بدھ، 24 دسمبر، 2014

ماہ مبارک رمضان اور صلۂ رحمی

٭ماہ مبارک رمضان اور صلۂ رحمی٭

ماہ مبارک رمضان کے حوالے سے حضرت امام سجاد (ع) اپنے خالق حقیقی سے مناجات میں یوں راز ونیاز کرتے ہیں؛

" پروردگارا اس مبارک مہینے میں ہمیں اپنے عزیز واقارب سے نیک برتاؤ ، ان سے ملاقات اور صاحب ضرورت پڑوسیوں کے ساتھ عطا و بخشش کی توفیق عطا فرما ، ہمارے اموال میں جو ناحق اضافہ ہو گیا ہے اسے خیرات وزکات کی توفیق کے ذریعے پاک کردے اور جو لوگ ہم سے جدا اور علحدہ ہوگئے ہیں ان سے پھر ملا دے "

آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ انار کے دانے جب ایک دوسرے سے جڑے اور ایک ساتھ اور مرتب ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو حیثیت اور عظمت وشان وشوکت عطا کرتے ہیں ۔ ہم لوگ بھی انار کے دانوں کی طرح ہیں، یعنی اس وقت ہم قابل ذکر حیثیت اور تشخص کے حامل ہیں جب ایک ساتھ ہوں۔ اسی لئے حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے "ایک دوسرے سے علحدگی اختیار کرنے سے پرہیز ایک دوسرے سے منہ موڑنے سے اجتناب کرو"حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے علحدگی اور جدائی اور منہ موڑنے سے آدمی کی کوئی حیثیت اور وقار باقی نہیں رہتا۔

ایک آرے کو ہاتھ میں اٹھاکر دیکھئے اس کے دانت یا دندان کس قدر مرتب اور منظم اور ایک قطار میں ہوتے ہیں اور اسی لئے ان میں برش اور کاٹنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ آگے بڑھتا جاتاہے ۔ اگر اس کے دانتے ایک دوسرے سے دور ہوں یا ایک الٹا اور ایک سیدھا ہو تو اس سے لکڑی نہیں کاٹی جاسکتی۔ ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے خاص طور سے جب ہم اپنے عزیز واقارب کے ساتھ زندگی نہ بسر کریں،اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور صلۂ رحم نہ کریں تو ہمارے وجود کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ چیز ہمارے ہی نقصان میں بھی ہے۔ حضرت علی (ع) اس بارے میں فرماتے ہیں" تمھارے لئے افسوس کی بات ہے اگر قطع رحم کرو، یعنی رشتہ داروں اور عزیزوں سے قطع تعلق کرو لیکن یہ بھی جاننا چاہیے کہ صلۂرحم کرنے سے مراد، ایک دوسرے سے ملاقات نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے کام آنا اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثارو فداکاری کرنا ہے۔

شب عاشور حضرت امام حسین (ع) نے اپنے کنبے کے افراد سے فرمایا " میری نظر میں تم سے بڑھکر صلۂ رحم کرنے والا کوئی نہیں ہے" یعنی صلۂ رحم صرف ایک ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانا نہیں ہے بلکہ حقیقتا صلۂرحم سختیوں ، دشواریوں اور مشکلات میں زندگی کے آخری لمحے تک ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔

ایک شخص نے حضرت رسول اکرمۖ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی " اے خداکے رسول ہمارے عزیز واقارب ایسے ہیں کہ ہم ان کے کس ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں لیکن ان کا سلوک ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہے۔ ہم ان کےساتھ رابطہ رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ ہمیں اذیت دیتے ہیں ۔ اب میں نے ان سے ترک تعلق کا فیصلہ کرلیا ہے" حضرت رسول اکرمۖ نے اس شخص کی باتیں سننے کے بعد فرمایا " جب تم ان سے ترک تعلق کرلوگے تو خدا بھی تم سے ترک تعلق کرلے گا" اس نے کہا اے خداکے رسول بتائیے پھر میں کیاکروں؟ آپ نے فرمایا"جس نے تم کو محروم کر رکھا ہے اس کے ساتھ عطا ؤ بخشش کا برتاؤ کرو، جس نے تم سے قطع تعلق کیا ہے اس کے ساتھ تم اپنا رابطہ برقرار رکھو، اور جس نے تم پر ظلم وستم کیا ہے اس کو معاف کردو، اگر ایسا کرو گے تو خداوند کریم تمھارا حامی ومددگار ہوگا" 

حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی عبادت خلق خدا کی خدمت اور الہی نعمتوں کو بندگان الہی کی امداد کی راہ میں صرف کرناہے لیکن اس سے مراد صرف ان کی مالی مدد نہیں ہے بلکہ ان کی ہرقسم کی مشکل کو دور اور حل دینا احسان اور حسن سلوک شمار ہوتاہے۔ اگر کسی مومن کے دل کو مسرور یا اس کے غم کو دور کردیا جائےتو یہ عمل احسان ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتےہیں" اگر کوئی شخص اپنے برادر ایمانی کے چہرے سے خس وخاشاک صاف کردے تو اس کے عوض پروردگار اس کو دس اجر وثواب عطا فرمائے گا اور اگر کوئی اپنے برادر ایمانی کو مسرور کرے اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ آنے کا باعث بنے تو خدا اس کو حسنہ اور نیکی عطا کرے گا" 

شیخ رجب علی خیاط ایک مرد زاہد تھے اور بہت اللہ والے اور عارف تھے ۔ ان کے حالات میں ملتاہے کہ ایک روز ایک جوان آدمی ان کے پاس آیا جو بلڈنگ انجینیر تھا اور اس نے جلد ہی کچھ بلڈنگیں تعمیر کی تھیں لیکن ان کے فروخت نہ ہونے کے باعث سخت مقروض ہوگیاتھا ۔ اس نے شیخ رجب علی سے کہا کہ طلبگار مجھے ڈھونڈ رہے ہیں اور میرا اپنے گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے آخر میں کیا کروں کہ میری مشکل حل ہو جائے؟ شیخ رجب علی نے کچھ سوچنے کے بعد اس جوان انجینیر سے کہا کہ " جاؤ اپنی بہن کو راضی کرو" اس انجینیر نے کہا کہ میری بہن مجھ سے راضی ہے ۔ شیخ رجب علی نے کہا کہ نہیں راضی نہیں ہے۔ اس جوان نے کچھ سوچنے کے بعد کہا کہ ہاں ہو سکتا ہے اس لئے کہ میرے والد کا جب انتقال ہوا تو ان کی میراث میں سے میں نے بہن کو اس کا حصہ نہیں دیا تھا ۔ وہ یہ کہ کر چلا گیا اور اپنی بہن کو کچھ رقم دے کر واپس آیا اور شیخ سے کہنے لگا کہ میں نے اس کی رضامندی حاصل کرلی۔ شیخ نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی پھر اس سےکہا ابھی وہ تم سے راضی نہیں ہوئی ہے کیا تمھاری ہمشیرہ کے پاس اپنا مکان ہے ؟ جوان نے کہا کہ نہیں کرائے کا ہے۔ شیخ نے کہا کہ جاؤ جو گھر تم نے تعمیر کئے ہیں ان میں سے ایک بہترین مکان اپنی ہمشیرہ کے حوالے کردو۔" وہ جوان چلاگیا اور ایک بہترین مکان بہن کے نام کردیا اور اس کاسامان بھی کرائے کے گھر سے اس کے مکان میں منتقل کردیا اور پھر شیخ رجب علی کے پاس واپس آکر کہنے لگا جو آپ نے کہا تھا وہ میں نے انجام دے دیا ۔ شیخ نے کہا اب جاؤ سب ٹھیک ہو جائے گا " جوان گھر لوٹ آیا دوسرے ہی روز اس کی تعمیر کردہ عمارتیں اچھے داموں میں فروخت ہو گئیں اور اسے اقتصادی مشکلات سے نجات مل گئی ۔

خدا وند کریم سورۂ نساء کی36 ویں آیت میں فرماتاہے" اور خدا کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک قرارنہ دو،اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اورقرابت داروں ، یتیموں، مسکینوں، قریب کے ہمسایہ، پہلو نشین، مسافر غربت زدہ اور غلام وکنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا"

حضرت امام زین العابدین (ع) کی دعا و مناجات سے اقتباس پیش کررہے ہیں۔" پروردگارا تجھ سے میری یہ آرزو ہے کہ میرے دل کو اپنی محبت سے سرشار کردے اور اپنا خوف میرے دل میں ڈال دے اور اس بات کی توفیق عطا فرما کہ میں تیری تصدیق کروں اور تجھ پر ایمان و یقین رکھ سکوں۔ پروردگارا میں تجھ سے اس بات کاطالب ہوں کہ مجھے اپنی محبت اور جو تجھے دوست رکھتے ہیں ان کی الفت عطا فرما اور ایسا عمل انجام دینے کی توفیق عطاکر جو تیری الفت ومحبت کا باعث بن سکے اور میرے دل میں اپنا عشق اتنا بھردے کہ اپنی جان اور اپنے گھرانے کی جان کی تیرے عشق کے مقابلے میں کوئی حیثت نظر نہ آئے"

جس نے حق کی قربت اور اس کی الفت کی لذت کو درک اورمحسوس کرلیا ہے اس کے لئے خداوندمتعال سے دوری بلائے عظیم اور ناقابل برداشت ہے۔ اسی لئے حضرت امام سجاد (ع) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں؛

"پروردگارا جو تجھ سے محبت رکھتاہے اسے کیسے تو اپنے سے دور کرے گا؟ خدایا میں کہ تجھ سے امید باندھے ہوئے ہوں کس طرح مجھے اپنے لطف وکرم سے محروم کردے گا؟

دل سے نکلے ہوئے یہ فقرے لطف وکرم و رحمت الہی سے امیدواری کے غماز ہیں اور یہ شمع امید وہ ہے جو ہمیشہ دل مومن میں روشن ہے۔ حضرت علی (ع) مناجات شعبانیہ میں فرماتے ہیں" پروردگارا اگرچہ تیری اطاعت و فرماں برداری کے قد سے میرے عمل وکردار کا قد بہت ہی چھوٹا ہے لیکن تیری عطا و بخشش کے لئے میری آرزو بہت زیادہ ہے" 

اسی طرح حضرت امام سجاد (ع) خدا کی مہر و محبت اور لطف ورحمت الہی سے بہرہ مند ہونے اور خداسے مناجات کو خوف الہی سے دل کی تسکین کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ آپ خدا سے راز ونیاز کرتےہوئے فرماتے ہیں " میرے مالک تیری یاد وذکر سے میرے دل کو شادابی مل گئی اور تجھ سے مناجات کرکے میرا درد دل کم ہوگیا اور تسکین حاصل ہوگئی"

آئیے ماہ رمضان کے اس بابرکت ایام میں خداوند کریم کی بارگاہ میں دعاکریں " پروردگارا اپنے اس مبارک مہینے میں دوزخ کی آگ سے نجات عطافرما، اور اپنی بے انتہا رحمت وبرکت شامل حال فرما۔ خدایا اس عظیم مہینے میں اپنے خاص بندوں کی دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی قرار دے، اور جیسا کہ تیری کرامت وکرم کا تقاضا ہے ویسی اپنی بخشش ومغفرت مجھے نواز دے"۔

منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں