جمعرات، 12 فروری، 2015

جنات اور بدروح پر ایک تبصرہ

*جنات اور بدروح پر ایک تبصرہ*
جن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی پر چڑھ جائے نہ ہمیں قرآن و حدیث میں ایسا ملتا ہے، نہ ہمیں کوئی واقعہ ملتا ہے کہ معصومین(ع) کے دور میں کسی پر جن چڑھا ہو۔۔۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔۔۔ نفسیاتی بیماریوں کو ہمارا معاشرہ جن چڑھنا کہتا ہے اور یہ اکثر خواتین پر طاری ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی خواتین کو شدید پابندیوں اور ظلم و ستم برداشت کرنا پڑتا ہے جس سے وہ گوناگوں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں، اور ہمارا معاشرہ سمجھتا ہے کہ جنات کا اثر ہو گیا ہے۔ جنات کی اپنی دنیا ہے ان کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے وہ جہالت کے سوا کچھ نہیں
بیشک۔۔۔ عوام کا اپنا ہی ایک دین ہے، جنات کا وجود حق ہے اور ان جنات کی آمد و رفت ہمارے آئمہ(ع) کے پاس رہتی تھی، بلکہ بعض ثقہ حضرات کے مطابق مراجع تقلید کے ہاں بھی جناّت سوالات لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان خرافات میں کوئی صداقت نہیں کہ جناّت اس طرح سے انسانوں پر چڑھ جاتے ہیں، یہ جہالت ہے
کوئی بدروح یا جن کسی سے نہیں چمٹتا، یہ سب جہالت ہے کیونکہ یہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں اور یہ ایک خاص بیماری ہے جن میں انسان عجیب و غریب آوازیں نکالتا ہے اور عجیب باتیں کرتا ہے، جس کو ہم جن چڑھنا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سب لاشعور سے نکل رہی ہوتی ہیں، اور آپ خود بھی دیکھیں کہ یہ بیماریاں ہمارے برّصغیر میں عام ہیں اور اکثر خواتین پر ہی چڑھتی ہیں، جس کی وجہ معاشرے کی سختی ہے جو خواتین پر روا رکھی جاتی ہے۔ ہم نے کسی حدیث میں نہیں پڑھا کہ معصومین(ع) کے دور میں کسی پر جن چڑھا ہو یا انہوں نے جن نکالا ہو یا جن نکالنے کا کوئی ٹوٹکا بتایا ہو۔ جن نکالنے کے طریقے عملیات کی کتب میں وارد ہوئے ہیں تو بعض معززین ان کتب کو پڑھ کر ان نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو اس شخص/ عورت کو مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عملیات ہے۔۔۔ یا اس کی ناک میں دھواں دیتے ہیں تاکہ جن نکل جائے، اس سے وقتی طور پر وہ صحیح ہو بھی سکتا ہے لیکن اصل میں مسئلہ بدستور موجود ہوتا ہے۔ یہ سب معاشرتی رسوم ہیں جن کا شریعت سے تعلق نہیں، گو کہ اعمال اور دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں۔۔۔ لیکن یہ سب جہالت ہے۔
ہندو مت اور دیگر ادیان میں تو بدروحوں کا تذکرہ ہو سکتا ہے، اسلام میں بدروح نام کی کوئی شئے نہیں ہے۔ تمام ارواح موت کے بعد عالم برزخ میں جاتی ہیں چاہے ان کی موت طبیعی طور ہوئی ہو یا کسی نے ان کو قتل کیا ہو یا وہ حادثے کا شکار ہوئی ہوں۔۔۔ ارواح کبھی بھٹک نہیں سکتیں بلکہ اللہ نے ان ارواح کے لئے برزخ خلق کی ہے جہاں وہ موت کے بعد سے قیامت تک رہیں گی۔ ان کے اعمال کے حساب سے ان کو برزخی جنّت یا جہنّم میں رکھا جائے گا۔۔۔۔ بدروح کا بھٹکنا اور یہ سب توہّمات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے-
باقی جنات کا وجود حق ہے، اور اس کی رؤیت بھی خاص حالات میں ممکن ہے، لیکن ان کا رہن سہن کیا ہے اور کہاں رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اس بارے میں مستند احوال تفصیلات کے ساتھ نہیں ہیں۔ ممکن ہے جنّات کو قابو کیا جا سکتا ہو گو کہ ہمیں ایسی کوئی حدیث یا روایت معتبر اسناد و طرق کے ساتھ نہیں ملتی ہیں۔ البتہ جس کو ہم جن چمٹنا کہتے ہیں یہ بالکل بھی ممکن نہیں اور عوام کے خرافات ہیں-
روایات میں ہے کہ بعض جنات اور بعض فرشتے امام حسین(ع) کی خدمت میں آئے اور نصرت کی خواہش کی لیکن امام(ع) نے ان کو اذن نہیں دیا، لیکن معتبر روایات میں ان کے ناموں کی تصریح نہیں کی گئی اور ایسی کوئی بات کہیں نہیں ملتی کہ ان میں سے کوئی جناّت کا بادشاہ تھا۔
زعفر جن کا وجود معتبر کتب میں نہیں ملتا۔

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر باقاعدہ آرٹیکل کی شکل میں نہیں لکھی گئی بلکہ کسی جگہ سوال و جواب و ڈسکشن میں خاکسار کے کمنٹس کو جمع کر کے پوسٹ کی شکل دے دی گئی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ جملوں میں ربط نہ ملے۔
احقر العباد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں