منگل، 28 مارچ، 2017

تفسیر امام حسن عسکری ع کا اعتبار

٭تفسیر امام حسن عسکری ع کا اعتبار٭
‫اس تفسیر کو محمد بن قاسم استرآبادی نے تدوین کیا جن کو مفسّرجرجانی بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس تفسیر کو دو راویوں سے نقل کیا جن کے نام ابو الحسن علی بن محمد بن سیار اور ابویعقوب یوسف بن محمد بن زیاد تھے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ امام حسن عسکری(ع) نے یہ تفسیر ان دونوں کو املاء کرائی۔ اس تفسیر کے بارے میں دو آراء ہمارے فاضل علماء کے درمیان پائی جاتی ہیں:
1) کچھ اس کو اور اس کے متن کو جعلی اور ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں
22) اور کچھ اس کو معتبر قرار دیتے ہیں
جو اس کو غیر معتبر اور جعلی کہتے ہیں ان کی اصل دلیل یہ ہے کہ اس کے دونوں راوی مجہول ہیں۔ اور اس پر ان کے دیگر دلائل بھی ہیں۔ ان علماء میں ابن غضائری، علامہ حلّی، سیّد مصطفی تفرشی، محقق داماد، قہپائی، محمد تقی شوشتری اور آیت اللہ خوئی شامل ہیں۔
اور جو اس کو معتبر سمجھتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اس تفسیر پر شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں اعتبار کیا ہے اور محمد بن قاسم استرآبادی کے ساتھ "رضی اللہ" وغیرہ لگاتے تھے۔ جو علماء اس کے معتبر ہونے کے قائل ہیں ان میں شیخ صدوق، قطب راوندی، ابو منصور طبرسی، ابن شہر آشوب، شہید ثانی، علامہ مجلسی، شیخ حر عاملی، وحید بہبہانی، سیّد عبداللہ شبّر، اور آیت اللہ بروجردی شامل ہیں
اگر ہم محمد بن قاسم استرآبادی کو ممدوح یا ثقہ مان بھی لیں تو مشکل ابوالحسن علی بن محمد بن سیار اور ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیاد کے ساتھ پھر بھی باقی رہے گی۔
اس کی سند کو چھوڑ کر ہم اس کے متن پر جائیں تو ادبی اعتبار سے اس کے متن میں بہت خرابیاں ہیں اور معصومین ع کے فصیح کلام سے میل نہیں کھاتی۔ یہ تو کنفرم ہے کہ اس کی نسبت امام حسن عسکری(ع) سے درست نہیں ہے، بظاہر لگتا یہی ہے کہ کسی سادہ لوح شیعہ نے تصنیف کے بعد امام عسکری(ع) سے منسوب کر دیا۔
واللہ اعلم‬
سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں