بدھ، 5 اپریل، 2017

شیطان کو مہلت

٭شیطان کو مہلت٭
سوال) اللہ تعالی نے شیطان کو کب تک مہلت دی ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ اللہ نے قیامت تک کیلئے مہلت نہیں دی؟
جواب) سورہ حجر کی آیات 33 الی 37 میں ارشاد ہوتا ہے؛
قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ
اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے
وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ
اور تجھ پر تاروز قیامت لعنت ہو گئی.
قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے
قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ
فرمایا: تومہلت ملنے والوں میں سے ہے
إِلَى يَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ
معین وقت کے دن تک
آیات کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اللہ تعالی سے قیامت کے دن تک مہلت مانگ رہا ہے، لیکن اللہ اس کو ایک معین وقت تک مہلت دے رہا ہے۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معین وقت سے مراد کیا ہے؟ کیا وہی قیامت کا دن مراد ہے یا پھر کوئی اور معین وقت ہے؟
علامہ طباطبائی اور آیت اللہ مکارم شیرازی دونوں فرماتے ہیں کہ آيت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کی بات اس حد تک قبول کی گئی کہ اس کو مہلت مل گئی، لیکن وقت کے معاملے میں اس کی اجابت نہیں کی گئی، یعنی قیامت تک کے لئے مہلت نہیں بلکہ اس سے قبل تک کے لئے۔ ان مفسرین کے حساب سے "یوم وقت معلوم" قیامت کے علاوہ کوئی وقت ہے جو غالبا قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوگا۔
اس سلسلے میں مفسرین نے تین احتمالات کا ذکر کیا ہے؛
1) شیطان نے یوم حشر تک کی مہلت مانگی یعنی جب لوگ محشور کئے جائیں گے۔ لیکن اللہ نے اتنی مہلت نہ دی، البتہ اس کو دنیا کے اختتام تک کی مہلت ہے۔ یعنی جب سورج چاند بجھ جائیں گے اور کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔ بظاہر یہ رائے کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔
2) بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ شیطان کو اسرافیل کے صور پھونکنے تک مہلت دی ہے۔ اسرافیل دو دفعہ صور پھونکے گا، پہلی دفعہ دنیا بھر کے تمام موجودات مر جائیں گے، اور دوسری دفعہ تمام موجودات پھر سے زندہ ہوں گے۔ بظاہر یہ رائے کسی حد تک پہلی رائے سے قریب ہے۔
3) بعض روایات میں ہے کہ امام زمانہ عج کے ظہور تک شیطان کو مہلت دی گئی ہے۔ بعض روایات کے مطابق اللہ تعالی ملک الموت کو حکم دے گا کہ شیطان کی روح قبض کرے۔ تفسیر برھان اور تفسیر نور الثقلین میں اس مضمون کی روایات ہیں۔ البتہ یہ روایات ضعیف ہیں۔
4) کچھ روایات کے مطابق ظہور کے بعد خود امام زمانہ (عج) شیطان ملعون کو قتل کریں گے۔ یہ روایات بھی ضعیف ہیں۔ کچھ کے مطابق ابلیس کو زمانۂ رجعت میں قتل کیا جائے گا، لیکن یہ روایات پہلے طبقے سے زیادہ ناقابل اعتبار ہیں، سند کا اشکال اپنی جگہ، نیز گناہ و جزا کا تصور تو ظہور کے بعد بھی تا روز قیامت رہے گا۔
ان تمام آراء کو پڑھنے کے بعد معلوم یہی ہوتا ہے کہ شیطان کو مہلت دنیا کے اختتام تک دی گئی ہے۔ جس وقت صور اسرافیل پھونکا جائے گا اور تمام موجودات مر جائیں گے، شیطان بھی نیست و نابود ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ شیطان بھی ایک جن ہے، اور اس کے اعوان و انصار اور ساتھیوں میں جنات ہی ہیں، اور یہ سب شیاطین ہیں۔ تمام جن و انس حضرت اسرافیل کے صور پھونکنے پر مر جائیں گے، لہذا فقط ایک شیطان کی ہم بات نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں شیاطین کی بات کرنی چاھئے جو سب کے سب جنات ہی ہیں۔
اور اگر ہم "یوم وقت معلوم" کو یوم حشر بھی مان لیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ سب ایک ساتھ ہی ہوگا۔ پہلے قیامت آئے گی اور اس کے بعد حشر کا میدان ہو گا۔ چونکہ یہ ہمزمان ہیں اس لئے دونوں کو ایک وقت تصور کیا جا سکتا ہے۔ اور جب ہم خود قرآن سے "وقت معلوم" جاننا چاہتے ہیں تو اس بات کا جواب ہمیں قرآن ہی دے رہا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے؛
قُلْ اِنَّ الاَوَّلینَ وَ الآخِرینَ لَمَجْمُوعُونَ اِلى میقاتِ یَوْم مَعْلُوم
کہدیجئے: اگلے اور پچھلے یقینا سب، ایک مقررہ دن مقررہ وقت پرجمع کیے جائیں گے (سورہ واقعہ: 49 و 50)
پس قرآن سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یوم معلوم سے مراد قیامت کا دن ہے۔ لہذا پہلی اور دوسری رائے درست ہے، جس طرح بھی اس کو مانیں مفہوم ادا ہو جائے گا۔ البتہ باقی آراء ضعیف اخبار احاد پر مشتمل ہیں جن پر واضح قرآنی آیت کے مقابلے میں اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں