جمعہ، 12 اگست، 2022

عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کی احادیث کا جائزہ

عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کی احادیث کا جائزہ



دس محرم کے دن کو فریقین میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اس دن روزہ رکھا جائے یا نہ رکھا جائے۔ اہل سنت چند احادیث پیش کرتے ہیں جس سے اسکا ثواب ہونا اور روزہ رکھا جانا پتا چلتا ہے۔ اور اہل تشیع اسکی مخالفت کرتے ہیں اور اکثر اہل تشیع دس محرم کو روزہ کی بجائے فاقہ رکھتے ہیں کچھ دیر کا، عموما عصر تک کا۔ اور فقہاء نے اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے۔ جو احادیث اہل سنت پیش کرتے ہیں ہم ان میں سے چند کا ذکر کرکے انکا جائزہ کریں گے۔
دس محرم کا خوشی کا دن ہونے میں ایک حدیث:
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُنَاسٍ مِنَ الْيَهُودِ قَدْ صَامُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " مَا هَذَا مِنَ الصَّوْمِ؟ " قَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي نَجَّى اللهُ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْغَرَقِ، وَغَرَّقَ فِيهِ فِرْعَوْنَ، وَهَذَا يَوْمُ اسْتَوَتْ فِيهِ السَّفِينَةُ عَلَى الْجُودِيِّ، فَصَامَ نُوحٌ وَمُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى، وَأَحَقُّ بِصَوْمِ هَذَا الْيَوْمِ "، فَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِالصَّوْمِ
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے یھودیوں کو عاشورا کے دن روزہ رکھتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ روزہ کیوں رکھ رہے ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن میں جس میں موسی اور نبی اسرائیل کو نجات ملی ڈوبنے سے اور فرعون اس دن غرق ہوگیا۔ اور اس دن نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹہری، تو نوح اور موسی (عليهما السلام) نے اس دن روزہ رکھا تھا الله ﷻ کا شکر ادا کرنے کیلئے۔ تو نبی ﷺ نے کہا کہ میں موسی کا تمہارے سے زیادہ حقدار ہوں، اور میں زیادہ حقدار ہوں کہ اس دن روزہ رکھوں۔ تو آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ روزہ رکھیں اس دن۔ (1) شيخ ناصر الدين الأباني اور شيخ شعيب الأرناووط نے کہا ہے کہ اسکی سند ضعیف ہے۔ دوسری روایت
من صام يوما من المحرم فله بكل يوم ثلاثون حسنة (طب) عن ابن عباس.
ابن عباس (رض) سے روایت ہے: رسول الله ﷺ نے کہا کہ جس نے محرم کے ایک دن روزہ رکھا اس کیلئے تیس نیکیاں ہیں ہر دن کے روزے کی۔ (2) شيخ الألباني نے کہا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ یعنی من گھڑت۔ ایک اور روایت:
وفي رجب حمل الله نوحا في السفينة، فصام رجب وأمر من معه أن يصوموا، فجرت بهم السفينة ستة أشهر، آخر ذلك يوم عاشوراء أهبط على الجودي، فصام نوح ومن معه والوحش شكرا لله عز وجل. وفي يوم عاشوراء أفلق الله البحر لبني إسرائيل. وفي يوم عاشوراء تاب الله - عز وجل - على آدم (وعلى مدينة يونس وفيه ولد إبراهيم
رجب وہ مہینہ ہے جس میں نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے اور انہوں نے رجب میں روزہ رکھا اور جو بھی انکے ساتھ تھا اسکو روزہ رکھنے کو کہا۔ تو سفینہ چھے ماہ تک تیرتی رہی انکو لیکر، پھر وہ عاشورا کے دن جودی کے پہاڑ پر جاکر ٹہری، تو نوح علیہ السلام اور جو بھی انکے ساتھ تھا انہوں نے اس دن روزہ رکھا الله ﷻ کا شکر ادا کرنے کیلئے۔ اور اس دن سمندر بنی اسرائیل کیلئے الله ﷻ نے تقسیم کیا اور اس دن الله ﷻ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور یونس علیہ السلام کے لوگوں کی، اور اس ہی دن یعنی عاشورا کے دن ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ (3)
شيخ الألباني کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع (گھڑی ہوئی) ہے۔ اسکی سند میں عثمان بن مطر ہے، اور ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ موضوع احادیث بیان کیا کرتا تھا اور اسکا شیخ عبد الغفور تھا جو کہ متروک راوی تھا اور ابن حبان نے کہا کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔ اب ان احادیث کی طرف آتے ہیں جو صحيح البخاري اور صحيح مسلم اور دیگر کتب میں موجود ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ، فَسُئِلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي أَظْفَرَ اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى فِرْعَوْنَ، وَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ أَمَرَ بِصَوْمِهِ‏.‏
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعوں پر فتح عنایت فرمائی تھی چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور آپ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ (4)
قابل غور بات یہ ہے کہ یھودیوں کا اپنا کیلنڈر تھا اور آج بھی ہے جسکے تحت وہ چلتے ہیں، انکا پہلا مہینہ اسلامی ہجری کیلنڈر کے رجب سے منطبق تھا، پہلے ماہ کا نام ابیب ہے۔ اور ساتواں مہینہ محرم سے تطابق رکھتا تھا۔ اور رجب کا ہی مہینہ تھا جس میں یھودیوں کو نجات ملی انکے مطابق، یہ جاننا مشکل نہیں ہے۔ ہم تورات سے ہی دیکھ لیتے ہیں۔ جیسا کہ تورات کی کتاب تثنیہ باب 16 کی پہلی آیت ہے:
שָׁמֹור֙ אֶת־חֹ֣דֶשׁ הָאָבִ֔יב וְעָשִׂ֣יתָ פֶּ֔סַח לַיהוָ֖ה אֱלֹהֶ֑יךָ כִּ֞י בְּחֹ֣דֶשׁ הָֽאָבִ֗יב הֹוצִ֨יאֲךָ֜ יְהוָ֧ה אֱלֹהֶ֛יךָ מִמִּצְרַ֖יִם לָֽיְלָה׃
تو ابیب کے مہینے کو یاد رکھنا اور اُس میں خداوند اپنے خدا کی فسح کرنا کیونکہ خداوند تیرا خدا ابیب کے مہینے میں رات کے وقت تجھ کو مصر سے نکال لایا تھا ۔ (5)
تو یا تو یھودیوں کو اپنے دین اور اپنی تورات سے بے خبری تھی جسکے سبب انہوں نے ابیب یعنی رجب کے ماہ کی بجائے محرم کی دسویں کو نجات کا دن تصور کر لیا یا پھر جس نے یہ حدیث روایت کی اسکو یھودی مذہب اور تورات کا علم نہ تھا۔
ہم ایک اور حدیث دیکھتے ہیں جسکا متن اس سے ملتا جلتا ہے:
سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، بْنَ عَبَّاسٍ - رضى الله عنهما - يَقُولُ حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا اور ہمیں بھی اس کے روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ایسا دن ہے کہ یہود و نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگلے سال ہم نویں محرم کا بھی روزہ رکھیں گے “ ، لیکن آئندہ سال نہیں آیا کہ آپ وفات فرما گئے ۔ (6)
سب سے پہلی بات جو اس حدیث میں ہے وہ ہے کہ یھودی اور عیسائی 10 محرم کا روزہ رکھتے تھے، جبکہ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو عیسائیت اور نہ یھودیت کا علم تھا۔ عیسائی کبھی اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے اور نہ آج رکھتے ہیں جبکہ یھودی آج بھی فرعون سے نجات کی یاد میں ایسا کوئی روزہ نہیں رکھتے جو دس محرم سے مطابقت رکھتا ہو۔۔ یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ اس سے پچھلی حدیث میں تھا کہ رسول الله ﷺ جب مدینہ آئے تو یھودیوں کو روزہ رکھتے دیکھا، یعنی یہ پہلے سال میں تھا۔ حالانکہ پہلے سال میں ہونا محال ہے کیونکہ وہ ربیع الاول میں آئے تھے، لہذا دوسرے سال انکو روزہ رکھتے دیکھنا کہنا زیادہ مضبوط بات ہوگی۔ لیکن اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے روزہ رکھنے کا حکم اپنی وفات سے ایک سال قبل دیا، یعنی احادیث میں تضاد ہے۔ جہاں ایک طرف مدینہ آکر انہوں نے یھودیوں کو ایسا کرتے دیکھا وہاں دوسری طرف یھودیوں اور عیسائیوں کے متعلق انکو وفات سے ایک سال قبل بتایا گیا کہ یہ عظیم دن ہے ان کیلئے۔ پھر یہ بات بھی ہم کریں گے کہ کیا رسول الله ﷺ کو یھودیوں کی شریعت اخذ کرنا تھی یا پھر الله ﷻ کی طرف سے انکو شریعت ملی۔ یھودیوں کی دیکھا دیکھی میں کیونکر وہ شریعت اپنائیں گے۔ لہذا نہ تاریخی لحاظ سے یہ روایت درست ہے کیونکہ وہ ربیع الاول میں آئے، اور نہ یھودی و عیسائی مذاہب کے لحاظ سے درست ہے، بلکہ دوسری “صحیح” حدیث سے متضاد بھی ہے۔
کوئی کہے گا کہ یھودیوں نے تو شریعت و تورات بدل دی تو آپ اس سے کیوں بات کر رہے ہیں۔ تو ہم کہیں گے کہ عرض ہے کہ تورات کے قدیم ترین نسخے تین ہزار سال پرانے ہیں اور ان میں یہ آیت موجود ہے، لیکن بالفرض ہم آپکی بات قبول کرلیتے ہیں کہ شریعت و تورات بدل دی گئی۔ لیکن یہ بات بھی واپس آپ پر آتی ہے کیونکہ اسکا مطلب ہوا کہ رسول الله ﷺ نے تحریف شدہ شریعت کو قبول کرلیا اور اسکو اپنی شریعت میں شامل کرلیا، کیا محمد ﷺ ایک تبدیل کی گئی شریعت کو قبول کرلینگے وہ بھی یھودیوں سے۔ جبکہ یہ تو صحیح البخاري میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لأَهْلِ الإِسْلاَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ، وَلاَ تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا ‏{‏آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ‏}‏ ‏"‏‏.‏ الآيَةَ‏.‏
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب توریت عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر مسلمانوں کے لیے عربی میں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو کیونکہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہو ااور جو ہم سے پہلے تم پر ناز ل ہوا آخر آیت تک جو سورۃ البقرہ میں ہے ۔ (7) تو کیا رسول الله ﷺ یھودیوں کی تصدیق کر رہے تھے اور انکی شریعت سے اخذ کر رہے تھے اور اپنی ہی تیمات کے خلاف جا رہے تھے۔ یہ روزہ رکھنے والی حدیث سے بہت سے توہین کے پہلو نکلتے ہیں نبی ﷺ کے خلاف اگر اسکو سنجیدگی سے دیکھا جائے۔
ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بھی کچھ لوگوں نے احادیث گھڑیں تاکہ 10 محرم کے دن کو ایک خوشی کا دن سمجھا جائے، کیونکہ روزہ خوشی میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اور اس سے نبی ﷺ پر بھی حرف آتا ہے کہ وہ یھودیوں کی تقلید میں شریعت میں ترمیم کر رہے تھے نعوذ بالله ﷻ من ذلك۔ اسکو خوشی کا دن دکھانے کیلئے وہ حدیث بھی گھڑی گئی کہ اس دن آدم ع کی توبہ قبول ہوئی بنی اسرائیل کو نجات ملی وغیرہ۔۔۔ تاکہ اس دن کے واقعہ یعنی کربلاء کو تاریخ سے مٹایا جا سکے اور اس دن کو خوشی کا دن بنایا جا سکے۔ حالانکہ یھودیوں کے نزدیک رجب میں یہ واقعہ پیش آیا نہ کہ محرم، تو وہ روایت میں کیونکر اپنی ہی تورات کو جھٹلا دیں گے۔ جس نے بھی یہ حدیث گھڑی اسکو اس بات کا علم نہ تھا اور یہ ظاہر ہو رہا ہے اس روایت کے متن سے۔ محمد ﷺ کو اس لیئے بھیجا گیا تاکہ پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوں، نہ کہ انکی تقلید کرنا۔ لہذا ہمیں ان سے متمسک رہنا ہوگا اور سنت رسول الله ﷺ کو ادا کرنا ہوگا امام حسین ع پر گریہ کرکے۔ البتہ ایک موثق روایت ہے کہ رسول الله ص نے اس دن روزہ رکھا:
وَعَنْهُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي هَمَّامٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: صَامَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَوْمَ عَاشُورَاءَ.
امام رضا ع نے فرمایا: رسول الله ص نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا تھا۔ (😎 اور بعض روایات کے مطابق یہ روزہ پہلے ہوا کرتا تھا، مگر رمضان کے روزوں کے حکم کے آنے کے بعد یہ متروک ہوگیا۔ اس پر محمد بن مسلم کی صحیحہ دال ہے:
١٨٠٠ - سَأَلَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ زُرَارَةُ بْنُ أَعْيَنَ أَبَا جَعْفَرٍ الْبَاقِرَ ع‌ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَقَالَ كَانَ صَوْمُهُ قَبْلَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَلَمَّا نَزَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ تُرِكَ‌
محمد بن مسلم اور زرار بن اعین نے امام باقر ع سے یوم عاشوراء کے روزے کا پوچھا، تو امام ع نے فرمایا: وہ ماہ رمضان سے پہلے کا روزہ تھا، تو جب رمضان کے ماہ کے روزوں کا حکم نازل ہوا، وہ (عاشوراء کا روزہ) متروک ہوگیا۔ (9) نوٹ: بخاری اور دیگر سنی کتب میں بھی ایسی روایت موجود ہے۔ (10) ایک اور وضاحت یہ ہے کہ اہل تشیع کے ہاں آئمہ ع سے ایسی روایات بھی مروی ہیں کہ اس دن روزہ رکھنا ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، جبکہ ایسی بھی روایات ہیں کہ یہ ابن مرجانہ و آل زیاد کا روزہ ہے۔ شیخ طوسی نے ان روایات کو نقل کرکے کہا ہے کہ یہ روزہ اگر خوشی و برکت کے غرض سے رکھا جائے تو یہ گناہ اور خطاء ہے البتہ اسکو کوئی حزن و غم کی غرض سے رکھے تو ٹھیک ہے۔ (11) اہل تشیع میں بھی اس کے استحباب پر روایات وارد ہوئی ہیں البتہ اس روزے کو مغرب تک مکمل کرنا مراجع معاصرین کے نزدیک مکروہ ہے اور عصر کے وقت فاقہ کشی کی جانی چاہیئے۔
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
مآخذ:
(1) مسند أحمد، رقم الحديث: 8717
(2) ضعيف الجامع، رقم: 5654، سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، رقم: 413
(3) سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، رقم: 5413
(4) صحيح البخاري، رقم: 3943، صحيح مسلم، رقم: 1130، سنن أبي داود، رقم: 2444
(5) التوراة، السفر الخامس، الباب 16، الآية 1
(6) صحيح مسلم، رقم الحديث: 1134، سنن أبي داود، رقم الحديث: 2445
(7) صحيح البخاري، رقم الحديث: 7362
(😎 تهذيب الأحكام، ج 4، ص 298 و 299
(9) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 1800
(10) صحيح البخاري، الرقم: 2002، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ‏.‏
(11) تهذيب الأحكام، ج 4، ص 302، فَالْوَجْهُ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَنَّ مَنْ صَامَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَلَى طَرِيقِ الْحُزْنِ بِمُصَابِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ الْجَزَعِ لِمَا حَلَّ بِعِتْرَتِهِ فَقَدْ أَصَابَ وَ مَنْ صَامَهُ عَلَى مَا يَعْتَقِدُ فِيهِ مُخَالِفُونَا مِنَ الْفَضْلِ فِي صَوْمِهِ وَ التَّبَرُّكِ بِهِ وَ الِاعْتِقَادِ لِبَرَكَتِهِ وَ سَعَادَتِهِ فَقَدْ أَثِمَ وَ أَخْطَأَ.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں