٭کیا تمام سمندری جانور حلال ہیں؟٭
سوال: میرے ایک دوست کا دعوی ہے کہ قرآن میں تمام سمندری جانوروں کو حلال کہا گیا ہے جبکہ اہل تشیّع فقط چھلکے والی مچھلیوں اور جھینگوں کو حلال کہتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: آپ کے دوست کا قرآن کی جس آیت کی طرف اشارہ ہے وہ یوں ہے؛
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لیے سمندری شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے، یہ تمہارے اور مسافروں کے فائدے میں ہے اور جب تک تم احرام میں ہو خشکی کا شکار تم پر حرام کر دیا گیا ہے اور جس اللہ کے سامنے جمع کیے جاؤ گے اس سے ڈرتے رہو (سورہ مائدہ: آیت 96)
اس آیت سے پہلے والی آیت یوں ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاء مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَو عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللّهُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللّهُ مِنْهُ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ
اے ایمان والو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر (کوئی جانور) مار دے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس کے برابر ایک جانور مویشیوں میں سے قربان کرے جس کا فیصلہ تم میںسے دو عادل افراد کریں، یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے یا مسکینوںکو کھانا کھلانے کا کفارہ دے یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کا ذائقہ چکھے، جو ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور اگر کسی نے اس غلطی کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا ہے (سورہ مائدہ: آیت 95)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت فقط حج کے دوران احرام سے متعلق ہے، یعنی اگر حاجی نے حج کیلئے احرام باندھا ہو تو اس کیلئے چوپایوں اور پرندوں کا شکار حرام ہے لیکن سمندر کا شکار حلال ہے۔ اس سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو کچھ سمندر کے اندر ہے وہ حلال ہے۔
اگر ہم اسی طرز استدلال کو لے لیں اور حکم کو مطلق احرام کے علاوہ لے آئیں تو پھر تمام زمینی جانوروں کا شکار اور ان کا کھانا ہمیشہ حرام ٹھہرتا۔ پس یہ آیتیں فقط حاجیوں کے لئے ہیں کہ ان کیلئے زمینی جانوروں کا شکار حرام ہے اور سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے۔ اب زمینی و بحری جانوروں میں سے کونسے حلال ہیں اور کون سے حرام ہیں، اس کی تصریح اور تفصیل قرآن میں نہیں ہے بلکہ خاتم المرسلین(ع) اور ان کے برحق اوصیاء نے بیان فرمایا ہے۔
ہم تک جو احادیث پہنچی ہیں ان کی رو سے مچھلیوں میں صرف وہی جائز ہیں جن کے جسم پر چھلکے ہوں، اور وہ مچھلیاں جائز نہیں جن کے جسم پر چھلکے نہ ہوں۔ نیز جھینگے وغیرہ بھی حلال ہیں جن کو انگریزی میں پراؤن کہتے ہیں، بڑے جھینگے جن کو لوبسٹر کہتے ہیں جائز نہیں۔
غرض آپ کے دوست کا یہ کہنا درست نہیں کہ قرآن کے مطابق تمام بحری جانور حلال ہیں۔ اور ان لوگوں کا فتوی بھی خطا پر مبنی ہے جنہوں نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے تمام بحری جانوروں کو حلال کہا۔ یہ بات عقل سے بھی متصادم ہے کیونکہ کئی بحری جانور ایسے ہیں جن کو دیکھ کر انسانی طبیعت متنفّر ہو جاتی ہے۔
سوال نمبر 2) بغیر چھلکے والی مچھلیوں کے حرام ہونے کی علّت کیا ہے؟
جواب) شرع میں وہ جانور ممنوع ہیں جو مسخ شدہ ہیں، یعنی پچھلی قوموں میں سے بعض کو اللہ تعالی نے مسخ کر دیا تھا، جن جانوروں کی صورتوں میں یہ مسخ ہوئے ان کو کھانا حرام ہے۔ جیسے ہاتھی اور گینڈا، جن میں شاید حرام ہونے کی کوئی اور وجہ بھی نہیں بلکہ ان میں حلال گوشت ہونے کی نشانیاں بھی ہوں لیکن چونکہ مسخ شدہ ہیں اس لئے حرام ہیں۔
امام علی(ع) کی ایک حدیث کی رو سے جس طرح زمین پر مسخ شدہ جانور ہیں، اسی طرح سمندر میں بھی ہیں۔ تبھی ان کی نشانی یہ بتائی گئی کہ ان کے جسم پر چھلکے ہوں تو وہ حلال ہوں گی اور اگر چھلکے نہیں تو حرام ہوں گی۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں