جمعرات، 3 نومبر، 2016

ابلاغ کا سنہرا اصول

٭ابلاغ کا سنہرا اصول٭
ہم میں ہر انسان کی عقل کا معیار باقی انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض انسان گہرے مطالب کو سمجھ لیتے ہیں اور بعض ظاہری معنی لیتے ہیں۔ انسانی عقلوں اور رویّوں کا یہ تضاد ہمیں جابجا نظر آتا ہے، اور بہت ساری جگہوں پر باہمی جدال کی ایک وجہ بھی عقول کا یکساں نہ ہونا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیشہ عقلی لحاظ سے برتر افراد کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاھئے، اگر وہ ان افراد کیلئے خیر خواہ ہیں جن کی عقلیں بہت سارے معارف و نکات کو درک نہیں کر سکتیں تو ان کے حال پر رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی عقل و فہم کے مطابق گفتگو کی جائے۔ لازمی ہے کہ عوام کو عبادت یا عمدہ اخلاق کی طرف اس انداز میں راغب کیا جائے جس طرح سے ہم بچوں کو مختلف پیرایوں سے کسی امر کی طرف راغب یا کسی بات سے متنفّر کرتے ہیں۔
مثلا ایک بچہ چاقو لے کر کھیلنے لگتا ہے اور ہم اس سے یہ نہیں کہتے کہ دیکھو یہ تیز دھار ہے جس کا استعمال تم نہیں جانتے، اور اندیشہ ہے کہ تمہاری بے احتیاطی تمہیں زخمی کر دے گی، بلکہ آپ فورا اس سے کہتے ہیں کہ چاقو پھینک دو ورنہ بلّی تمہارے کان کاٹ لے گی، یا چاقو تمہیں کاٹ لے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس پر وہ بچہ خائف ہو کر چاقو پھینک دیتا ہے حالانکہ ان میں سے کسی بات میں حقیقت نہیں ہے اور نہ اس طرح کہنے کو کوئی کذب و دروغ کہے گا۔ یا اگر بچے کو صحتمند غذا کی ترغیب دینی ہے تو ہم یہی کہتے ہیں کہ بیٹا جلدی جلدی بڑے ہو جاؤ گے اور تم اس غذا کو کھا کر شیر جیسے طاقتور ہو جاؤ گے۔
یا مثلا میرا چھ سالہ بیٹا فلکیات میں کافی دلچسپی رکھنے لگا ہے۔ منظومۂ شمسی اور دیگر فلکیاتی اجسام کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہے، یہاں تک کہ بلیک ہولز سے بھی واقف ہے۔ اس کی طرف سے بعض دفعہ ایسے سوالات آتے ہیں جن کا تفصیلی جواب اس کو مزید کنفیوز کر دے گا، یا یہ باتیں اس کے فہم سے بالا ہیں، یہاں پر مجھے بچگانہ مثالیں دے کر بات سمجھانی پڑتی ہے بلکہ اس کے فہم کے مطابق واقعیت سے ہٹ کر بھی بتانا پڑتا ہے تاکہ سر دست جس حد تک اس کی سمجھ ہے اور اس کیلئے مفید ہے، اس حد تک اس کو بات سمجھ آ جائے۔
اسی طرح ہمیں عوام میں مختلف افراد کی ذہنی سطح کو دیکھ کر بات کرنی پڑے گی۔ انبیاء کرام اور ان کے برحق اوصیاء نے بھی تبلیغ کیلئے یہی فلسفہ اختیار کیا۔ چنانچہ حضرت محمد مصطفی(ص) کا ارشاد گرامی ہے؛
اِنّا مَعاشِرَ الاَنْبياءِ اُمِرْنا اَنْ نُـكَلِّمَ النّاسَ عَلى قَدْرِ عُقولِهِمْ
یعنی ہم انبیاء کو حکم ہوا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق گفتگو کریں۔
اس حدیث کو امام حاکم نیشابوری نے صحیح قرار دیا ہے، اور امام مسلم نے مقدمے میں اس کو نقل کیا ہے۔ شیخ کلینی نے بھی اس حدیث کو اصول کافی کی جلد اول میں کتاب العقل والجھل میں امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے، چنانچہ مروی ہے؛
مَا كَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْعِبَادَ بِكُنْهِ عَقْلِهِ قَطُّ وَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ أُمِرْنَا أَنْ نُكَلِّمَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِم
امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے کبھی لوگوں سے اپنی عقل کے مطابق گفتگو نہیں کی، اور آپ(ص) فرماتے تھے کہ ہم انبیاء کو اس بات کا حکم ہے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق گفتگو کریں۔
چنانچہ انبیاء جو اپنے زمانے میں کامل ترین عقول رکھتے تھے، کبھی بھی اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ مقابل کی ذہنی سطح کو دیکھ کر گفتگو فرماتے تھے۔ اور اسی روش کو آئمہ(ع) نے بھی جاری رکھا، ہمیں روایات میں مختلف اقوال ملتے ہیں جس کی ایک وجہ یہی ہے۔ انہوں نے اسی فلسفے کو اختیار کیا تھا اورعوام کی ذہنیت اور ان کے نارسیدہ عقول کو دیکھ کر اعمال و افعال کے عواقب و نتائج اور اسباب و علل سمجھائے تھے۔
اگر ایک جاہل کے سامنے نماز کی حقیقی روح پر لیکچر دیا جائے کہ اس میں یوں اجتماعی و روحانی و نفسیاتی فوائد مضمر ہیں تو اس کے نزدیک نہ نماز میں کوئی اہمیت باقی رہے گی اور نہ وہ اس کی پابندی کرے گا لیکن اگر اس سے صرف یہ کہہ دیا جائے کہ دیکھو یہ اللہ کا حکم ہے جو تمہیں ہر حال میں ادا کرنا ہے، اور اگر ادا نہیں کرو گے تو فلاں فلاں عواقب و عذاب کا سامنا کرنا ہوگا تو ایک خاص قسم کی کیفیت اس پر طاری ہو جائے گی، اور وہ نماز کا پابند ہو جائے گا اور آخرکار وہ نتائج از خود بغیر اس کے علم کے پیدا ہو جائیں گے جو نماز کی پابندی سے پیدا ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض لائق افراد جو اعلی باتوں کو درک کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کو بات کسی اور پیرائے میں سمجھائی جائے گی۔ اگر ان کو حقائق سے آگاہ کیا جائے تو وہ اچھے اعمال کو بہترین انداز سے انجام دیں گے، اس لئے نہیں کہ ان کو کسی چیز کی لالچ یا خوف ہے، بلکہ اس لئے کہ ایسا کرنا خود اس کیلئے اور معاشرے کیلئے مفید ہے۔
العبد: سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں