اتوار، 5 اپریل، 2015

عقل اور معرفت خداوندی

٭عقل اور معرفت خداوندی٭
امام محمد باقر(ع): كلما ميزتموه بأوهامكم في أدق معانيه مخلوق مصنوع مثلكم مردود إليكم و لعل النمل الصغار تتوهم أن لله تعالى زبانيتين فإن ذلك كمالها و يتوهم أن عدمها نقصان لمن لا يتصف بهما و هذا حال العقلاء فيما يصفون الله تعالى به
امام محمد باقر(ع): ہر وہ چیز جو اپنے گمان اور ادراک کے مطابق اور دقیق ترین معانی کے مطابق (اللہ کی ذات کی توصیف) کرتے ہو وہ تمہارے (ذہن کی) پیداوار ہے اور تمہاری طرف اس کی بازگشت ہے۔ کیونکہ بہت دفعہ کوئی چیونٹی یہ گمان کرتی ہے کہ اللہ تعالی کے بھی دو سینگ ہوں گے اور وہ چیونٹی اس کو کمال سمجھتی ہے اور سوچتی ہے کہ جس کے باس یہ دونوں نہ ہوں اس کے لئے یہ نقص ہوگا۔ اسی طرح عقلاء اللہ تعالی کی صفات (اس چیونٹی کی طرح) بیان کرتے ہیں۔
(الوافی ج1 ص408، بحارالانوار: ج66 ص293)
درایۃ الحدیث:
مذکورہ روایت علامہ مجلسی نے بغیر کسی سند کے بحارالانوار اور مرآت العقول کی جلد9 ص456 پر نقل کی ہے۔ آپ کے شاگرد رشید ملاّ صالح مازندرانی اور ملاّ صدرا نے اصول کافی کی شروحات میں اس روایت کو نقل کیا۔ ان سے قبل ملا محسن فیض کاشانی نے وافی میں اس کو نقل کیا۔ اور ان سے بھی قبل میر داماد نے "روشح السماویہ فی شرح الاحادیث الامامیہ" اور شیخ بہائی نے اربعین میں نقل کیا۔
روایت مرسل ہے لیکن اس کا متن عظیم ہے اور بہترین انداز میں معرفت خداوندی کے بارے میں انسانی تاثرات کو سمجھایا گیا ہے۔
فوائد الحدیث:
یہ روایت بہترین نکات پر مشتمل ہے۔ شیخ بہائی اس کی شرح میں مولانا جلال الدین محمد دوانی کے الفاظ نقل کرتے ہیں: چونکہ بشر کی ذمہ داری اس کی توانائی کے مطابق ہوتی ہے، لہذا انسان اس سے زیادہ مکلّف نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کو جو تمام کامل و اکمل صفات کا حامل ہے، ان صفات سے متّصف کرے اور جو صفات نقص کا باعث ہیں ان سے اللہ کی ذات کو مبرّا سمجھے۔ اور جن چیزوں کو اس کا ذہن درک نہیں کر سکتا وہ ان کیلئے مکلّف نہیں ہے۔
مثلا انسان اپنے کمال کو قادر ہونے مختار ہونے، ہمیشہ حیّ (زندہ) ہونے، مرید و مدرک و صادق و بصیر و سمیع ہونے میں سمجھتا ہے، چنانچہ وہ ان صفات کے اثبات کیلئے مکلّف ہے اور اپنے نقص کو محتاج ہونے، جسم رکھنے، عرض و حادث ہونے میں دیکھتا ہے۔ پس وہ مکلّف ہے کہ ان صفات کو اللہ سے سلب کرے۔ اس سے زیادہ تکلیف مالا یطاق ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں