٭ دو کتب کے بارے میں وضاحت ٭
سوال 1: کتاب سلیم بن قیس معتبر ہے یا نہیں؟
جواب: کتاب سلیم ابن قیس کا طریق معتبر نہیں ہے۔ اس کا طریق ضعیف تو ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اہل علم میں دو گروہ پائے جاتے ہیں، ایک گروہ نے یکسر اس کی افادیت سے انکار کیا۔ اور ایک گروہ نے اس کو قبول کیا ہے جیسے شیخ نعمانی و حرّ عاملی وغیرہ۔۔۔۔ ہم اس معاملے میں اعتدال پر رہتے ہوئے یہی کہیں گے کہ اس کا طریق معتبر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا حکم دیگر احادیث ضعیفہ کی طرح ہوگا۔ یعنی اگر یہ مسلّمات اسلام و شیعہ سے متصادم نہ ہوں یا ان کی تائید میں دیگر احادیث صحیحہ موجود ہوں تو قبول کریں گے ورنہ بصورت دیگر ہم قبول نہیں کریں گے۔ اور یہ اصول تمام اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
سوال2: نہج الاسرار کے بارے میں کیا موقف ہے؟ آج کل اس سے بڑے پیمانے پر غیر معتبر اور خلاف مسلّمات تشیع چیزوں کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔
جواب: نہج الاسرار باقاعدہ کوئی مستند تحریر نہیں ہے، اس کے مؤلف نے صحیح/غلط کی تمیز کے بغیر ہر بات جو مولا علی(ع) کا کلام کہی جاتی تھی اس میں نقل کر دی۔ مؤلف کے اس عظیم تسامح کی وجہ سے نہج الاسرار ایک بمب کی شکل اختیار کر گئی۔ اگر وہ سیّد رضی کی طرح تدبر سے کام لیتے ہوئے یہ کام کرتا تو شاید ایک اچھی کاوش ہو سکتی تھی۔ اردو زبان میں جب کتب اربعہ کے ترجمے موجود نہیں تھے اور عقائد پر کوئی مستند کتاب نہیں تھی، تب نہج الاسرار کی تالیف نے شیعہ معاشرے پر بہت برے اثرات مرتّب کئے۔ ان پڑھ ذاکر جن کو فارسی اور عربی نہیں آتی تھی انہوں نے نہج الاسرار اور کوکب درّی کو ہاتھوں ہاتھوں لیا اور منبروں سے ان تحریروں کو نمک مرچ لگا کر پڑھنا شروع کیا تو آج قوم کی یہ حالت ہو گئی۔
نہج الاسرار نے جس طرح سے برّصغیر کے شیعہ معاشرے کو تباہ کیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ خطبۃ البیان کی کسی عارف نے شرح کی بھی تو یہ صرف عرفاء تک ہی محدود تھا، لیکن نہج الاسرار نے یہ خطرناک بمب عوام کے ہاتھوں میں دے دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پڑھ ذاکروں نے اس کو استعمال کیا۔ عوامی قصّہ کہانیوں کو فروغ دینے میں کوکب درّی کے اردو ترجمے اور نہج الاسرار نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج ہم اس کے نقصانات دیکھیں تو ہمیں اس کے مؤلف کا حد درجہ تسامح نظر آتا ہے اور کلّی طور پر تو کوئی بھی تصنیف سو فیصد غلط نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو ہم کوکب درّی کو بھی کلّی طور پر غلط نہیں کہہ سکتے، نہ ہی دارالمنتظم کو کہہ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ضمیر اختر اور تونسوی کی کتب میں بھی سب کچھ غلط نہیں ہیں۔ علماء نے شیخیوں کی کتب کو کتب ضالّہ قرار دیا لیکن شیخ احمد احسائی کی تمام باتیں بھی غلط نہیں ہیں۔ تو کلّی طور پر غلط ہونا ضروری نہیں ہوتا بلکہ شرور اور نقصانات اہم ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم کتب کو مجروح ٹھہراتے ہیں۔ نہج الاسرار میں بھی بہت کچھ غلط نہیں ہوگا لیکن کلّی طور پر اس کتاب نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، اس لئے اس کتاب کے بارے میں معاشرے میں جانکاری بہت ضروری ہے تاکہ لوگ اس سے بچے رہیں۔ عوام چن کر اس میں سے اچھی باتیں تو نہیں پڑھتی، بلکہ جب وہ اس کتاب کو خریدیں گے تو یقینا خطبۃ البیان، خطبۂ تطنجیہ و افتخاریہ جیسے خطبے بھی پڑھیں گے جن کی نسبت امام علی(ع) سے دینا جمہور علمائے شیعہ کے نزدیک درست نہیں ہے.
خاکسار: سید جواد حسین رضوی
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںبہترین کیا مجھے اپکے واٹس ایپ گروپ کا لنک مل سکتا ہے؟
جواب دیںحذف کریں