پیر، 27 اپریل، 2015

کیا تمام سمندری جاندار حلال ہیں: حصّہ دوئم

٭کیا تمام سمندری جاندار حلال ہیں: حصّہ دوئم٭
سوال) آپ نے کل سمندری جانداروں کے بارے میں تحریر لکھی تھی جس میں اس استدلال کا رد کیا تھا کہ قرآن کے مطابق تمام بحری جاندار حلال ہیں۔ ایک اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ اہل تشیّع کے ہاں بغیر چھلکے والی مچھلیوں کے حرام ہونے پر کوئی صحیح روایت نہیں ہے۔ وضاحت فرمائیے!
جواب) یہ اعتراض درست نہیں ہے اور اس سلسلے میں صحیح السند روایات موجود ہیں، ویسے تو میری تحریر کا مقصد فقط اس آیت سے غلط استدلال کا بطلان تھا، لیکن آپ کی خواہش پر میں صحیح السند روایت پیش کر دیتا ہوں؛
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ وَ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ جَمِيعاً عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: أَقْرَأَنِي أَبُو جَعْفَرٍ ع شَيْئاً مِنْ كِتَابِ عَلِيٍّ ع فَإِذَا فِيهِ أَنْهَاكُمْ عَنِ الْجِرِّيِّ وَ الزِّمِّيرِ وَ الْمَارْمَاهِي وَ الطَّافِي وَ الطِّحَالِ قَالَ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ إِنَّا نُؤْتَى بِالسَّمَكِ لَيْسَ لَهُ قِشْرٌ فَقَالَ كُلْ مَا لَهُ قِشْرٌ مِنَ السَّمَكِ وَ مَا لَيْسَ لَهُ قِشْرٌ فَلَا تَأْكُلْه
(کافی: ج6 ص219)
اس حدیث میں واضح طور پر امام باقر(ع) امام علی(ع) کی کتاب سے کچھ بحری جانداروں کے حرام ہونے کے بارے میں قرات کرتے ہیں بشمول بام مچھلی (مار ماھی) اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ہر وہ مچھلی جس کے جسم پر چھلکے ہوں وہی حلال ہیں اور جس کے چھلکے نہ ہوں ان کو کھانے کی ممانعت ہے۔
اس حدیث کو شیخ کلینی نے کافی میں دو اسناد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ایک میں سہل بن زیاد ہے جن کی تضعیف بعض علمائے رجال نے کی ہے، جبکہ دوسری سند میں تمام ثقات ہیں۔ پس یہ روایت صحیح ہے۔
جبکہ شیخ طوسی نے اسی روایت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا؛
رَوَى الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِم (تہذیب الاحکام: ج9 ص2)
اس سند میں بھی سب ثقات ہیں، پس یہ سند بھی صحیح ہے۔ چنانچہ بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ ہم تک یہ روایت تین اسناد سے پہنچی ہے، جن میں سے دو صحیح ہیں۔
نیز شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کیا؛
وَ قَالَ الصَّادِقُ ع كُلْ مِنَ السَّمَكِ مَا كَانَ لَهُ فُلُوسٌ وَ لَا تَأْكُلْ مِنْهُ مَا لَيْسَ لَهُ فَلْس (من لا یحضرہ الفقیہ: ج33 ص323)
یہاں شیخ صدوق نے بالجزم امام صادق(ع) سے یہ حدیث نقل کی کہ جس مچھلی کے جسم پر چھلکے نہ ہوں ان کا کھانا حرام ہے۔ امام خمینی سمیت اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک من لا یحضرہ الفقیہ کی وہ روایات معتبر ہیں جن میں بالجزم معصوم سے حدیث نقل کی جائے۔
اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث ہیں لیکن ہم نے چند معتبر روایات کو چنا ہے۔ ہمارے علماء میں یہ احادیث اتنی مشہور تھیں کہ علماء نے اس پر فتوے بھی دیئے، شیخ مفید اپنی مشہور کتاب المقنعہ میں فرماتے ہیں؛
و يؤكل من صيد البحر كل ما كان له فلوس من السموك و لا يؤكل منه ما لا فلس له و يجتنب الجري و الزمار و المارماهي من جملة السموك و لا يؤكل الطافي منه و هو الذي يموت في الماء فيطفوا عليه
بحری شکار میں ہر وہ مچھلی جائز ہے جس پر چھلکے ہوں۔ اور وہ مچھلیاں جائز نہیں جن پر چھلکے نہ ہوں۔ (المقنعہ: ص576)
مشہور فقیہ ابن ادریس حلّی فرماتے ہیں؛
و اما حيوان البحر، فلا يستباح أكل شيء منه الّا السّمك خاصة، و السمك يؤكل منه ما كان له فلس، و هو القشر، فاما ما لم يكن له قشر، و ان انطلق عليه اسم المسك فلا يحل اكله
سمندری جانداروں میں کچھ بھی کھانا جائز نہیں ہے سوائے خاص مچھلیوں کے، اور جو مچھلیاں کھائی جا سکتی ہیں ان کے جسم پر چھلکے ہوں، اور جس کے چھلکے نہ ہوں تو چاہے ان پر مچھلی نام کا اطلاق ہی کیوں نہ ہو، ان کا کھانا حلال نہیں۔ (السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی: ج3 ص98)
پس قرآن و سنّت و علمائے اعلام کے مشہور فتاوی کی روشنی میں وہی مچھلیاں حلال ہیں جن کے جلد پر چھلکے ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ان کے جسم سے چھلکے اتر گئے ہوں یا چھلکے اتنے چھوٹے ہوں کہ معلوم نہ ہو سکیں تو کوئی حرج نہیں، چھلکے دار ہونے کا عنوان ہی کافی ہے۔
والسّلام علیکم من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں