منگل، 28 مارچ، 2017

سات حرفوں پر قرآن کے نزول کی صحت



٭سات حرفوں پر قرآن کے نزول کی صحت٭
سوال) صحاح ستہ میں بعض احادیث کے مطابق قرآن سات حروف میں نازل ہوا، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اس وقت متعدد قراتیں دنیا میں رائج ہیں، کونسی قرات درست ہے؟ مکتب امامیہ کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب) صحاح ستہ میں سات حرفوں یا قراتوں پر قرآن کے نزول کی جو روایات آئی ہیں ان سے آئمہ اہلبیت(ع) نے شدت سے اختلاف کیا۔ جیسے کافی میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَقَالَ كَذَبُوا أَعْدَاءُ اللَّهِ وَ لَكِنَّهُ نَزَلَ عَلَى حَرْفٍ وَاحِدٍ مِنْ عِنْدِ الْوَاحِد
فضل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں، قرآن خداوند واحد کی طرف سے ایک حرف پر نازل ہوا۔ (کافی ج2 ص630)
ہمیں "کافی" کی اسی جلد اور اسی صفحے پر یہ روایت بھی ملتی ہے جس کے مطابق قراتوں کا یہ اختلاف راویوں کی وجہ سے پیدا ہوا، غرض ایسا نہیں کہ اللہ کی طرف سے ہی سات حرفوں پر نازل ؛
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ إِنَّ الْقُرْآنَ وَاحِدٌ نَزَلَ مِنْ عِنْدِ وَاحِدٍ وَ لَكِنَّ الِاخْتِلَافَ يَجِي‏ءُ مِنْ قِبَلِ الرُّوَاة
امام باقر(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن ایک ہی ہے جو خداوند واحد کی طرف سے نازل ہوا لیکن اس کی قراتوں میں اختلاف روات کی وجہ سے پیدا ہوا۔
اس حدیث کی بھی سند صحیح ہے۔ لہذا امامیہ کے نزدیک یہ متفقہ بات ہے کہ قرآن صرف ایک حرف پر نازل ہوا، اور اس کی صرف ایک ہی قرات ہے جس پر اللہ تعالی کی طرف سے قرآن نازل ہوا۔ اسی لئے ہم اس رائے کو نہیں مانتے جس کے مطابق سات حرفوں پر قرآن کے نزول کا ذکر ہے، اس طرح کے اختلاف سے تحریف قرآن کے عقیدے کو تقویت ملتی ہے۔
نیز یہ جو قراتوں کا اختلاف ملتا ہے یہ قرآن کے راویوں کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ ہمیں سات مشہور قراتیں ملتی ہیں جو اوائل اسلام کے بعض قاریوں سے مروی ہیں جن کو قراء سبعہ کہا جاتا ہے۔ قراء سبعہ یا سات قراء ان قاریوں کو کہا جاتا ہے جن سے قرآن کریم کی قراءت کے سلسلہ میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں، ان روایتوں میں بعض جگہوں پر کلمات، اعراب (زبر، زیر، پیش) وغیرہ کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ علوم قرآن کی متداول کتابوں میں ان قراء کے نام اس طرح درج ہیں: عبد اللہ بن عامر، ابن کثیر المکی، عاصم بن بہدلہ کوفی، ابو عمرو بصری، حمزہ کوفی، نافع مدنی اور کسائی کوفی۔
اہلسنت کے نزدیک یہ سات قراتیں تواتر سے ثابت ہیں، اور ان کے نزدیک ان میں سے کسی بھی قرات پر تلاوت جائز ہے۔ یہ قراتیں کسی حد تک جغرافیائی خطوں پر بھی منحصر ہے، برصغیر ایران و ترکی وغیرہ میں عاصم کی قرات رائج ہے۔
جبکہ ہمارے نزدیک عاصم کی قرات ہی سب سے زیادہ معتبر ہے جو حفص سے مروی ہے، شیعہ علماء نے اس قرات پر زیادہ اعتبار کیا ہے بلکہ ابن شھر آشوب، قاضی نور اللہ شوشتری و سید خوئی نے البیان میں تصریح کی ہے کہ عاصم خود بھی شیعہ تھا۔ نیز عاصم کی قرات متواتر ہے اور عالم اسلام میں سب سے زیادہ رائج ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ عاصم کی قرات کا سلسلہ حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں