بدھ، 5 اپریل، 2017

یسوع مسیح کی معجزاتی تصویر

٭یسوع مسیح کی معجزاتی تصویر٭
عرصۂ دراز سے مسیحی برادران حضرت عیسی مسیح(ع) کے بارے میں مشتاق رہے ہیں کہ بشری لباس میں آنجناب کیسے دکھتے تھے۔ بدقسمتی سے بائبل میں کہیں پر بھی ان کے حلیے کا دقیق تذکرہ نہیں ملتا۔ اس اشتیاق کی جڑیں قدیم ایام سے جا ملتی ہے۔ مسیحیت کی پیدائش مشرق وسطی میں ہوئی، اور وہیں سے ارتقائی منازل طے کر کے دنیا کے مختلف خطوں بالخصوص یورپ میں پہنچی۔ ابتدائی عیسائیوں کا تعلق موجودہ زمانے کے شام و عراق و فلسطین وغیرہ سے تھا۔
اسی سرزمین سے حضرت عیسی(ع) کی ایک دلچسپ معجزاتی تصویر کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ شام میں ایک سلطنت ادیسہ کے نام سے تھی جس کا دارالحکومت ادیسہ کے ہی نام سے موجودہ شام کے بارڈر کے قریب ترکی میں ہے۔ آجکل اس شہر کا نام "ارفا" ہے۔ یہاں کے باسیوں کی زبان آرامی تھی، جو اس زمانے میں مشرق وسطی میں رائج زبان تھی۔ ان کے لہجے کو سیریائی کہا جاتا ہے۔ غالبا انہی کی وجہ سے آج ملک شام کا نام سوریا بھی ہے۔
یسوع مسیج کی معجزاتی تصویر کی کہانی اسی شہر سے شروع ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس ملک پر حضرت عیسی (ع) کے زمانے میں ابگار *Abgar* نامی بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ شدید بیمار ہوا، ابگار کو اطلاع ملی کہ یسوع مسیح لوگوں کو شفایاب کر دیتا ہے۔ اس نے اپنے کچھ خاص مصاحبوں کو یروشلم بھیجا تاکہ حضرت عیسی سے ادیسہ آنے کی درخواست کریں، بادشاہ کو شفایاب کریں اور لوگوں کو مسیحیت کی تبلیغ کریں۔ جب یہ وفد حضرت عیسی ع کے پاس پہنچا اور ان تک درخواست پہنچائی تو آپ نے ادیسہ جانے سے انکار کیا اور کہا کہ ان کیلئے بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی ذمہ داری ہے، لیکن وعدہ کیا کہ جلد وہ خود یا ان کے حواریوں میں سے کسی کو ادیسہ بھیجیں گے۔
تاریخ میں یہ واقعہ سب سے پہلے چوتھی صدی عیسوی میں ریکارڈ ہوا۔ قیصیریہ کے بشپ یوسبیس *Eusebius* نے چرچ کی تاریخ مرتب کی جس میں پہلی صدی سے لے کر چوتھی صدی تک مسیحیت کی تاریخ تھی۔ یہ تاریخی کتاب اب بھی مخطوطات کی شکل میں موجود ہے۔ اس کتاب میں مؤلف نے ادیسہ کے بادشاہ ابگار کے خط کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس میں کسی بھی تصویر کا ذکر نہیں ہے۔
اس کے بعد پانچویں صدی عیسوی کے بالکل ابتدا میں ہمیں ایک اور شامی عیسائی تحریر میں ابگار کی کہانی تفصیل سے ملتی ہے۔ لیکن اس دفعہ کہانی میں یہ اضافہ ہوتا ہے کہ بادشاہ ابگار نے اپنے شاہی پینٹر کو وفد کے ساتھ بھیجا جس نے یروشلم میں حضرت عیسی کی تصویر بنائی اور یہ تصویر اپنے ساتھ واپس ادیسہ لے آیا۔ ہانچویں صدی عیسوی کی اس تحریر میں ایک ایسی تصویر کا ذکر ہے جس کو دیکھ کر لوگوں کو دلی سکون ہوتا ہے۔ یہ تصویر اتنی کرامتی تصور کی گئی کہ اس نے کئی دفعہ ادیسہ شہر کو ایرانیوں کے حملوں سے بچایا جو اس وقت آتش پرست یعنی زرتشتی تھے۔
اس تصویر کی کہانی میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا جب کچھ عرصے بعد یہ باور کیا جانے لگا کہ حضرت یسوع مسیح چونکہ خدا کے بیٹے ہیں (مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق)، لہذا ان کے چہرے کو کوئی عام انسان نہیں بنا سکتا۔ اس کہانی میں اضافہ یہ ہوا کہ جب شاہی پینٹر نے حضرت عیسی کی تصویر بنانی چاھی تو حضرت عیسی ع کا عجیب نور مانع ہوا اور وہ کوشش کے باوجود تصویر بنانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جب حضرت عیسی نے یہ صورتحال دیکھی تو اس سے کپڑا لے لیا اور اپنے چہرے پر مل لیا، جس سے ان کے چہرہ اقدس کی چھاپ کپڑے پر آگئی۔ وفد یہ تصویر لے کر بادشاہ کے پاس واپس آیا جس نے بہت عزت و احترام کے ساتھ اس تصویر کا استقبال کیا اور بہت ہی عالیشان جگہ پر رکھا۔ یہ کرامتی تصویر اتنی مشہور تھی کہ لوگ یسوع مسیح کی تصویر دیکھ کر ہی شفایاب ہو جاتے تھے۔ یسوع مسیح کا نور ان کی تصویر میں عیاں تھا۔
ادیسہ کی تصویر کا یہ واقعہ مسیحی دنیا میں بہت مقبول ہوا، دنیا کے مختلف چرچوں میں اس واقعے کی تصویر کشی کی گئی۔ مصر اس وقت تک مکمّل مسیحی تھا، وہاں کلیساؤں کے باقیات میں منظر کشی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ صحرائے سینا کے چرچ میں ایک تصویر دیوار پر اب بھی موجود ہے جس میں بادشاہ ابگار کو دکھایا گیا ہے جب اس کے سامنے یسوع مسیح کی تصویر پیش کی گئی اور وہ بہت احترام سے تصویر کو چوم رہا ہے جو ایک کپڑے کے ٹکڑے پر منعکس ہے۔
اس کہانی میں ایک ٹوسٹ مزید آیا جب آگے چل کر اس میں یہ اضافہ ہوا کہ وفد جب یروشلم سے واپس آ رہا تھا تو راستے میں کسی جگہ اس وفد کو رکنا پڑا۔ چور اچکوں کے ڈر سے وفد کے افراد نے تصویر کو دیوار کے بیچ میں چھپا دیا۔ اگلے دن وہ روانہ ہو گئے لیکن اس علاقے کے باسیوں نے دیکھا کہ اس تصویر کی کاپی دیوار کی اینٹ پر منقوش ہو گئی ہے۔ اس کو حضرت یسوع مسیح کا ایک معجزہ سمجھا گیا۔
کہتے ہیں کہ ادیسہ پر جب ایرانی ساسانیوں کا قبضہ ہوا تو یہ تصویر قسطنطنیہ پہنچی جو اس وقت رومی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ شہنشاہ نے احترام کے ساتھ اس تصویر کا استقبال کیا۔ 1204 عیسوی میں جب صلیبی جنگیں شروع ہوئیں اور یورپیوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تو یہ تصویر ناپید ہو گئی۔ اس کے بعد اس تصویر کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں ہے۔
ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ تصویر کی کہانی پانچویں صدی عیسوی میں گھڑی گئی۔ ایک عام خط سے الوہی تصویر تک کا سفر طے ہوا۔ یہ تصور کیا گیا کہ یسوع مسیح کی تصویر عام شخص بنا ہی نہیں سکتا۔ اس کہانی کے اختراع کی وجہ یہی بنی کہ ادیسہ میں مسیحی اقلیت میں تھے، ان کو اپنے مذہب کو سربلند رکھنے کیلئے اس کہانی کی ضرورت پیش آئی اور اس تصویر کے ذریعے انہوں نے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نویں صدی عیسوی کے مصری عیسائی عالم ابو قرّہ نے عربی تصانیف میں اس تصویر کو مسیحیت کے حقانیت کے طور پر پیش کیا۔ تیرھویں صدی عیسوی کے عرب عیسائی عالم ابوالمکارم نے بھی اس تصویر کے معجزاتی اثرات کا ذکر کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کہانی جب آرمینیا اور جارجیا پہنچی تو اس میں مزید تبدیلیاں ہوئیں۔ آرمینیائی روایات کے مطابق یہ ادیسہ کا بادشاہ نہیں تھا بلکہ آرمینیا کا بادشاہ تھا جس نے یروشلم میں یسوع مسیح کو خط لکھا تھا۔ جارجیا والوں نے دعوی کیا کہ یہ تصویر ان کے ملک میں رہی ہے۔ یہ دونوں قفقاز کی عیسائی ریاستیں ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ مشرق وسطی اور قفقاز کی عیسائیت یورپ کی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے بہت مختلف ہے۔ ان کو نسطوری یا مشرقی آرتھوڈوکس عیسائی کہا جاتا ہے۔
تحقیق و تحریر: سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں