٭علم کے ارتقاء میں قدیم ہندوستان کا کردار٭
قدیم ہندوستان خاص طور پر وادی سندھ کے تہذیبی شہر موہنجو داڑو اور ہڑپہ کا ایک وسیع حصّہ علوم کی ترقی میں رہا ہے۔ ہندوستانیوں کے عراق (بابل)، مصر اور یونان سے قریبی روابط رہے اور یہ تمام تہذیبیں ایک دوسرے کے علوم سے استفادہ کرتی رہیں۔ اس بات کے ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ سمیری، بابلی اور فونیقی (مشرق وسطی کی قدیم اقوام) تجارتی جہاز ہندوستان آتے تھے اور وادی سندھ اور ہڑپہ سے بھی تجارتی جہاز بابل اور مصر کی بندرگاہوں تک جاتے تھے۔ بابل و نینوا کے قدیم کھنڈرات سے برآمد ہونے والی "گلی الواح" (Clay Tablets) پر وادی سندھ کی تہذیب کی مہروں کے نشانات بھی ملے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے بابل اور میسوپوٹیمیا کے لوگوں سے روابط تھے۔
مشہور یونانی فلسفی فیثاغورث نے ہندوستان کا سفر بھی کیا، اور یہاں کے علوم و فنون سے کافی استفادہ کیا۔ معروف تاریخ دان "ویل ڈیورانٹ" اپنی معروف کتاب "دی سٹوری آف سویلائزیشن" میں اس سفر کا تفصیلی حال لکھتا ہے۔ بعض مؤرخین وثوق سے کہتے ہیں کہ فیثاغورث نے ہندوستان کے میدانی علاقوں (موجودہ پنجاب) کا سفر کیا۔ اس عظیم میدان کی زرخیزی کی وجہ سے ہمیشہ غیر ملکیوں نے اس پر حملے کیے اور اس کی دولت کو لوٹا۔ اسی خطے میں ہندوستانی تہذیب کے بڑے بڑے معمار پیدا ہوئے جنہوں نے علم و گیان سے بھرپور وید لکھے۔
یہ وید 1700 ق م سے لے کر 1100 ق م میں لکھے گئے۔ ان ویدوں کو ہندوستانی رشی منی، برہمنوں، سنیاسیوں، یوگیوں اور مذہبی پجاریوں نے لکھا۔ ان میں رگ وید، یجروید، سما وید اور اتھروید شامل ہیں۔ ان ویدوں میں دیوتاؤں کے حمدیہ گیت، جادو ٹونے کے منتر، مذہبی رسوم، زمین آسمان کی تکوین، سورج چاند ستاروں کی ھیئت، گیان دھیان، تزکیہ نفس، باطنیت اور خارجیت، تناسخ، الفاظ و اعداد، روح کی ابدیت، محاسبہ اعمال، جنسیات اور علم و حکمت شامل ہیں۔
ہندوستان یا بھارت ورت میں 1600 ق م سے لے کر 400 ق م تک ریاضی، ٹرگنومیٹری، ہندسہ اور فلکیات میں بہت سی دریافتیں کی گئیں۔ ہندوستانی ریاضی دان اور ھیئت دان ایسے بھی تھے جو اپنے ریاضی میں کام کی وجہ سے مشہور ہوئے، ان میں آریا بھٹ، برہما گپتا، مہاویر، بھاسکر، مادھو، نیلا کنتھا سوامی جی سرفہرست ہیں۔
ان ریاضی دانوں کے *Decimal Numbers* اب بھی استعمال ہوتے ہیں، جس کا پہلا تاریخی ریکارڈ ہندوستان میں ہی ملتا ہے۔ صفر کے عدد کو بھی ہندوستانیوں نے ہی عدد قرار دیا، اس کے علاوہ منفی اعداد، ارتھمیٹک، الجبرا اور ٹرگنومیٹری کا قدیم حوالہ بھی ہندوستانیوں سے ہی ملتا ہے۔ دائرہ اور اس کے مرکز میں نقطہ ہندوستانیوں کی روحانیت کا بنیادی مرکز تھا۔ وہ دائرے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے دائرے کو 360 درجے میں تقسیم کیا اور اس کو ہندسوں کا سردار قرار دیا۔
ہندو برہمنوں نے بہت سے علوم میں مہارت حاصل کر لی تھی، ان علوم میں ھیئت، ریاضی، طب اور ستاروں کا علم شامل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ برہمنوں نے علم نجوم اور ھیئت بابل کے لوگوں سے سیکھا اور ان علوم کو بہت زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے آسمانی برجوں کی تقسیم کر کے جدول بھی مرتب کی تھی۔ ایک ہندو عالم برہم گپت نے ایک سال کی صحیح صحیح پیمائش بھی کی تھی جس کو اس وقت زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ برہم گپت نے ایک سال کی پیمائش کر کے بتا دیا تھا کہ ایک سال 365 دن، چھ گھنٹے اور چھ سیکنڈ کا ہوتا ہے۔
آریا بھٹ علم ریاضی اور ھیئت میں بہت مہارت رکھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ زمین گول ہے اور یہ خلاء میں گردش کرتی ہے۔ آریا بھٹ نے دن رات کی تبدیلی کو زمین کی گردش محوری کا نتیجہ قرار دیا۔ برہم گپت اور آریا بھٹ دونوں ریاضی میں اس قدر ماہر تھے کہ وہ کسر عشاریہ کو بھی جانتے تھے۔ ٹرگنومیٹری کی علامات (Sin, Cosin) کو بھی ہندوستانیوں نے متعارف کروایا تھا۔
فیثاغورث نے ہندوستانی ریاضی دانوں سے بہت کچھ سیکھا، ہندوستان میں 800 ق م میں معروف ریاضی دان اور فلسفی "بدھیانا" نے سولباترا میں فیثا غورث کے تھیورم کو ایک اشلوک میں واضح کر دیا تھا جس کو بعد میں فیثاغورث نے اپنے تھیورم کا نام دیا۔ دنیا آج اس تھیورم کو فیثاغورث تھیورم کے نام سے ہی جانتی ہے جبکہ یہ خالص ایک ہندوستانی فلسفی بدھیانا کی اختراع تھی۔ سولباترا میں بدھیانا نے جیومیٹری اور ریاضی کے بہت سے مسائل کو حل کیا تھا۔
فیثاغورث نے ہندوستانیوں سے عقیدہ تناسخ بھی لیا، جس کو آواگون کہتے ہیں۔ اس نظریہ کی تعلیم اس نے یونان میں اپنے شاگردوں کو بھی دی۔
سید جواد حسین رضوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں