٭کیا امت محمدی ہو بہو سابقہ امتوں کی پیروی کرے گی٭
بعض احادیث میں ملتا ہے کہ امت محمدی اپنے افعال میں ہو بہو سابقہ امتوں کی پیروی کرے گی۔ اس کو ماننے کی صورت میں بہت سے اشکالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں سرفہرست مسئلہ تحریف قرآن ہے۔ جیسا کہ آج سب پر روشن ہیں کہ اہل کتاب کے ہاں جو کتب انبیاء سے منسوب رائج ہیں ان میں سے اکثر اوروں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جس پر انشاء اللہ کسی اور موقع پر تفصیل سے لکھیں گے۔ کم سے کم یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ یہ کتب تحریف شدہ ہیں۔ لہذا جیسے یہ امتیں اپنی کتابوں میں تحریف کی مرتکب ہوئیں ویسے ہی امت محمدی بھی قرآن میں تحریف کر چکی ہے۔
آئیے ان روایات کو ذرا دیکھتے ہیں، کیا یہ قابل اعتبار ہیں؟
اس مضمون کی روایات شیعہ سنی کتب میں موجود ہیں، شیعہ متون میں بھی ہے لیکن یہ اہلسنت منابع سے ہمارے ہاں آیا ہے۔ شیخ صدوق غیاث بن ابراهیم سے، وہ امام جعفر صادق سے اور وہ اپنے جدِامجد سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
ما کان فی الامم السالفه فانه یکون فی هذه الامّه مثله حذو النعل بالنعل والقذه بالقذه
یعنی جو کچھ گذشتہ امتوں کو درپیش آیا ہے،وہی کچھ اس امت کو بھی ہوبہو پیش آئے گا-
(کمال الدین و تمام النعمہ، ص576)
یہ روایات بعض اخباری جیسے صاحبِ فصل الخطاب میرزا حسین نوری طبرسی کےلئے موردِ توجہ بنا ہے، ان روایات سے استناد کا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ گذشتہ آسمانی کتب جیسے انجیل و تورات تحریف شدہ ہیں،پس قرآن بھی تحریف شدہ ہے۔
آیت الله العظمی ابوالقاسم خوئی قدس سرّه نے اپنی گرانقدر کتاب "البیان"میں اس روایت پر تنقید کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
"سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ روایات خبرِ واحد ہیں لہٰذا مفیدِ علم و یقین نہیں ہیں اور ان کے تواتر کا دعوی نیز عبث ہے۔ ان روایات کا حدیث کے مشہور منابع جیسے کتبِ اربعہ میں بھی ذکر نہیں ہوا ہے۔ ثانیاََ اگر یہ روایتیں درست بھی ہوں تو یہ قرآن میں کمی کے علاوہ اضافے کا بھی اثبات کررہی ہیں کیونکہ تورات و انجیل میں اضافہ بھی ہوا ہے؛ حالانکہ قرآن کی آیات میں اضافہ ہونا غلط ہے اور کوئی بھی ایسا عقیدہ نہیں رکھتا (کیونکہ جو افراد تحریف کے قائل ہیں وہ کمی کو مانتے ہیں اضافے کو نہیں، راقم)
ثالثاََ بہت سے ایسے واقعات بھی گذشتہ امتوں میں ہوئے ہیں جو کہ اس امت میں پیش نہیں آئے۔ مثلاََ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اور ان کا بیابان میں چالیس سال سرگرداں رہنا، فرعون اور اس کے لشکر کا غرق ہونا، سلیمان کی جن و انس پر سلطنت، حضرت عیسی کا آسمان پر جانا، حضرت ہارون وصیِ موسی کا موسی(ع) کی زندگی میں وفات پاجانا، حضرت موسی کا نو معجزات دکھانا، حضرت عیسی کا بغیر باپ کے پیدا ہونا، گذشتہ امتوں کو مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنانا۔"
علامہ سید مرتضی عسکری نے اپنی کتاب "خمسون مائة صحابی مختلق" میں ان روایات کو موضوع (مجعول) شمار کیا ہے۔ لہذا اس مضمون کی روایات درایت کے لحاظ سے درست نہیں ہیں اور ان کے موضوع (جعلی ہونے) کا احتمال قوی ہے، چنانچہ ان روایات کے ظاہر کو تسلیم نہیں کرنا چاھئے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
خاکسار: سید جواد حسین رضوی
نوٹ: یہ حصّہ موضوع (جعلی) احادیث پر مشتمل ہماری فارسی تحریر سے اقتباس ہے، اردو مترجم آقائے ناشناس کا بہت شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں