٭عبداللہ بن حسن(ع) کی شہادت٭
جب دشمنان خدا نے امام حسین(ع) کو آخری وقت میں گھیر لیا تو عبداللہ بن حسن(ع) جو امام حسن(ع) کے بیٹے تھے، جن کی عمر اس وقت بمشکل 10 سال بھی نہیں ہو گی، خیمے میں خواتین کے پاس سے فوج کی طرف نکلے۔
اس بچے کی پرورش امام حسین(ع) نے کی تھی، چنانچہ عبداللہ(ع) کو اپنے چچا حسین(ع) سے بے پناہ محبّت تھی۔ عبداللہ(ع) بھاگ کر امام حسین(ع) کی طرف روانہ ہوئے تو جناب زینب(س) نے چاہا کہ عبداللہ کو روکیں، اور امام حسین(ع) نے بھی آواز دے کر کہا کہ "اے بہن! اس کو روک لو"۔
لیکن عبداللہ(ع) نے سختی سے انکار کیا اور کہا: واللہ لا افارق عمی ۔۔۔۔ "قسم بخدا میں اپنے چچا کو تنہا نہیں چھوڑوں گا"۔
اور جب ابجر بن کعب (لعین) امام حسین(ع) کی طرف تلوار لے کر نکلا تو بچے نے اس کو پکار کر کہا: "اے خبیث عورت کے بیٹے! کیا تو میرے چچا کو قتل کرے گا؟"
یہ دیکھ کر ابجر(ملون) نے عبداللہ(ع) پر حملہ کیا، عبداللہ(ع) نے ہاتھ سے تلوار کو روکنے کی کوشش کی، لیکن تلوار نے آپ کا ہاتھ کاٹ دیا اور آپ کا ہاتھ کھال سے لٹکنے لگا۔ اس پر عبداللہ(ع) نے پکار کر کہا: "ہائے میری ماں"
یہ دیکھ کر ابجر(ملون) نے عبداللہ(ع) پر حملہ کیا، عبداللہ(ع) نے ہاتھ سے تلوار کو روکنے کی کوشش کی، لیکن تلوار نے آپ کا ہاتھ کاٹ دیا اور آپ کا ہاتھ کھال سے لٹکنے لگا۔ اس پر عبداللہ(ع) نے پکار کر کہا: "ہائے میری ماں"
امام حسین(ع) نے بچے کو پکڑ کر سینے سے لگایا اور فرمایا: "اے میرے بھائی کی یادگار، اس مصیبت پر صبر کرو جو تم پر وارد ہوئی ہے اور اس کے بدلے اللہ سے بہتری کی امید رکھو، بے شک وہ تمہیں تمہارے نیک اور صالح اجداد سے ملا دے گا۔"
٭بحارالانوار؛ ج45 ص153، الارشاد؛ ص307٭
ہائے حسین(ع) کی مظلومیت اور ان مصائب پر آپ(ع) کا صبر!
الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین
افسوس امام حسین (ع) کے اس لاڈلے بھتیجے کے مصائب ہماری مجالس میں نہیں پڑھے جاتے جس کی وجہ سے برّصغیر میں مومنین اس شہید کربلا کے بارے میں نہیں جانتے۔ ہمارے اہل منبر ان ثابت شدہ مصائب کو بیان نہیں کرتے اور غیر معتبر کتب سے روایات پڑھ پڑھ کر قوم کے عقائد غیر معتبر روایات پر پختہ کر دیئے ہیں۔ واقعی مقام فکر ہے۔۔۔۔
نیز جناب قاسم ع کی شادی کے جھوٹے قصّے گڑھ کر مہندی و شادی کی رسومات عام کی ہوئی ہیں لیکن ان ثابت شدہ مستند مقاتل کو نہیں پڑھتے۔
نیز جناب قاسم ع کی شادی کے جھوٹے قصّے گڑھ کر مہندی و شادی کی رسومات عام کی ہوئی ہیں لیکن ان ثابت شدہ مستند مقاتل کو نہیں پڑھتے۔
سید جواد حسین رضوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں