علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ ایام کے نحس و سعد ہونے کے بارے میں مطالب ظاہر شرع سے موافق نہیں ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 79 میں ذکر ہے کہ جب امام علی(ع) صفّین سے واپس آ رہے تھے اور نہروان کی طرف جانا چاہتے تھے تو آپ کے کچھ اصحاب نے کہا کہ آپ سفر کیلئے کوئی اور وقت اختیار کریں، علم نجوم کے مطابق اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں۔ اس پر امام علی(ع) نے فرمایا کہ جو تمہارے اس بیان کی تصدیق کرے گا درحقیقت وہ قرآن کی تکذیب کرنے والا ہوگا۔
جو دیوان مولا علی(ع) سے منسوب ہے اس میں درج ہے کہ اس موقعے پر ایک نجومی نے آپ کو کہا تھا کہ یہ دن نحس ہے، لہذا خروج نہ کریں۔ اس پر آپ نے اس کی مذمّت میں چند اشعار کہے اور سفر پر روانہ ہوئے۔
درحالیکہ بعض معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشور کا دن نحس اور آئمہ ع کی ولادت کے ایاّم مبارک ہیں۔ البتہ ان ایام کا نیک و نحس ہونا بھی دراصل انسانوں کے افعال کی وجہ سے ہے، جب یہ انسان اتنے بدبخت ہو جائیں کہ حجت ہائے خدا کو قتل کرنے پر آمادہ ہوں تو یہ ایّام ان کے شوم ارادے کی وجہ سے نحس ہیں۔
پس کوئی دن یا جگہ نحس نہیں ہوتی، ہمارے اعمال اس کو نحس بنا دیتے ہیں۔ اور اسی طرف آیت کریمہ "فَأَرْسَلْنا عَلَیْهِمْ رِیحاً صَرْصَراً فِی أَیَّامٍ نَحِساتٍ" دلالت کرتی ہے کہ سابقہ قوم کے اعمال کے نتیجے میں کسی نحس دن ان کی طرف عذاب بھیجا گیا۔
بعض روایات میں کچھ دنوں کے نیک و بد ہونے کا ذکر ہے وہ ان روایات سے معارض ہیں جن میں ان ایاّم کی نحوست پر اعتبار کرنے سے منع کیا گيا ہے۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کو کسی دن پر شک ہو تو اس دن صدقہ دے اور اللہ پر توکّل کر کے اپنا کام شروع کرے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
جزاک اللہ۔
جواب دیںحذف کریںآپ نے میری پریشانی ختم کر دی۔