بدھ، 5 اپریل، 2017

کیا شطرنج کھیلنا حرام ہے

٭کیا شطرنج کھیلنا حرام ہے٭
اسلام کے بعض احکام ثابت ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کی علّتیں ہیں اور یہ علّتیں زمان و مکان کے لحاظ سے عوض بھی ہوتی ہیں۔ جیسے نہج البلاغہ میں ہے کہ مولا علی علیہ السلام پر جب کسی نے اعتراض کیا کہ رسول ص نے تو داڑھی کو رنگنے کا حکم دیا تھا تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو لیکن آپ(ع) داڑھی نہیں رنگتے۔ تو اس پر مولا علی(ع) نے جواب دیا چونکہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی، اس لئے داڑھی کو رنگنے کا حکم ہوا (تاکہ لڑائی کے وقت دشمنوں پر ہیبت طاری ہو)۔ جبکہ اب مسلمان اکثریت میں ہیں لہذا اس کی ضرورت نہیں رہی۔ مولا علی ع داڑھی کو رنگتے نہیں تھے یعنی خضاب نہیں کرتے تھے۔
اس واقعے سے نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ جن احکامات کی علتیں بیان ہوئی ہیں وہ زمان و مکان کے تابع ہیں۔ اگر وہ علتیں موجود ہیں تو ان کا حکم ہوگا، اگر موجود نہیں تو اس کا حکم برعکس ہوگا۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں کہ آئمہ علیھم السلام نے سیاہ لباس کی سختی سے مذمت فرمائی بلکہ کئی جگہوں پر اس کو جہنمیوں کا لباس کہا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں عباسیوں نے سیاہ رنگ کو اپنا شعار بنایا تھا، لہذا اہل جور و ستم سے شباہت کو روکنے کیلئے سیاہ لباس سے منع کیا کيا۔ لیکن آج یہ موضوع نہیں ہے، سیاہ لباس ہرگز اہل جور و ظلم کی نشانی نہیں، پس آجکل سیاہ لباس حرام نہیں۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں کہ احادیث میں مسواک سے دانت صاف کرنے کا حکم آیا ہے، بعض قنوطیت پسند اس سنت کو ابھی بھی ڈنڈی میں مضمر سمجھتے ہیں، لیکن آج دانت صاف کرنے کے جدید طریقے رائج ہیں، پس جس طرح سے بھی دانت صاف کئے جائیں، سنت کے لئے کافی ہے۔ بالفاظ دیگر سنّت دانت صاف کرنا ہے، ڈنڈی استعمال کرنا نہیں ہے۔
اسی طرح اسلام کو کسی کھیل سے ذاتی طور پر دشمنی نہیں، جب تک اس کھیل میں کوئی خلاف شرع چیز نہ ہو۔۔۔ جیسے کہ وہ ریسلنگ جس میں عضو کے ٹوٹے جانے کا خطرہ ہو یا کسی اور کے اعضاء و جوارح کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو تو حرام ہے۔ اسی طرح شطرنج سے ممانعت کی علت اس کے آلت قمار میں سے ہونا تھا، جب موضوع نہیں رہے گا تو اس کی ممانعت بھی نہیں رہے گی۔
احادیث میں شطرنج کی مذمت ہے، لیکن اس کیلئے ہمیں اس زمانے میں شطرنج کے کھیل کو دیکھنا ہوگا۔ شطرنج کو معصومین علیھم السلام کے دور میں جوا کھیلنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ چونکہ جوا حرام ہے اور اس میں شامل ہر آلے سے کھیلنا حرام ہے چاہے شرط لگائی جائے یا نہ لگائی جائے۔ آلات قمار سے کھیلنے کی ممانعت کی علت یہ ہے کہ جوے جیسے گناہ کبیرہ کا راستہ روکا جا سکے، اس وجہ سے شطرنج کی بھی شدید ممانعت آئی ہے۔
آجکل کے زمانے میں یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ شطرنج کہیں پر بھی جوے کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ جب موضوع نہیں تو حکم بھی منتفی ہو جاتا ہے۔ جیسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں اس بات کو واضح کیا۔ بلکہ شطرنج کو دماعی گیم کے طور پر لیا جاتا ہے، عالمی سطح پر اس کے مقابلے ہوتے ہیں۔ نیز دماغ کی بند گرہوں کو کھولنے اور ذہانت کو بڑھانے کیلئے شطرنج کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ لہذا آجکل نہ صرف اس کی قباحت ختم ہو گئی بلکہ اس میں مفید عناصر بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
اس کے برعکس تاش کے پتوں سے اب جوا کھیلنا عام ہے لہذا اب تاش کے پتّے آلات قمار میں شمار ہو سکتے ہیں، حالانکہ معصومین ع کے ادوار میں تاش کے پتوں کا استعمال نہیں تھا، اس لئے ہمیں اس پر حدیث بھی نہیں ملتی، لیکن اصل علّت موجود ہے جس کو شارع نے ناپسند کیا ہے۔
اسی وجہ سے معاصر مراجع کی ایک تعداد شطرنج کو حرام نہیں سمجھتی، جیسے آیات عظام مکارم شیرازی و خامنہ ای و مرحوم لنکرانی۔ جبکہ آیت اللہ سیستانی اس کو روایات کی بنا پر حرام کہتے ہیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں