منگل، 28 مارچ، 2017

انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثرات

٭انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثرات٭
مندرجہ ذیل الفاظ ایک ڈسکشن کے دوران لکھے گئے جہاں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بات ہو رہی تھی۔
صدیوں سے مختلف معاشروں پر تبدیلیوں کے اثرات ہوتے رہے ہیں، بعض اثرات ایسے ہیں جن سے بچنا مشکل ہوتا ہے، وقتی طور پر بچ سکتے ہیں لیکن لانگ ٹرم میں ممکن نہیں ہوتا۔ مثلا ایران میں انقلاب کے بعد انگریزی کی تدریس کم کر دی گئی، صرف ایک زبان کی حد تک بڑی کلاسوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے اس پر بہت اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
یہ سلسلہ تاریخ میں تسلسل سے جاری و ساری رہا ہے، مثلا جب عرب بااثر تھے اور مختلف علوم و فنون میں ان کا ڈنکا بجتا تھا تو عربی زبان کی تدریس لازمی سمجھی جاتی تھی۔ قرون وسطی میں پورے پورپ بشمول انگلینڈ میں عربی کے بغیر کسی کو اسکالر یا عالم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عربی کے الفاظ بہت سے یورپی زبانوں میں داخل ہو گئے۔ خود فارسی کو آپ دیکھیں، آج فارسی کے ذخیرہ الفاظ میں آدھے سے زائد عربی کے الفاظ ملتے ہیں۔ یہ اثرات فتح ایران کے بعد شروع ہوئے جب علمی و فنی زبان عربی ٹھہری۔ لہذا جب بھی کوئی قوم ترقی کرتی ہے یا وہ سپر پاور بن کر دیگر اقوام پر اثر ڈالتی ہے تو اس قوم کی زبان کے اثرات دیگر زبانوں پر خودبخود ہوتے ہیں۔
میں تو اس سے بھی بڑھ کر ایک حقیقت بتاتا چلوں کہ عربی زبان کے اثرات کی وجہ سے بہت سے علاقوں کی زبانوں نے دم توڑ دیا اور وہاں عربی بولی جانے لگی۔ مثلا مصر میں اسلام سے پہلے قبطی رہتے تھے اور ان کی اپنی زبان تھی، جب مسلمان وہاں داخل ہوئے تو اپنے ساتھ عربی لے گئے، رفتہ رفتہ عربی نے ان کی زبان پر اثر انداز ہونا شروع کیا، اسی طرح سے عربی کے الفاظ ان کی زبان کا حصّہ بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ ان کی اپنی زبان بالکل ختم ہو گئی اور آج پورا مصر عربی میں بات کرتا ہے۔
اسی طرح شمالی افریقہ کے ممالک جیسے لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ کے افراد بربری تھے اور بربری زبان بولتے تھے، لیکن آج یہ تمام بربری عربی میں بات کرتے ہیں۔ سوڈان کو "نوبہ" کہا جاتا تھا، ان کی اپنی زبان تھی لیکن آج یہ تمام سیاہ فام نبطی عربی میں بات کرتے ہیں۔
بحیرہ میڈیٹیرین کے مغربی سواحل جیسے شام، فلسطین اور لبنان وغیرہ کی قدیم لوکل زبانیں تھیں، مسلمانوں کی فتوحات اور ان علاقوں کے مسلمان ہونے کے بعد ان کی زبان میں تغیر آتا گيا اور آج یہ سب نسلی طور پر عرب نہیں لیکن عربی بولتے ہیں، اور عرب ہی کہلاتے ہیں۔ خود ہندوستان کو ہی دیکھ لیں، یہاں مسلمانوں کی آمد کے بعد بہت سماجی و لسانی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ لسانی طور پر فارسی کا اثرو رسوخ بہت گہرا رہا جو مغلوں کی درباری زبان تھی۔ ہندوستان کی تعلیمی و دفتری و عدالتی زبان فارسی ٹھہری، اور فارسی نے مقامی زبان پر اتنا اثر کیا کہ اردو نامی الگ زبان وجود میں آئی۔
ان تمام مثالوں سے یہ تاریخی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ جو اقوام ثقافت و تعلیم میں مضبوط ہو جائیں تو ان کا اثر دوسروں پر طبیعی ہے۔ برصغیر تو پھر بھی انگریزوں کی کالونی رہی ہے، جاپان و چین جیسے ممالک میں، جہاں استعمار اس طرح سے داخل نہیں ہو سکا، مغرب سے شدید متاثر ہے۔
آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان پر اغیار کا اثر نہ ہو، بلکہ آپ ہی دوسروں پر اثرات ڈالیں تو اتنی ترقی کریں کہ قدرت کا طبیعی قانون نافذ ہو جائے اور آپ کی زبان و ثقافت دوسروں پر اثر انداز ہو سکے۔ ورنہ آپ کوشش کر کے اس اثر کو کچھ عرصہ کیلئے روک تو سکتے ہیں، ہمیشہ کیلئے نہیں۔
لہذا اس تبدیلی کو قبول کریں اور اپنے بچوں کو بیرونی زبانوں میں اعلی تعلیم دلوائیں، لیکن ساتھ ساتھ مقامی زبان و کلچر سے بھی آشنا رکھیں۔
سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں