منگل، 3 مئی، 2016

شیعہ مراجع اور اتحاد بین المسلمین



٭شیعہ مراجع اور اتحاد بین المسلمین٭
سوال: کہا جا رہا ہے کہ آیت اللہ العظمی شیخ حسین وحید خراسانی اتحاد بین المسلمین کے مخالف ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: آیت الله العظمی شیخ حسین وحید خراسانی(دامت برکاتھم) کا شمار درجہ اول کے مراجع میں ہوتا ہے. قم میں ان کا درس خارج اصول مشہور ہے جہاں ایک وقت میں سینکڑوں فضلا ان سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف پروپگنڈوں کی طرح یہ بھی درست نہیں کہ آپ اتحاد کے خلاف ہیں. ہاں آپ اس اتحاد کے خلاف ہیں جس میں صدیوں سے رائج شیعہ تاریخی و اصولی موقف سے دستبردار ہوا جائے. اور ایسے اتحاد کے دیگر مراجع بھی قائل نہیں۔
ہر وہ مرجع جو عالم اسلام کے مسائل کو درک کرتا ہو اور تاریخ میں آئمہ ع کی سیرت و کردار کا عمیق مطالعہ کر چکا ہو وہ کبھی اتحاد بین المسلمین اور تقریب مذاہب کا مخالف نہیں ہوگا۔ یہاں ایک اور جید مرجع آیت اللہ العظمی سید موسی شبیری زنجانی(حفظہ اللہ) کے چند الفاظ بہت مفید ہوں گے جو انہوں نے مختلف اسلامی مسالک کے درمیان تقریب (قربت) کے بارے میں لکھے ہیں۔ یاد رہے کہ جو لوگ آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کے بارے میں اس طرح کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں وہ آیت اللہ موسی شبیری زنجانی کا بہت احترام کرتے ہیں، بلکہ آنجناب کی شخصیت ہی ایسی ہے کہ ہر طرز فکر کے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔ رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (دام ظلہ) کے بیٹوں کے استاد ہیں اور ساتھ ہی مرحوم آیت اللہ العظمی شیخ حسینعلی منتظری(رح) نے اپنے مقلّدوں کو اپنی وفات کے بعد آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔
آمدم بر سر مطلب، ان کے الفاظ ہم من و عن یہاں ترجمہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں؛
"اتحاد بین المسلمین دو طرح کے ہیں، ایک ممدوح ہے اور ایک مذموم ہے۔ وہ تقریب بین المسلمین جو آیت اللہ شیخ محمد تقی قمّی نے مصر میں قائم کی تھی ممدوح تھی اور اس میں کوئی اشکال نہ تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ شیعہ اور سنّی کے درمیان مشترکات ہیں لیکن زہریلے پروپیگنڈے کی وجہ سے دونوں فرقے ایک دوسرے کو درست انداز میں نہیں پہچانتے۔ اگر طرفین ایک دوسرے کو صحیح طور پر پہچاننے لگیں تو بہت سے اختلافات ختم ہو جائیں۔
اہلسنت کے درمیان یہ بات پھیلائي جاتی ہے کہ شیعہ علی(ع) کو خدا کہنے والے ہیں یا نماز کے بعد "خان الامین" کہتے ہیں (یعنی حضرت جبرائیل نے معاذاللہ رسالت علی ع کے بجائے خیانت سے محمد ص کو دی)، اور اسی طرح دیگر غلط باتوں کی نسبت شیعوں سے دی جاتی ہے۔ ایک اور عامل جس کی وجہ سے سنّی شیعہ کو نہیں پہچان سکتے وہ ان کی شیعہ کتب تک عدم دسترسی ہے۔ جبکہ اس بارے میں ہم اہلسنت کو پڑھ سکتے ہیں کیونکہ سنی کتب ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں اور ممنوع نہیں ہیں۔ لیکن شیعہ کتب بہت سے سنّی ممالک میں ممنوع ہیں۔ اسی طرح شیخ تقی قمّی نے مسالک کے درمیان قربت کو تشکیل دیا تاکہ طرفین کے مشترکات معلوم ہوں اور دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں۔ متعصب افراد پہلے ان کے موافق نہیں تھے اور شاید اواخر تک مخالف رہے۔
شیخ محمد تقی فرمایا کرتے تھے: اس سے قبل کہ میں مسالک کے درمیان تقریب پیش کروں، یہ لوگ میرا نام القابات کے ساتھ لکھتے، لیکن جب میں نے مسالک کے درمیان قربت کے لئے کام شروع کیا تو اعتراض کیا کہ یہ کیوں مصر میں یہ کام کر رہے ہیں، جائیں ایران میں یہ کام کریں۔ اس کے بعد میرے القابات میں کمی ہونا شروع ہوئی یہاں تک کہ صرف میرا نام "محمد تقی" لکھنے لگے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ اواخر میں میرا نام "تقی من التقیہ" لکھنے لگے یعنی میرا نام تقیہ سے مشتق سمجھنے لگے، بجائے تقوی سے۔
اس اتحاد بین المسلمین کی ترویج مرحوم آقائے بروجردی بھی فرماتے تھے۔ ابتدا میں آیت اللہ تقی قمّی شاہ ایران کی طرف سے مصر گئے لیکن بعد میں آقائے بروجردی سے متصل ہوئے اور ان کی طرف سے دارالتقریب (اسلامی مذاہب کو قریب لانے والا ادارہ) کے مسؤول مقرر ہوئے۔ ان اقدامات کی وجہ سے مفتی اعظم مصر شیخ محمد شلتوت نے (مشہور) فتوی دیا کہ مذہب جعفری کے مطابق محاکم قضائی میں عمل کرنا اشکال نہیں رکھتا۔ یہ فتوی اہلسنّت کے درمیان بہت اہمیت کا حامل تھا۔
امّا مذموم اتحاد وہ تقریب ہے جو (ایرانی بادشاہ) نادر شاہ نے شروع کیا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ایران کو اصول دین میں سنّی ہونا چاھئے، لیکن چونکہ فروع میں عادت کر چکے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) کے احکامات کے مطابق عمل کریں، لہذا کوئی مانع نہیں کہ (فروع) میں جعفری مسلک کے مطابق عمل کریں۔ بعض شیعہ علماء نے خوف کی وجہ سے نادر شاہ کے اس اتحاد کے فارمولے پر دستخط کئے وگرنہ نادر شاہ ان کو قتل کرتا۔ اور جنہوں نے مخالفت کی ان کو قتل کر دیا گیا۔"
یہاں آيت اللہ موسی شبیری زنجانی کے الفاظ تمام ہوئے۔ چنانچہ شیعہ مراجع کے نزدیک اتحاد بین المسلمین کا مطلب ہے کہ شیعہ سنّی باہم قریب ہوں اور ایک دوسرے کے مشترکات کو دیکھیں۔ دونوں اپنے اپنے مسالک پر قائم رہتے ہوئے اتحاد کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات بہت سارے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور حسب معمول افراط و تفریط کا شکار ہوئے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اتحاد کا مفہوم دونوں مسالک کے درمیان ادغام کی صورت میں لیا اور کہا کہ شیعہ اپنے عقائد سے دستبردار ہو جائیں، اور بعض بالکل شدت سے مخالف ہوئے۔
انہی لوگوں نے حالیہ کچھ بیانات کی وجہ سے آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کے بارے میں مشہور کرنا شروع کیا کہ آپ اتحاد کے مخالف ہیں۔ جبکہ ان کے بیانات کو غور سے پڑھا جائے تو واضح ہوگا کہ آپ اس مذموم اتحاد و تقریب بین مذاہب کے خلاف ہیں جس میں شیعہ اپنے صدیوں پرانے عقائد سے دستبردار ہوں، اور ان معنوں میں اتحاد و تقاریب کو دیگر مراجع نے بھی رد کیا ہے۔
آیت الله العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) اور آیت الله العظمی شیخ ناصر مکارم شیرازی (دامت برکاتھم) بار ہا وضاحت کر چکے ہیں کہ اتحاد کا مقصد یہ نہیں کہ شیعہ اپنے موقف سے دستبردار ہو جاییں اور یہ بھی کہ تاریخی واقعات بیان کرنا توہین نہیں. چنانچہ ایران میں ایّام فاطمیہ سرکاری سطح پہ منائے جاتے ہیں. اتحاد کا مقصد توہین کے بغیر ہم زیستی ہے لیکن علمی و تاریخی اختلافات اپنی جگہ ممکن ہیں۔
یہ بات بھی بیان ہونا ضروری ہے کہ جید مراجع جیسے آیات عظام سیستانی، مکارم شیرازی و خامنہ ای نے اہلسنت کے مقدسات کی توہین سے منع کیا۔ اختلافات کو توہین اور گالم گلوچ کے بغیر بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور یہی شایستہ و منطقی طریقہ ہے جیسا قرآن میں حکم ہے کہ احسن انداز میں جدال کیا جائے۔ کم و بیش یہی رائے آیت الله وحید خراسانی بھی رکھتے ہیں، جیسا کہ ان کے ایک درس میں ایک طالب علم نے خلیفہ ثانی کی توہین کی تو آپ شدید ناراض ہوے اور اس طالب علم کو ٹوکا۔
کچھ عرصہ پہلے علمی حلقوں میں یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ آیت اللہ العظمی وحید خراسانی نے اپنے درس خارج کے دوران سنّی عالم امام فخر الدین رازی کی تفسیر سے ایک روایت پڑھی اور خلیفۂ ثانی حضرت عمر کے نام کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" کہا۔ اس کی وجہ سے بعض لوگوں نے خلیفۂ ثانی کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو آپ کافی غصّے میں گویا ہوئے کہ کیا میں نے اپنے درس میں اس طرح کی باتوں سے منع نہیں کیا؟
لہذا اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں آيت اللہ العظمی وحید خراسانی کا بھی موقف وہی ہے جو دیگر مراجع جیسے آیت اللہ خامنہ ای و مکارم شیرازی کا ہے۔ جو گروہ اس حوالے سے غلط پروپیگنڈا کر رہا ہے اور لوگوں کے درمیان غلط فہمی پھیلا رہا ہے، ان کا شر نقش بر آب ثابت ہوگا انشاء اللہ۔

خاکسار: سید جواد رضوی
ادارہ احیائے تعلیمات محمد و آل محمد(ص)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں