جگہ پہنچے کے لئے نماز تاخیر سے پڑھنا جہاں قیام کرنا ہے تاکہ نماز کو بہتر انداز میں اور توانائی کے ساتھ بجا لائے۔
9) نماز مغرب و عشاء کو تاخیر سے پڑھنا تاکہ مشعر الحرام میں پہنچ جائے جیسا کہ کتاب حج میں اس کا ذکر ہوگا۔
10) اس شخص کا مغرب کو تاخیر سے پڑھنا جس کا کچھ لوگ افطار کے لئے انتظار کر رہے ہوں، یا وہ خود روزے سے ہو اور سخت بھوک کا شکار ہو۔
11) بچوں کی ماں یا مربّیہ کا ظہر و عصر و مغرب کو آخر وقت میں پڑھنا تاکہ چاروں نمازوں کو صاف کپڑوں میں یا قلیل النجاست کپڑوں میں پڑھنا، چنانچہ کتاب طہارت میں ذکر ہوا۔
12) اس شخص کا تاخیر سے پڑھنا جو اپنی کچھ سابقہ نمازوں کو پڑھنے میں مشغول ہو اور نماز حاضرہ کو تاخیر سے پڑھنا۔ سیّد مرتضی نے اس صورت میں نماز کو تاخیر سے پڑھنا واجب کہا ہے اور ان کا فتوی یہی ہے کہ جس کے ذمے نماز قضا ہو اس پر واجب ہے کہ فوری طور پر اس کو بجالائے، اور اس کے لئے جائز نہیں کہ کسی مباح یا سنّت میں مشغول ہو جائے، یہاں تک کہ اپنی ذمہ داری کو تمام نمازوں سے فارغ کر لے۔ امّا مجتہدین میں سے جمع کثیر نے اس معاملے میں سیّد مرتضی سے موافقت نہیں کی۔"
(جامع عبّاسی از شیخ بہائی، ص35)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں