سوال: کیا مسواک کی ڈنڈی سے دانت صاف کرنا سنّت ہے؟ ان احادیث کے بارے میں کیا رائے ہے جن میں ڈنڈی کی فضیلت بیان ہوئی ہے؟
جواب: مسواک سنّت نہیں بلکہ دانت صاف کرنا سنّت ہے۔۔۔ رسول اللہ(ص) کے دور میں اس ڈنڈی سے دانت صاف کیا جاتا تھا تو حضور(ص) نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ ہم اصل سنّت کو درک نہیں کر پائے تو سنّت کو اس ڈنڈی میں قید کر دیا ہے، دانت صاف کرنے کے اس سے بھی بہترین طریقے موجود ہوں تو ضرور استعمال کرنا چاھئے۔ چنانچہ موجودہ ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت صاف کرنا بھی سنّت میں شامل ہے۔
فارسی میں ٹوتھ برش کو مسواک ہی کہتے ہیں، اور دانت برش کرنے کو مسواک کرنا ہی کہا جاتا ہے۔ یعنی مسواک ہر دانت صاف کرنے والی چیز کو کہا جاتا ہے۔ یہ تو یہاں برّصغیر میں ہم نے پیلو کی ڈنڈیوں کو مسواک نام دیا ہے۔۔۔ لہذا دانت صاف کرنا سنّت ہے چاہے وہ آپ کسی بھی طرح سے کریں۔ آپ قرون اولی میں ہوتے تو ڈنڈیاں چبا کر دانتوں میں پھیرتے اور آجکل کے دور میں اگر قرون اولی کے لوگ آ جائیں تو یقینا آجکل موجود اس سے بہترین طریقوں پر جائیں گے۔۔۔ ہمیں قنوطیت کے بجائے اصل احکام کو سمجھنا چاھئے۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ جماعت کے لئے اٹھنے والے ہر قدم پر ثواب ہے، لیکن اگر میں آجکل کے حساب سے موٹر سائیکل یا گاڑی پر جاؤں تو کیا میرے لئے ثواب نہ ہوگا؟ یہ روایتیں لوگوں کو تشویق دینے کے لئے کہی جاتی ہیں۔۔۔ احکام دین کو سمجھنے کے لئے زمان و مکان کو بھی درک کرنا لازمی ہے
ایک اور مثال دیتا ہوں کہ احادیث میں غسل جمعہ کی فضیلت وجوب کی حد تک بیان ہوئی ہیں، ہمارے قدماء کی ایک جماعت وجوب کی ہی قائل تھی۔ لیکن اس حد تک تاکید کی وجہ یہی تھی کہ اس زمانے میں لوگ بہت کم نہاتے تھے اور ان کے جسم سے سخت بدبو آتی تھی، تو کم سے کم ہفتے میں ایک دفعہ نہلانے کے لئے اس قدر تاکید کی گئی۔ اب چونکہ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے دن ہر کوئی نہاتا ہے تو آجکل کے فقہاء میں سے کوئی اس کے وجوب کا قائل نہیں ہے۔ لہذا فتاوی میں زمان و مکان کو صحیح انداز میں درک کرنا ضروری ہے۔
ہمارے نزدیک دانت صاف کرنا مستحب ہے، چاہے وہ ڈنڈی سے ہو یا منجن سے ہو یا نمک سے ہو یا اخروٹ کے درخت کے چھلکے سے ہو یا ڈنٹونک سے ہو یا ٹوتھ پیسٹ سے ہو۔۔۔ ہر صورت میں ہمارے نزدیک استحباب ہو جاتا ہے۔۔۔ جیسے غسل جمعہ مستحب ہے، چاہے آپ شاور میں کریں یا تالاب اور دریا میں ڈبکی لگائیں یا باتھ ٹب میں نہائیں۔۔ ہر صورت میں جمعے کے دن کا غسل مستحب ہے۔۔۔
احادیث میں درج ہے کہ کمترین مسواک یہ ہے کہ انسان اپنی انگلی دانتوں میں پھیرے تاکہ میل کچیل دور ہو، اس سے ہمارے خیال کو تقویت ہوتی ہے کہ اصل سنّت اور استحباب ڈنڈی میں نہیں ہے بلکہ دانت صاف کرنے میں ہے۔
دوسری چیز یہ کہ مسواک کرنے کی جو فضیلت ہے وہ یہی ہے کہ یہ دانتوں کو صاف کرتی ہے اور بدبو کو دور کرتی ہے، یہ حکمت متعدد روایتوں میں بیان ہوئی ہے۔ جیسا کہ حضور(ص) نے مولا علی(ع) سے فرمایا کہ "اے علی! مسواک ضرور کیا کرو کیونکہ یہ منہ کو صاف کرتا ہے اور اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے"۔ (تحف العقول)
اور ایک شخص سے رسول(ص) نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تمہارے دانت زرد ہیں (ان پر میل کچیل ہیں)، تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ مسواک نہیں کرتے؟ (المحاسن، فروع کافی)
اور یہ بھی کہ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ تم پر مسواک لازم ہے کیونکہ یہ منہ کو پاک و صاف کرتا ہے اور یہ اچھی سنّت ہے (امالی شیخ صدوق)
یعنی مسواک کا تعلّق دانت صاف کرنے سے ہے، اور جس چیز سے بھی یہ چیز صدق ہو جائے اس کا استحباب ثابت ہے۔ مسواک کی حکمت دانت صاف کرنا اور بدبو دور کرنا ہے، جب حکمت ثابت ہو گئی تو اصل استحباب اس حکمت کا ہے۔ باقی ڈنڈی ہو یا منجن، نمک ہو یا ٹوتھ پیسٹ۔۔۔ کسی سے بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یعنی مسواک کا تعلّق دانت صاف کرنے سے ہے، اور جس چیز سے بھی یہ چیز صدق ہو جائے اس کا استحباب ثابت ہے۔ مسواک کی حکمت دانت صاف کرنا اور بدبو دور کرنا ہے، جب حکمت ثابت ہو گئی تو اصل استحباب اس حکمت کا ہے۔ باقی ڈنڈی ہو یا منجن، نمک ہو یا ٹوتھ پیسٹ۔۔۔ کسی سے بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہاں "قیاس منصوص العلّہ" کا اصول لاگو ہوتا ہے کیونکہ مسواک کرنے کی علّت احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ قیاس منصوص العلّہ" کا مطلب ہوتا ہے کہ جب کسی حکم کی علّت نص میں بیان ہوتی ہے تو اس علّت کو ہم دیگر چیزوں پر بھی منطبق کر سکتے ہیں۔ جیسے اگر ہمیں نص ملتی ہے "لا تشرب الخمر لانّه مسكرٌ" یعنی شراب مت پیو کیونکہ وہ مست کرتی ہے۔۔۔۔ تو یہاں شراب کی علّت مست کنندہ بیان ہوئی ہے، لہذا ہر وہ چیز جو مست کر دے حرام ہے۔
فقہاء نے اس اصول کے تحت بھنگ، چرس، افیون اور ہیروئن بلکہ ہر مست کرنے والی چیز یا نشہ کے حرام ہونے کا فتوی دیا ہے جبکہ اصل حدیث میں صرف شراب کی ممانعت ہے۔
اسی طرح ہمیں مسواک کی علّت احادیث میں ملتی ہے کہ یہ دانت صاف کرتی ہے، اور منہ کو خوشبودار بناتی ہے۔۔۔ تو یہ چیز اگر دانت صاف کرنے کے دیگر طریقوں میں پائی جائے تو وہ بھی مستحب قرار پاتی ہیں۔
ملتمس دعا: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاصل میں واضح احادیث ہیں جن کو انگلی سے دانت صاف کرنے کو بھی مسواک کیلئے کافی کہا گیا ہے۔ اسی سے تو ہم نے استنباط کیا کہ دانت صاف کرنے کا کوئی بھی طریقہ رائج ہو باعث ثواب ہے
حذف کریںاور پھر شارع مقدس کے اصل مقصد کو ہمیں سمجھنا ہوگا، عقل کا استعمال شرع میں بہت ضروری ہے کیونکہ یہ اصول فقہ کا باب ہے کہ جس چیز کا عقل حکم کرے شرع کا بھی وہی حکم ہوگا، یا شرع جو بھی حکم دے اس کی عقل بھی حکم دے گی
حذف کریں