ہفتہ، 7 مارچ، 2015

نماز جماعت کی اہمیت

٭٭نماز جماعت کی اہمیت٭٭
آئیے ہم یہاں پر کچھ احادیث نماز جماعت کی اہمیت کے پیش نظر پیش کرتے ہیں؛
1) مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْهُ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فَلَا صَلَاةَ لَه
امام باقر(ع): "امیر المؤمنین ع نے فرمایا کہ جو شخص اذان کی آواز سنے اور پھر کسی عذر کے بغیر لبیک نہ کہے (یعنی جماعت میں حاضر نہ ہو) تو اس کی نماز نہیں ہے۔"
(الکافی: ج3 ص372، تہذیب الاحکام: ج3 ص24، وسائل الشیعہ: ج8 ص291)
مذکورہ حدیث کی دو اسناد ہیں، اور دونوں میں جلیل القدر ثقات موجود ہیں۔ پس درایت کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح اعلائی کے مرتبے پر ہے۔
2) مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ تَفْضُلُ عَلَى كُلِّ صَلَاةِ الْفَرْدِ بِأَرْبَعٍ وَ عِشْرِينَ دَرَجَةً تَكُونُ خَمْساً وَ عِشْرِينَ صَلَاة
امام صادق(ع): "جماعت میں نماز تمام فرادی نمازوں سے چوبیس گنا افضل ہے، یعنی 25 نمازوں کے برابر درجہ ہے۔"
(تہذیب الاحکام: ج ص25، وسائل الشیعہ: ج8 ص285)
اس حدیث کے بھی تمام راوی ثقہ ہیں، پس یہ روایت بھی صحیح کے درجے پر ہے۔ نماز جماعت تب فرادی نماز سے چوبیس گنا افضل ہے جب ایک امام اور ایک ماموم ہوں، جتنے مقتدی/ ماموم بڑھیں گے اتنا ہی ثواب میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ شہید ثانی(رض) شرح لمعہ میں فرماتے ہیں کہ مذکورہ ثواب اس صورت میں ہے جب امام غیر عالم ہوگا، اگر وہ (صحیح معنوں میں) عالم ہوگا تو نماز جماعت کا ثواب بڑھ جائے گا اور اس کا درجہ ہزار فرادی نمازوں کے برابر ہوگا۔ اور جیسے جیسے ماموم بڑھیں گے ثواب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دیگر عوامل کے سبب اس ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مثلا اگر یہ جماعت بازار کی مسجد میں منعقد ہو تو ثواب میں اضافہ ہوگا، اگر محلّے کی مسجد میں ہو مزید اضافہ ہوگا، شہر کی جامع مسجد میں ہو تو اس میں اور اضافہ ہوگا۔ اسی طرح مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد کوفہ اور آئمہ(ع) کے روضوں کی مساجد میں یہ ثواب بیشتر ہوتا چلا جائے گا۔
3) قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَهُمُّ بِعَذَابِ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيعاً حَتَّى لَا يُرِيدَ أَنْ يُحَاشِيَ مِنْهُمْ أَحَداً إِذَا عَمِلُوا بِالْمَعَاصِي وَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى الشِّيبِ نَاقِلِي أَقْدَامِهِمْ إِلَى الصَّلَوَاتِ وَ الْوِلْدَانِ يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ رَحِمَهُمْ وَ أَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِك
امام علی(ع): "اللہ تعالی جب ارادہ کرتا ہے کہ اہل زمین کو عذاب کرے اور کسی ایک آدمی کو بھی ان کی برائی اور گناہوں کی وجہ سے نہ چھوڑے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ بوڑھے اپنے قدم نماز (جماعت) کی طرف اٹھا رہے ہیں اور چھوٹے بچے قرآن سیکھ رہے ہیں، تو اللہ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب کو مؤخر کر دیتا ہے۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ص239، علل الشرائع: ج2 ص521)
4) عَنِ النَّبِيِّ ص مَنْ صَلَّى أَرْبَعِينَ يَوْماً فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى كُتِبَ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاق
نبی کریم(ص): "جو شخص چالیس دن جماعت کو تکبیرۃ الاولی کے ساتھ پڑھے تو اس کے لئے دو چیزوں کی برائت (امان) لکھ دی جاتی ہے، ایک جہنّم سے برائت اور دوسرا منافقت سے برائت۔"
(بحارالانوار: ج85 ص4، مستدرک الوسائل: ج46ص448)
تکبیرۃ الاولی سے مراد نماز کی پہلی تکبیر ہے۔ احادیث میں جماعت کو پڑھنے کا ثواب موجود ہے لیکن اس جماعت کو بہترین کہا گیا ہے جس میں ماموم تکبیرۃ الاولی کو درک کرے یعنی امام جماعت کی پہلی تکبیر میں موجود ہو۔
تمام مؤمنین سے گزارش ہے کہ خاکسار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں