٭مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟٭
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ أَكْرَمَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ بِكَلِمَةٍ يُلْطِفُهُ بِهَا أَوْ قَضَى لَهُ حَاجَةً أَوْ فَرَّجَ عَنْهُ كُرْبَةً لَمْ تَزَلِ الرَّحْمَةُ ظِلًّا عَلَيْهِ مَمْدُوداً مَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنَ النَّظَرِ فِي حَاجَتِهِ ثُمَّ قَالَ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ لِمَ سُمِّيَ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً لِإِيمَانِهِ النَّاسَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ أَمْوَالِهِمْ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ مَنِ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ [مِنْ] يَدِهِ وَ لِسَانِهِ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ بِالْمُهَاجِرِ مَنْ هَجَرَ السَّيِّئَاتِ وَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ مَنْ دَفَعَ مُؤْمِناً دَفْعَةً لِيُذِلَّهُ بِهَا أَوْ لَطَمَهُ لَطْمَةً أَوْ أَتَى إِلَيْهِ أَمْراً يَكْرَهُهُ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُرْضِيَهُ مِنْ حَقِّهِ وَ يَتُوبَ وَ يَسْتَغْفِرَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْعَجَلَةَ إِلَى أَحَدٍ فَلَعَلَّهُ مُؤْمِنٌ وَ أَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ وَ عَلَيْكُمْ بِالْأَنَاةِ وَ اللِّينِ وَ التَّسَرُّعِ مِنْ سِلَاحِ الشَّيَاطِينِ وَ مَا مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَنَاةٍ وَ اللِّين
امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "جو شخص اپنے مومن بھائی کی ایک کلمے سے بھی تکریم کرے، یا اس کی کوئی حاجت پوری کرے، یا اس سے کسی کرب کو دور کرے تو وہ شخص ہمیشہ رحمت خداوندی کے سایے میں ہوتا ہے اور جب تک وہ اس کی تکریم یا اس کے حاجات کی طرف متوجہ ہوتا ہے
پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟
کیونکہ لوگ اپنے نفس اور اموال کے حوالے سے اس پر یقین و اطمینان رکھتے ہیں۔
کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مسلمان کو مسلمان کیوں کہا جاتا ہے؟
کیونکہ لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے سالم رہتے ہیں (یعنی و لوگوں کی دلآزاری نہیں کرتا)۔
کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مہاجر کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟
کیونکہ وہ برائیوں اور گناہوں سے ہجرت کرتا ہے اور جو چیز اللہ نے اس پر حرام کی ہے دوری اختیار کرتا ہے۔
اور جو شخص کسی مومن کو رد کرے تاکہ اس کے ذریعے اس کو ذلیل و خوار کرے یا اس کو تھپڑ مارے یا اس پر کوئی مکروہ (و نقصاندہ) امر وارد کرے تو فرشتے اس شخص پر لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس مومن کو خوشنود اور خود توبہ و استغفار نہ کرے۔
اس کے بعد فرمایا: کسی بھی شخص کے متعلق ہوشیار رہو، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور تمہیں پتہ نہ ہو۔
اور تم پر لازم ہے کہ نرمی اور آسانی کو اختیار کرو اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے فرار کرو، کیونکہ اللہ کے نزدیک نرمی اور آسانی سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہیں ہے۔"
(علل الشرائع: ج2 ص523، باب نمبر 300)
رجال و درایۃ الحدیث:
اس حدیث کو شیخ صدوق نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ ان کے والد ابن بابویہ قمّی، عبداللہ بن جعفر اور ہارون بن مسلم (رضی اللہ عنھم) ثقہ ہیں۔ جبکہ مسعدہ بن صدقہ کو شیخ طوسی نے سنّی کہا ہے اور شیخ کشی نے بتری۔ شیخ نجاشی نے ان کی کتب کا ذکر کیا ہے جن کو ہارون بن مسلم روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان کی مذمّت بھی کہیں وارد نہیں ہوئی ہے۔ آقا وحید بہبہانی فرماتے ہیں کہ احادیث میں تتبّع سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعدہ بن صدقہ کی روایات جمیل بن دراج و حریز بن عبداللہ جیسے ثقات کی طرح بہترین متن کی حامل ہیں۔
فوائد الحدیث:
آجکل ایک دوسرے کو مومن کہنے کا عام رواج چل پڑا ہے، یہ حدیث احتساب کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم خود کو مومن کہلوا سکتے ہیں؟ معصوم کا یہ فرمانا کہ مومن کو مومن اس لئے کہا گیا کہ دوسرے لوگ اس سے امان میں رہیں یعنی وہ کسی کو گزند نہ پہنچائے، اور لوگوں کو اس سے اطمینان ہو۔ پس کیا محض نعرے لگانا ایمان کی دلیل ہے؟ یا اخلاق و کردار کا احسن ہونا؟
جس کا اخلاق احسن ہو وہ اکثر لوگوں کی طرف سے مورد آزار ٹھہرا رہتا ہے کیونکہ لوگ اس کے عمدہ اخلاق کو منفی سوچ کی وجہ سے منفی لے جاتے ہیں، تبھی مومن اکثر بلا اور آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے۔
اور اگر کوئی واقعی مومن ہے تو اس کا لوگوں پر حق بھی عظیم ہوگا، اس کو آزار پہنچانا اور تکلیف دینا ناقابل معافی جرم ٹھہرتا ہے جس کو وہی مومن ہی معاف کر سکتا ہے۔ نیز معصوم ہمیں متنبّہ کر گئے ہیں کہ لوگوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کسی پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ کسی بھی برائی کے جواب میں حد سے آگے بڑھو کہ ظلم کرنے لگ جاؤ، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور اللہ کے بندے کو نقصان پہنچا بیٹھیں یا دلآزاری کریں۔
بیشک اللہ آسانی اور نرمی کو پسند کرتا ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ أَكْرَمَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ بِكَلِمَةٍ يُلْطِفُهُ بِهَا أَوْ قَضَى لَهُ حَاجَةً أَوْ فَرَّجَ عَنْهُ كُرْبَةً لَمْ تَزَلِ الرَّحْمَةُ ظِلًّا عَلَيْهِ مَمْدُوداً مَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنَ النَّظَرِ فِي حَاجَتِهِ ثُمَّ قَالَ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ لِمَ سُمِّيَ الْمُؤْمِنُ مُؤْمِناً لِإِيمَانِهِ النَّاسَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَ أَمْوَالِهِمْ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ مَنِ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ [مِنْ] يَدِهِ وَ لِسَانِهِ أَ لَا أُنَبِّئُكُمْ بِالْمُهَاجِرِ مَنْ هَجَرَ السَّيِّئَاتِ وَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ مَنْ دَفَعَ مُؤْمِناً دَفْعَةً لِيُذِلَّهُ بِهَا أَوْ لَطَمَهُ لَطْمَةً أَوْ أَتَى إِلَيْهِ أَمْراً يَكْرَهُهُ لَعَنَتْهُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُرْضِيَهُ مِنْ حَقِّهِ وَ يَتُوبَ وَ يَسْتَغْفِرَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْعَجَلَةَ إِلَى أَحَدٍ فَلَعَلَّهُ مُؤْمِنٌ وَ أَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ وَ عَلَيْكُمْ بِالْأَنَاةِ وَ اللِّينِ وَ التَّسَرُّعِ مِنْ سِلَاحِ الشَّيَاطِينِ وَ مَا مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَنَاةٍ وَ اللِّين
امام جعفر صادق(ع) سے منقول ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "جو شخص اپنے مومن بھائی کی ایک کلمے سے بھی تکریم کرے، یا اس کی کوئی حاجت پوری کرے، یا اس سے کسی کرب کو دور کرے تو وہ شخص ہمیشہ رحمت خداوندی کے سایے میں ہوتا ہے اور جب تک وہ اس کی تکریم یا اس کے حاجات کی طرف متوجہ ہوتا ہے
پھر آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مومن کو مومن کیوں کہا جاتا ہے؟
کیونکہ لوگ اپنے نفس اور اموال کے حوالے سے اس پر یقین و اطمینان رکھتے ہیں۔
کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مسلمان کو مسلمان کیوں کہا جاتا ہے؟
کیونکہ لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے سالم رہتے ہیں (یعنی و لوگوں کی دلآزاری نہیں کرتا)۔
کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ مہاجر کو مہاجر کیوں کہتے ہیں؟
کیونکہ وہ برائیوں اور گناہوں سے ہجرت کرتا ہے اور جو چیز اللہ نے اس پر حرام کی ہے دوری اختیار کرتا ہے۔
اور جو شخص کسی مومن کو رد کرے تاکہ اس کے ذریعے اس کو ذلیل و خوار کرے یا اس کو تھپڑ مارے یا اس پر کوئی مکروہ (و نقصاندہ) امر وارد کرے تو فرشتے اس شخص پر لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس مومن کو خوشنود اور خود توبہ و استغفار نہ کرے۔
اس کے بعد فرمایا: کسی بھی شخص کے متعلق ہوشیار رہو، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور تمہیں پتہ نہ ہو۔
اور تم پر لازم ہے کہ نرمی اور آسانی کو اختیار کرو اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے فرار کرو، کیونکہ اللہ کے نزدیک نرمی اور آسانی سے زیادہ محبوب کوئی شئے نہیں ہے۔"
(علل الشرائع: ج2 ص523، باب نمبر 300)
رجال و درایۃ الحدیث:
اس حدیث کو شیخ صدوق نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ ان کے والد ابن بابویہ قمّی، عبداللہ بن جعفر اور ہارون بن مسلم (رضی اللہ عنھم) ثقہ ہیں۔ جبکہ مسعدہ بن صدقہ کو شیخ طوسی نے سنّی کہا ہے اور شیخ کشی نے بتری۔ شیخ نجاشی نے ان کی کتب کا ذکر کیا ہے جن کو ہارون بن مسلم روایت کرتے ہیں۔ البتہ ان کی مذمّت بھی کہیں وارد نہیں ہوئی ہے۔ آقا وحید بہبہانی فرماتے ہیں کہ احادیث میں تتبّع سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعدہ بن صدقہ کی روایات جمیل بن دراج و حریز بن عبداللہ جیسے ثقات کی طرح بہترین متن کی حامل ہیں۔
فوائد الحدیث:
آجکل ایک دوسرے کو مومن کہنے کا عام رواج چل پڑا ہے، یہ حدیث احتساب کی دعوت دیتی ہے کہ کیا ہم خود کو مومن کہلوا سکتے ہیں؟ معصوم کا یہ فرمانا کہ مومن کو مومن اس لئے کہا گیا کہ دوسرے لوگ اس سے امان میں رہیں یعنی وہ کسی کو گزند نہ پہنچائے، اور لوگوں کو اس سے اطمینان ہو۔ پس کیا محض نعرے لگانا ایمان کی دلیل ہے؟ یا اخلاق و کردار کا احسن ہونا؟
جس کا اخلاق احسن ہو وہ اکثر لوگوں کی طرف سے مورد آزار ٹھہرا رہتا ہے کیونکہ لوگ اس کے عمدہ اخلاق کو منفی سوچ کی وجہ سے منفی لے جاتے ہیں، تبھی مومن اکثر بلا اور آزمائشوں میں مبتلا رہتا ہے۔
اور اگر کوئی واقعی مومن ہے تو اس کا لوگوں پر حق بھی عظیم ہوگا، اس کو آزار پہنچانا اور تکلیف دینا ناقابل معافی جرم ٹھہرتا ہے جس کو وہی مومن ہی معاف کر سکتا ہے۔ نیز معصوم ہمیں متنبّہ کر گئے ہیں کہ لوگوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کسی پر بھی ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ کسی بھی برائی کے جواب میں حد سے آگے بڑھو کہ ظلم کرنے لگ جاؤ، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مومن ہو اور اللہ کے بندے کو نقصان پہنچا بیٹھیں یا دلآزاری کریں۔
بیشک اللہ آسانی اور نرمی کو پسند کرتا ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں