٭کیا آیت اللہ خامنہ ای سید خراسانی ہیں؟٭
آجکل یہ روش بہت عام ہے کہ ایرانی بلاگز جو کسی شخص کو اپنے مزاج کے مطابق نظر آئے، فورا ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں۔ شاید فارسی یا عربی میں لکھی ہوئی ہر تحریر کو مقدس شمار کیا جاتا ہے یا شاید کوئی اور وجہ ہو، بہرحال اس طرح کے بلاگز کے ترجمے کے وقت کسی بھی تحقیق یا تصدیق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور بس ترجمہ کر کے جنگل میں آگ کے مصداق سوشل میڈیا پر لائکس و شیئر کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ ایران و عرب میں سب مقدّس نہیں رہتے، مختلف خیال و نظریات کے لوگ وہاں پر بھی بستے ہیں، یہ افراد اپنے مدعا کے اثبات کیلئے جھوٹ اور سچ سب مکس کر کے بیان کرتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ عرصہ پہلے شہید کربلا عابس بن شبیب (رض) کی قمہ زنی کی پوسٹ وائرل ہوئیں۔ تھوڑا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ کسی ایرانی مولائی بلاگ پر یہ واقعہ نقل ہوا، اور پاکستانی خوش عقیدہ افراد نے فورا اس کا ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔ جب ہم نے اصل کتب سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ فارسی ترجمے میں تدلیس کی گئی، ورنہ اصل عبارت میں خونی ماتم کا کوئی ذکر نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ اس پوسٹ کو پرچار کرنے میں سوشل میڈیا کے بعض زعماء پیش پیش تھے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ وائرل بنا کر پھیلایا جا رہا ہے جس میں امام خمینی سے آیت اللہ خامنہ ای پر قاتلانہ حملہ چھپایا جاتا ہے، جب بعد میں ان کو سید خامنہ ای کا ہاتھ نظر آتا ہے تو پوچھتے ہیں کیا ہوا، بتایا جاتا ہے بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس پر آپ شکر ادا کرتے ہیں، پھر بلاگ لکھنے والا رسول اللہ(ص) سے ایک روایت لکھتا ہے کہ سید خراسانی کے نام سے ایک شخص آئے گا جس کا نام علی ہوگا (شکر ہے کہ روایت میں علی خامنہ ای نہیں لکھا)، اس کا دایاں ہاتھ شل ہوگا، اور وہ حکومت حاصل کر کے صاحب امر کے حوالے کرے گا۔
جب یہ واقعہ خوش باور افراد کے ہاتھ لگا تو دھڑا دھڑ اس کا ترجمہ کر کے پھیلا کر اپنے تئیں ولایت فقیہ کی خدمت کرنے لگے۔ جب اس پوسٹ میں موجود بحارالانوار کے حوالے کو چیک کیا گيا تو مذکورہ ایڈریس پر ایسی کوئی روایت ہی نہیں ملی۔ البتہ سید خراسانی کے حوالے سے روایات موجود ہیں، لیکن بلاگ میں پیش کیا گيا متن درست نہیں۔ سید خراسانی کون ہیں اور کب آئیں گے، اس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
کچھ عرصہ پہلے جب کچھ ویب سائٹس نے ادعا کیا تھا کہ آقاي خامنہ ای سید خراسانی ہیں، احمدی نژاد شعیب بن صالح ہے، جن کا ذکر روایات میں ہے، اور حسن نصر اللہ سید یمانی ہیں۔ اس مدعا کو بہت زور و شور سے پھیلایا گيا، بعض کا دعوی ہے کہ یہ دشمنوں کی سازش تھی۔ بہرحال ان تمام باتوں سے مراجع اور جملہ محققین نے بیزاری کا اظہار کیا. روایات میں ہمیں ظہور کے وقت کو متعین کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا اس طرح کی کاوشوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
اگر آقای خامنہ ای سید خراسانی ہیں، حالانکہ ان کا آبائی تعلق آذربائجان صوبے سے ہے، لیکن خراسان میں پلے بڑھے، تو حسن نصر اللہ "سید یمانی" کیسے ہوئے؟ اگر بالفرض مان لیں کہ ان کے اجداد یمنی تھے، تو اسٹینڈرڈ آبائی نسبت ہے یا موجودہ نسبت؟ اگر موجودہ نسبت ہے تو حسن نصر اللہ سید یمانی نہیں، اگر آبائی نسبت اسٹیندرڈ ہے تو آقای خامنہ ای سید خراسانی نہیں۔ اور احمدی نژاد کو شیعب بن صالح کہنا اس سے بھی زیادہ بھونڈی بات ہے۔
لہذا ان باتوں میں کان نہ دھریں اور نہ ایسی باتوں کو پھیلایا جائے۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا تعلق زمانہ ظہور میں آنے والی شخصیات سے ہو یا نہ ہو، اللہ کے نیک بندے ہیں اور دین اسلام کا احیاء کرنے والوں میں سے ہیں، اللہ ان کو صحت و سلامتی و تندرستی عطا کرے۔ آج بعض افراد آیت اللہ خامنہ ای کیلئے وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو ایک زمانے میں آئمہ ع کیلئے بعض لوگ کرتے تھے۔ یعنی اپنے عقائد کے ادعا کیلئے ان ہستیوں سے کچھ بھی منسوب کر دیا جائے، اور اس کو دین کی خدمت گردانا جائے۔
اللہ ہم سب کو افراط و تفریط سے بچائے رکھے۔
الاحقر: سید جواد حسین رضوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں