تحریر: سید علی اصدق نقوی
...وَصَوْمُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَيَوْمِ عَاشُورَاءَ فَكُلُّ ذَلِكَ فِيهِ صَاحِبُهُ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ صَامَ وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ...
۔۔۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ، اور عاشوراء کا روزہ، اس سب میں انسان کی مرضی ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔۔۔ (1) پھر آگے وہ لکھتے ہیں:
وَأَمَّا صَوْمُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَقَدْ وَرَدَ فِيهِ التَّرْغِيبُ فِي صَوْمِهِ وَقَدْ وَرَدَتِ الْكَرَاهِيَةُ أَيْضاً أَمَّا مَا رُوِيَ مِنَ التَّرْغِيبِ فِي صَوْمِهِ فَقَدْ رَوَى.
اور جہاں تک عاشوراء کے دن کی بات ہے، تو اس اسکے روزے کی ترغیب بھی وارد ہوئی ہے اور اس کی کراہیت بھی وارد ہوئی ہے۔ جہاں تک ترغیب کی بات ہے اسکے روزے کی، تو روایت ہے: (2)
11 عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ هَارُونَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ ع أَنَّ عَلِيّاً ع قَالَ: صُومُوا الْعَاشُورَاءَ- التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ فَإِنَّهُ يُكَفِّرُ ذُنُوبَ سَنَةٍ
امام علی ع نے فرمایا: عاشوراء کے دن روزہ رکھو، نویں اور دسویں دن، کیونکہ وہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (3) اس حدیث کی سند معتبر ہے۔ اس مضمون کی روایت اہل سنت کتب میں بھی مروی ہے۔ شیخ طوسی مزید لکھتے ہیں:
12 وَعَنْهُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي هَمَّامٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: صَامَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَوْمَ عَاشُورَاءَ.
امام أبو الحسن ع نے فرمایا: رسول اللہ ص نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا تھا۔ (4) اس حدیث کی سند مؤثق ہے۔
13 سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَيْمُونٍ الْقَدَّاحِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ كَفَّارَةُ سَنَةٍ.
امام باقر ع نے فرمایا: عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال (کے گناہوں) کا کفارہ ہے۔ (5) اس حدیث کی سند معتبر ہے۔
14 عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ الْأَحْمَرِ عَنْ كَثِيرٍ النَّوَّاءِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: لَزِقَتِ السَّفِينَةُ- يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَلَى الْجُودِيِّ فَأَمَرَ نُوحٌ ع مَنْ مَعَهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَنْ يَصُومُوا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَ تَدْرُونَ مَا هَذَا الْيَوْمُ هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَابَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَلَى آدَمَ وَحَوَّاءَ ع وَ هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي فَلَقَ اللَّهُ فِيهِ الْبَحْرَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ فَأَغْرَقَ فِرْعَوْنَ وَمَنْ مَعَهُ وَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي غَلَبَ فِيهِ مُوسَى ع فِرْعَوْنَ وَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي وُلِدَ فِيهِ إِبْرَاهِيمُ ع وَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَابَ اللَّهُ فِيهِ عَلَى قَوْمِ يُونُسَ ع وَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي وُلِدَ فِيهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ع وَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي يَقُومُ فِيهِ الْقَائِمُ ع.
امام باقر ع نے فرمایا: نوح ع کی کشتی یوم عاشوراء جودی کے پہاڑ پر ٹہری، تو نوح ع نے جو بھی انکے ساتھ تھا جن و انس میں سے انکو حکم دیا کہ اس دن روزہ رکھیں۔ اور امام باقر ع نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا دن ہے؟ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ عز و جل نے آدم و حواء ع کی توبہ قبول کی، اور یہ وہ دن ہے جس میں اللہ عز و جل نے سمندر تقسیم کیا بنی اسرائیل کیلئے اور فرعون اور جو اسکے ساتھ تھا غرق ہوا، اور یہ وہ دن ہے جب موسی ع فرعون پر غالب آئے، اور یہ وہ دن ہے جس میں ابراہیم ع پیدا ہوئے، اور یہ وہ دن ہے جس میں اللہ عز و جل نے یونس ع کی قوم کی توبہ قبول کی، اور یہ وہ دن ہے جس میں عیسی بن مریم ع پیدا ہوئے، اور یہ وہ دن ہے جس میں قائم ع قیام کریں گے۔ (6) یہ روایت ضعیف ہے، اس میں کثیر نواء ضعیف راوی ہے۔ اس روایت کے رد میں ہم پہلے ہی ایک الگ تحریر بھی لکھ چکے ہیں۔ بلکہ ایک روایت اور مروی ہے جس میں اس بات کی تکذیب ہے کہ یہ سب واقعات اس دن ہوئے تھے (7)۔ شیخ طوسی کی دوسری کتاب مصباح المتہجد میں مروی ہے:
رَوَى عَبْدُ اَللَّهِ بْنُ سِنَانٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى سَيِّدِي أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَأَلْفَيْتُهُ كَاسِفَ اَللَّوْنِ ظَاهِرَ اَلْحُزْنِ وَدُمُوعُهُ تَنْحَدِرُ مِنْ عَيْنَيْهِ كَاللُّؤْلُؤِ اَلْمُتَسَاقِطِ فَقُلْتُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ مِمَّ بُكَاؤُكَ لاَ أَبْكَى اَللَّهُ عَيْنَيْكَ فَقَالَ لِي أَوَفِي غَفْلَةٍ أَنْتَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اَلْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيِّ أُصِيبَ فِي مِثْلِ هَذَا اَلْيَوْمِ فَقُلْتُ يَا سَيِّدِي فَمَا قَوْلُكَ فِي صَوْمِهِ فَقَالَ لِي صُمْهُ مِنْ غَيْرِ تَبْيِيتٍ وَأَفْطِرْهُ مِنْ غَيْرِ تَشْمِيتٍ وَلاَ تَجْعَلْهُ يَوْمَ صَوْمٍ كَمَلاً وَلْيَكُنْ إِفْطَارُكَ بَعْدَ صَلاَةِ اَلْعَصْرِ بِسَاعَةٍ عَلَى شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ فَإِنَّهُ فِي مِثْلِ ذَلِكَ اَلْوَقْتِ مِنْ ذَلِكَ اَلْيَوْمِ تَجَلَّتِ اَلْهَيْجَاءُ عَنْ آلِ رَسُولِ اَللَّهِ...
عبد اللہ بن سنان روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنے مولا امام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد ع کے پاس عاشوراء کے دن حاضر ہوا تو میں نے انکو اس حال میں پایا کہ انکا رنگ زرد ہے، غم ظاہر ہے، اور انکی آنکھوں سے آنسو ایسے بہہ رہے ہیں جیسے موتی گرے ہوئے ہوں۔ تو میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا! آپ کس وجہ سے گریہ کر رہے ہیں، اللہ آپکی آنکھوں کو کبھی نہ رلائے۔ تو امام ع نے مجھ سے فرمایا: کیا تم غفلت میں ہو؟ کیا تمہیں نہیں پتا کہ امام حسین بن علی ع اس جیسے ہی ایک دن میں زخمی ہوئے تھے۔ تو میں نے عرض کیا: میرے مولا، آپ اس دن روزہ رکھنے پر کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے مجھ سے فرمایا: اسکا روزہ رکھو، مگر شب بیداری کیئے بغیر، اور اس کو افطار کرو مگر کسی کی مصیبت پر خوش ہوئے بغیر، اور اسکو پورا دن نہ بناؤ، تمہارا افطار نماز عصر کے ایک گھنٹے بعد ہو پانی کا ایک گھونٹ پی کر، کیونکہ اس ہی جیسے وقت میں اس ہی جیسے دن میں آل رسول اللہ ص سے جنگ کی گئی تھی۔۔۔ ( مگر یہ روایت سندا مرسل ہے۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں پھر ذکر کیا ہے:
وَأَمَّا مَا رُوِيَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِهِ فَقَدْ رَوَى
اور جہاں تک اسکی بات ہے جو اسکی کراہیت پر مروی ہے، تو روایت ہے: (9)
15 مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ نُوحِ بْنِ شُعَيْبٍ النَّيْسَابُورِيِّ عَنْ يَاسِينَ الضَّرِيرِ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا لَا تَصُمْ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَلَا يَوْمَ عَرَفَةَ بِمَكَّةَ وَلَا بِالْمَدِينَةِ وَلَا فِي وَطَنِكَ وَلَا فِي مِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ.
امام باقر ع اور امام صادق ع نے فرمایا: عاشوراء کا روزہ نہ رکھنا اور نہ عرفہ کے دن کا، نہ مکہ میں نہ مدینہ میں نہ ہی اپنے وطن میں نہ ہی کسی شہر میں۔ (10) یہ حدیث سندا مجہول ہے۔
16 وَعَنْهُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنِ الْوَشَّاءِ قَالَ حَدَّثَنِي نَجِيَّةُ بْنُ الْحَارِثِ الْعَطَّارُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَقَالَ صَوْمٌ مَتْرُوكٌ بِنُزُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَالْمَتْرُوكُ بِدْعَةٌ قَالَ نَجِيَّةُ فَسَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ ذَلِكَ مِنْ بَعْدِ أَبِيهِ ع فَأَجَابَ بِمِثْلِ جَوَابِ أَبِيهِ ثُمَّ قَالَ لِي أَمَا إِنَّهُ صِيَامُ يَوْمٍ مَا نَزَلَ بِهِ كِتَابٌ وَلَا جَرَتْ بِهِ سُنَّةٌ إِلَّا سُنَّةُ آلِ زِيَادٍ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِقَتْلِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ص
نجیہ بن حارث عطار کہتے ہیں: میں نے امام باقر ع سے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا پوچھا تو انہوں نے فرمایا: یہ ایک روزہ ہے جو ماہ رمضان (کے روزے کے) نزول سے متروک ہوگیا ہے۔ اور متروک چیز ایک بدعت ہوتی ہے۔ نجیہ نے کہا: تو میں نے امام صادق ع سے اس مسئلے کا پوچھا انکے والد ع کے بعد تو انہوں نے مجھے وہی جواب دیا جو انکے والد نے دیا تھا۔ پھر انہوں نے مجھ سے فرمایا: جان لو کہ یہ ایسے دن کا روزہ ہے جس پر کتاب (قرآن) کا حکم نازل نہیں ہوا نہ ہی اس پر سنت جاری ہوئی ہے، سوائے آل زیاد کی سنت کے، اللہ کی لعنت ہو ان پر، امام حسین ع کو قتل کرنے سے۔ (11) اس حدیث کی سند مجہول ہے۔
17 وَعَنْهُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى أَخِي قَالَ: سَأَلْتُ الرِّضَا ع عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَقَالَ عَنْ صَوْمِ ابْنِ مَرْجَانَةَ لَعَنَهُ اللَّهُ تَسْأَلُنِي ذَلِكَ يَوْمٌ مَا صَامَهُ إِلَّا الْأَدْعِيَاءُ مِنْ آلِ زِيَادٍ بِقَتْلِ الْحُسَيْنِ ص وَهُوَ يَوْمٌ تَشَاءَمَ بِهِ آلُ مُحَمَّدٍ وَيَتَشَاءَمُ بِهِ أَهْلُ الْإِسْلَامِ وَالْيَوْمُ الْمُتَشَائِمُ بِهِ الْإِسْلَامُ وَأَهْلُهُ لَا يُصَامُ وَلَا يُتَبَرَّكُ بِهِ وَيَوْمُ الْإِثْنَيْنِ يَوْمُ نَحْسٍ قَبَضَ اللَّهُ فِيهِ نَبِيَّهُ ص وَمَا أُصِيبَ آلُ مُحَمَّدٍ ع إِلَّا فِي يَوْمِ الْإِثْنَيْنِ فَتَشَاءَمْنَا بِهِ وَتَبَرَّكَ بِهِ أَعْدَاؤُنَا وَيَوْمُ عَاشُورَاءَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ ع وَتَبَرَّكَ بِهِ ابْنُ مَرْجَانَةَ وَتَشَاءَمَ بِهِ آلُ مُحَمَّدٍ ع فَمَنْ صَامَهُمَا وَتَبَرَّكَ بِهِمَا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَمْسُوحَ الْقَلْبِ وَكَانَ مَحْشَرُهُ مَعَ الَّذِينَ سَنُّوا صَوْمَهُمَا وَتَبَرَّكُوا بِهِمَا.
جعفر بن عیسی کہتے ہیں: میں نے امام رضا ع سے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا پوچھا تو انہوں نے فرمایا: لوگ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ پھر امام ع نے فرمایا: تم مجھ سے ابن مرجانہ، اللی کی لعنت ہو اس پر، کے روزے کا پوچھتے ہو؟ یہ وہ دن ہے جس میں کسی نے روزہ نہیں رکھا سوائے آل زیاد کے بد نسل افراد کے امام حسین ع کو قتل کرنے کے سبب۔ اس دن آل محمد ع نے منحوس تھا اور اہل اسلام نے بھی منحوس تھا اور اس دن اسلام اور اہل اسلام کیلئے نحوست تھی، اس دن روزہ نہ رکھا جائے نہ ہی برکت لی جائے اور پیر کا دن نحس دن ہے، اس میں اللہ ص نے اپنے نبی ص کی روح قبض کی تھی۔ اور آل محمد ع پر جو بھی مصیبت آئی وہ پیر کے دن آئی، پس اس کو ہم نے منحوس سمجھا اور ہمارے دشمنوں نے برکت لی۔ اور عاشوراء کے دن امام حسین ع شہید ہوئے اور ابن مرجانہ نے اس سے برکت کی، آل محمد ع نے اس سے کو منحوس سمجھا۔ پس جو ان دو دنوں روزہ رکھے گا اور اس سے برکت لے گا اللہ عز و جل سے مسخ ہوئے دل سے ملے گا اور اسکا حشر ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جنہوں نے ان دونوں دنوں کے روزے کو شروع کیا اور ان کو متبرک سمجھا۔ (12) اس حدیث کی سند مجہول ہے۔
18 وَعَنْهُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ زَيْدٍ النَّرْسِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ زُرَارَةَ قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَةَ يَسْأَلُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَقَالَ مَنْ صَامَهُ كَانَ حَظُّهُ مِنْ صِيَامِ ذَلِكَ الْيَوْمِ حَظَّ ابْنِ مَرْجَانَةَ وَآلِ زِيَادٍ قَالَ قُلْتُ وَمَا حَظُّهُمْ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَقَالَ النَّارُ
عبید اللہ بن زرارہ کہتے ہیں: میں نے زرارہ کو امام صادق ع سے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جس نے اس دن روزہ رکھا اسکا حصہ روزے سے وہی ہے جو ابن مرجانہ اور آل زیاد کا ہے۔ عبید اللہ بن زرارہ کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ان کا کیا حصہ ہے اس دن سے؟ انہوں نے جواب دیا: جہنم۔ (13) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اسکے بعد شیخ طوسی نتیجہ دیتے ہیں:
فَالْوَجْهُ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَنَّ مَنْ صَامَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَلَى طَرِيقِ الْحُزْنِ بِمُصَابِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَالْجَزَعِ لِمَا حَلَّ بِعِتْرَتِهِ فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ صَامَهُ عَلَى مَا يَعْتَقِدُ فِيهِ مُخَالِفُونَا مِنَ الْفَضْلِ فِي صَوْمِهِ وَالتَّبَرُّكِ بِهِ وَالِاعْتِقَادِ لِبَرَكَتِهِ وَسَعَادَتِهِ فَقَدْ أَثِمَ وَأَخْطَأَ.
تو ان احادیث کی توجیہ یہ ہے کہ جو عاشوراء کے دن رسول اللہ ص کی مصیبت کے غم کی وجہ سے روزہ رکھے اور جو کچھ انکی عترت کے ساتھ ہوا اس پر جزع کی وجہ سے تو اس نے درست عمل کیا۔ اور جو اس دن روزہ رکھے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے جو ہمارے مخالف رکھتے ہیں کہ اس دن روزے کی فضیلت ہے اور اس سے برکت لی جائے گی اور اسکی برکت اور سعادت پر اعتقاد رکھتا ہو تو اس نے غلط عمل کیا ہے۔ (14)
اسکے علاوہ شیخ صدوق نے حدیث روایت کی ہے:
1800 - سَأَلَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَزُرَارَةُ بْنُ أَعْيَنَ أَبَا جَعْفَرٍ الْبَاقِرَ ع عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَقَالَ كَانَ صَوْمُهُ قَبْلَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَلَمَّا نَزَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ تُرِكَ
محمد بن مسلم اور زرار بن اعین نے امام باقر ع سے یوم عاشوراء کے روزے کا پوچھا، تو امام ع نے فرمایا: وہ ماہ رمضان سے پہلے کا روزہ تھا، تو جب رمضان کے ماہ کے روزوں کا حکم نازل ہوا، وہ (عاشوراء کا روزہ) متروک ہوگیا۔ (15) اس حدیث کی سند صحیح ہے، اس سے ملتی جلتی روایت اہل سنت کتب میں بھی ہے۔ اور شیخ کلینی نے بھی مزید روایات نقل کی ہیں:
وَعَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلاَم) عَنْ صَوْمِ تَاسُوعَاءَ وَعَاشُورَاءَ مِنْ شَهْرِ الْمُحَرَّمِ فَقَالَ تَاسُوعَاءُ يَوْمٌ حُوصِرَ فِيهِ الْحُسَيْنُ (عَلَيْهِ السَّلاَم) وَأَصْحَابُهُ رَضِيَ الله عَنْهُمْ بِكَرْبَلاءَ وَاجْتَمَعَ عَلَيْهِ خَيْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَأَنَاخُوا عَلَيْهِ وَفَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَةَ وَعُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَيْلِ وَكَثْرَتِهَا وَاسْتَضْعَفُوا فِيهِ الْحُسَيْنَ صَلَوَاتُ الله عَلَيْهِ وَأَصْحَابَهُ رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَأَيْقَنُوا أَنْ لا يَأْتِيَ الْحُسَيْنَ (عَلَيْهِ السَّلاَم) نَاصِرٌ وَلا يُمِدَّهُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِأَبِي الْمُسْتَضْعَفُ الْغَرِيبُ ثُمَّ قَالَ وَأَمَّا يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَيَوْمٌ أُصِيبَ فِيهِ الْحُسَيْنُ (عَلَيْهِ السَّلاَم) صَرِيعاً بَيْنَ أَصْحَابِهِ وَأَصْحَابُهُ صَرْعَى حَوْلَهُ عُرَاةً أَ فَصَوْمٌ يَكُونُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ كَلاَّ وَرَبِّ الْبَيْتِ الْحَرَامِ مَا هُوَ يَوْمَ صَوْمٍ وَمَا هُوَ إِلاَّ يَوْمُ حُزْنٍ وَمُصِيبَةٍ دَخَلَتْ عَلَى أَهْلِ السَّمَاءِ وَأَهْلِ الأَرْضِ وَجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَيَوْمُ فَرَحٍ وَسُرُورٍ لابْنِ مَرْجَانَةَ وَآلِ زِيَادٍ وَأَهْلِ الشَّامِ غَضِبَ الله عَلَيْهِمْ وَعَلَى ذُرِّيَّاتِهِمْ وَذَلِكَ يَوْمٌ بَكَتْ عَلَيْهِ جَمِيعُ بِقَاعِ الأَرْضِ خَلا بُقْعَةِ الشَّامِ فَمَنْ صَامَهُ أَوْ تَبَرَّكَ بِهِ حَشَرَهُ الله مَعَ آلِ زِيَادٍ مَمْسُوخُ الْقَلْبِ مَسْخُوطٌ عَلَيْهِ وَمَنِ ادَّخَرَ إِلَى مَنْزِلِهِ ذَخِيرَةً أَعْقَبَهُ الله تَعَالَى نِفَاقاً فِي قَلْبِهِ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ وَانْتَزَعَ الْبَرَكَةَ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَوُلْدِهِ وَشَارَكَهُ الشَّيْطَانُ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ.
عبد الملک کہتے ہیں: میں نے امام صادق ع سے ماہ محرم کے تاسوراء (نویں دن) اور عاشوراء (دسویں دن) کے روزے کا پوچھا تو انہوں نے فرمایا: تاسوعاء وہ دن تھا جب امام حسین ع اور انکے أصحاب رضی اللہ عنہم کا محاصرہ ہوا تھا کربلاء میں اور ان کے سامنے اہل شام کے گھوڑے جمع ہوئے تھے اور بٹھائے گئے تھے۔ اور ابن مرجانہ اور عمر بن سعد خوش ہوئے تھے اپنے گھوڑوں کی زیادہ تعداد اور کثرت کے سبب۔ اور اس میں حسین صلوات اللہ علیہ اور انکے أصحاب رضی اللہ عنہم کمزور پڑے تھے اور انکو یقین ہوگیا کہ امام حسین ع کیلئے کوئی ناصر نہیں آئے گا اور نہ ہی اہل عراق اب کمزور اور غریب الوطن کی امداد نہیں کریں گے۔ پھر فرمایا: اور رہی بات عاشوراء کے دن کی تو اس دن امام حسین ع کو زخم لگے زمین پر گر کر اپنے اصحاب کے درمیان اور انکے اصحاب بھی انکے گرد زمین پر برہنہ گرے تھے۔ تو کیا اس دن روزہ ہو سکتا ہے، ہرگز نہیں۔ رب بیت الحرام کی قسم یہ روزے کا دن نہیں ہے او ریہ صرف غم اور مصیبت کا دن ہے جو آسمان والوں، زمین والوں اور تمام مؤمنین پر گذری، اور یہ ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کیلئے خوشی اور سرور کا دن ہے، اللہ ان پر اور انکی ذریت غضبناک ہوا۔ اس دن امام ع پر زمین کے تمام علاقے غمگین ہوئے سوئے شام کے علاقے کے۔ تو جو اس دن روزہ رکھے گا یا اس سے برکت لے گا اللہ اسکو آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا مسخ شدہ دل کے ساتھ اور اس سے ناراض ہوتے ہوئے۔ اور جو اپنے گھر میں ذخیرہ اندوزی کرے گا تو اللہ تعالی اسکے دل میں نفاق ڈالے گا اس دن تک جب وہ اس سے ملے گا اور وہ اس سے اور اسکے، گھر والوں اور اسکی اولاد سے برکت چھین لے گا اور شیطان ان تمام چیزوں میں اسکا شریک ہوگا۔ (16) یہ حدیث سندا ضعیف ہے، خصوصا محمد بن سنان کے ضعف کی وجہ سے۔ شیخ طوسی کی امالی میں ہے:
وَبِهَذَا اَلْإِسْنَادِ، عَنِ اَلْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ)، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ فَقَالَ: عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِ اَلْمُسْلِمِينَ، وَيَوْمُ دُعَاءٍ وَمَسْأَلَةٍ. قُلْتُ: فَصَوْمُ عَاشُورَاءَ قَالَ: ذَاكَ يَوْمٌ قُتِلَ فِيهِ اَلْحُسَيْنُ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ)، فَإِنْ كُنْتَ شَامِتاً فَصُمْ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ أُمَيَّةَ (عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اَللَّهِ) وَمَنْ أَعَانَهُمْ عَلَى قَتْلِ اَلْحُسَيْنِ مِنْ أَهْلِ اَلشَّامِ، نَذَرُوا نَذْراً إِنْ قُتِلَ اَلْحُسَيْنُ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ) وَسَلِمَ مَنْ خَرَجَ إِلَى اَلْحُسَيْنِ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ) ، وَصَارَتِ اَلْخِلاَفَةُ فِي آلِ أَبِي سُفْيَانَ، أَنْ يَتَّخِذُوا ذَلِكَ اَلْيَوْمَ عِيداً لَهُمْ، وَأَنْ يَصُومُوا فِيهِ شُكْراً، وَيُفَرِّحُونَ أَوْلاَدَهُمْ، فَصَارَتْ فِي آلِ أَبِي سُفْيَانَ سُنَّةً إِلَى اَلْيَوْمِ فِي اَلنَّاسِ، وَاِقْتَدَى بِهِمْ اَلنَّاسُ جَمِيعاً، فَلِذَلِكَ يَصُومُونَهُ وَيُدْخِلُونَ عَلَى عِيَالاَتِهِمْ وَأَهَالِيهِمُ اَلْفَرَحَ ذَلِكَ اَلْيَوْمَ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اَلصَّوْمَ لاَ يَكُونُ لِلْمُصِيبَةِ، وَلاَ يَكُونُ إِلاَّ شُكْراً لِلسَّلاَمَةِ، وَإِنَّ اَلْحُسَيْنَ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ) أُصِيبَ، فَإِنْ كُنْتَ مِمَّنْ أُصِبْتَ بِهِ فَلاَ تَصُمْ، وَإِنْ كُنْتَ شَامِتاً مِمَّنْ سَرَّكَ سَلاَمَةُ بَنِي أُمَيَّةَ فَصُمْ شُكْراً لِلَّهِ (تَعَالَى).
راوی کہتے ہیں میں نے امام صادق ع سے عرفہ کے دن کے روزے کا پوچھا تو فرمایا: یہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے، اور دعاء اور سوال کرنے کا دن ہے۔ تو میں نے عرض کیا: تو عاشوراء کا روزہ؟ امام ع نے فرمایا: اس دن امام حسین ع شہید ہوئے، تو اگر تم (انکی) مصیبت پر خوش ہو تو روزہ رکھ لو۔ پھر انہوں نے فرمایا: آل امیہ، اللہ کی لعنت ہو ان پر اور اس پر جس نے انکی مدد کی اہل شام میں سے امام حسین ع کو قتل کرنے میں، نے ایک منت مانی تھی کہ اگر امام حسین ع قتل ہوگئے اور جو حسین ع کے پاس نکلے ہیں وہ سلامت رہے اور خلافت آل ابی سفیان میں آگئے تو وہ اس دن کو اپنے لیئے عید قرار دیں گے اور کہ وہ اس میں شکرگزاری کا روزہ رکھیں گے، اور اپنی أولاد کو خوش کریں گے۔ تو یہ آل ابی سفیان میں ایک سنت بن گئی، آج تک لوگوں میں ۔ اور سب لوگوں نے انکی پیروی کی۔ پس اس وجہ سے وہ روزہ رکھتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کو خوش کرتے ہیں اس دن۔ ہھر فرمایا: روزہ، مصیبت کیلئے نہیں ہوا کرتا، نہ ہی سلامت رہنے کی شکرگزاری کیلئے ہوتا ہے۔ اور امام حسین ع زخمی ہوئے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو جو انکے سبب مصیبت میں پڑے ہوئے تو روزہ نہ رکھو۔ اور اگر تم مصیبت پر خوش ہو اس وجہ سے جو بنی امیہ کی سلامتی نے تمہیں خوش کیا ہے تو اللہ تعالی کا شکر کرنے کیلئے تم روزہ رکھ لو۔ (17) یہ حدیث بھی سندا ضعیف ہے۔ لیکن ان احادیث کی کثرت اور تمام قرائن اس پر ہی دلالت کرتے ہیں کہ یہ دن دشمنان کی خوشی کا دن تھا جسکی وجہ سے انہوں نے اسکو روزے کا دن قرار دیا۔ جب شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں باب باندھا ہے تو انہوں نے لکھا ہے:
20- بَابُ اسْتِحْبَابِ صَوْمِ يَوْمِ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ مِنَ الْمُحَرَّمِ حُزْناً وَقِرَاءَةِ الْإِخْلَاصِ يَوْمَ الْعَاشِرِ أَلْفَ مَرَّةٍ وَالْإِفْطَارِ بَعْدَ الْعَصْرِ بِسَاعَةٍ
باب: نویں اور دسویں محرم کو غم کی وجہ سے روزہ رکھنے کا استحباب، اور دسویں دن سورہ اخلاص ہزار مرتبہ پڑھنا اور عصر کے ایک گھنٹے بعد افطار کرنا۔ (18) اور اس سے اگلا باب ہے:
21 بَابُ عَدَمِ جَوَازِ صَوْمِ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ مِنَ الْمُحَرَّمِ عَلَی وَجْهِ التَّبَرُّكِ بِهِمَا
باب: نویں اور دسویں محرم کو ان دونوں دنوں سے برکت لینے کی وجہ سے روزہ رکھنے کا ناجائز ہونا۔ (19)
لہذا شیخ حر عاملی کے نزدیک بھی اس دن روزہ فاقے کی صورت میں رکھا جائے گا جو کہ عصر کے ایک گھنٹے بعد توڑا جائے گا اور یہ روزہ غم میں رکھا جائے گا، جیسا کہ شیخ طوسی نے بھی ذکر کیا ہے جسکو ہم نقل کر چکے۔ ان تمام احادیث کو دیکھتے ہوئے بہت سے فقہاء نے اس دن کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، جیسے علامہ یوسف بحرانی (20) وغیرہ، اور آیت اللہ سیستانی اور دیگر مراجع نے اس دن کے روزے کو مکروہ جانا ہے اور کہ فاقہ رکھنا بہتر ہے، جیسے کہ انکا فتوی ہے:
3۔ عاشور کے دن روزہ رکھنا لیکن سزاوار ہے عاشورہ کے دن انسان روزے کا قصد کیے بغیر عصر تک کھانے اور پینے سے پرہیز کرے۔ (21)
ساتھ ہی کچھ فقہاء نے اس دن کے روزے کو درست اور مستحب بھی لیا ہے اگر غم کی قصد سے ہو جیسا کہ ہم شیخ طوسی اور شیخ حر عاملی سے بیان کر چکے ہیں، یا جیسے صاحب جواہر (22) نے اسکو اس سبب مستحب مانا ہے اور یہی رائے سید خوئی (23) کی بھی تھی کہ اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے، کیونکہ کراہیت کی روایات ضعیف ہیں جبکہ استحباب کی روایات سندا مضبوط ہیں، مگر انہوں نے بھی اس دن خوشی کے عنوان سے روزہ رکھنے کی حرمت کو ہی مانا ہے (24)۔
نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس دن کو متبرک جانتے ہوئے اور اس میں خوشی کیلئے روزہ رکھتا ہے تو ہمارے علماء نے اور احادیث نے اس سے منع کیا ہے، اور اگر اس دن انسان غم میں اور اہل بیت ع کے مصائب کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے تو وہ جائز ہے جیسا کہ روایات میں ہے اور فقہاء نے کہا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ نماز عصر کے بعد روزہ کھول لیا جائے۔
مآخذ:
(1) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 296
(2) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 299
(3) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 299، الإستبصار، ج 2، ص 134
(4) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 299 – 300، الإستبصار، ج 2، ص 134
(5) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 300، الإستبصار، ج 2، ص 134
(6) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 300
(7) الأمالي للصدوق، الرقم: 198: عَنْ جَبَلَةَ اَلْمَكِّيَّةِ قَالَتْ سَمِعْتُ اَلْمِيثَمَ اَلتَّمَّارَ قُدِّسَ سِرُّهُ يَقُولُ: وَاَللَّهِ لَتَقْتُلَنَّ هَذِهِ اَلْأُمَّةُ اِبْنَ نَبِيِّهَا فِي اَلْمُحَرَّمِ لِعَشْرٍ مَضَيْنَ مِنْهُ وَ لَيَتَّخِذَنَّ أَعْدَاءُ اَللَّهِ ذَلِكَ اَلْيَوْمَ يَوْمَ بَرَكَةٍ وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ قَدْ سَبَقَ فِي عِلْمِ اَللَّهِ تَعَالَى... قَالَ سَيَزْعُمُونَ بِحَدِيثٍ يَضَعُونَهُ أَنَّهُ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي تَابَ اَللَّهُ فِيهِ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَإِنَّمَا تَابَ اَللَّهُ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي ذِي اَلْحِجَّةِ وَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي قَبِلَ اَللَّهُ فِيهِ تَوْبَةَ دَاوُدَ وَإِنَّمَا قَبِلَ اَللَّهُ تَوْبَتَهُ فِي ذِي اَلْحِجَّةِ وَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي أَخْرَجَ اَللَّهُ فِيهِ يُونُسَ مِنْ بَطْنِ اَلْحُوتِ وَ إِنَّمَا أَخْرَجَهُ اَللَّهُ مِنْ بَطْنِ اَلْحُوتِ فِي ذِي اَلْقَعْدَةِ وَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي اِسْتَوَتْ فِيهِ سَفِينَةُ نُوحٍ عَلَى اَلْجُودِيِّ وَ إِنَّمَا « اِسْتَوَتْ عَلَى اَلْجُودِيِّ » يَوْمَ اَلثَّامِنَ عَشَرَ مِنْ ذِي اَلْحِجَّةِ وَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ اَلْيَوْمُ اَلَّذِي فَلَقَ اَللَّهُ فِيهِ اَلْبَحْرَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ وَ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ اَلْأَوَّلِ...
( مصباح المتهجد، ص 782
(9) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 300
(10) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 300، الكافي، ج 4، ص 146، الإستبصار، ج 2، ص 134
(11) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 301، الكافي، ج 4، ص 146، الإستبصار، ج 2، ص 135
(12) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 301، الإستبصار، ج 2، ص 135، الكافي، ج 4، ص 146
(13) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 302، الإستبصار، ج 2، ص 135، الكافي، ج 4، ص 147
(14) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 302، الإستبصار، ج 2، ص 135
(15) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 1800
(16) الكافي، ج 4، ص 147
(17) الأمالي للطوسي، الرقم: 1397
(18) وسائل الشيعة، ج 10، ص 457
(19) وسائل الشيعة، ج 10، 459
(20) الحدائق الناظرة، ج 13، ص 376: وبالجملة فإن دلالة هذه الأخبار على التحريم مطلقا أظهر ظاهر ولكن العذر لأصحابنا في ما ذكروه من حيث عدم تتبع الأخبار كملا والتأمل فيها.
(22) جواهر الكلام، ج 17، ص 105
(23) المستند في شرح عروة الوثقى، ج 12، ص 316: فالأقوى استحباب الصوم في هذا اليوم من حيث هو...
(24) المستند في شرح عروة الوثقى، ج 12، ص 317