منگل، 28 مارچ، 2017

انشورنس کا حکم فقہ جعفریہ کی روشنی میں

٭انشورنس کا حکم فقہ جعفریہ کی روشنی میں٭
سوال) کیا فقہ جعفریہ میں انشورنس جائز ہے؟ بعض اہلسنت علماء اس سے منع کرتے ہیں، اس کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب) انشورنس ایک عقد یعنی Contract ہے جس میں انشورنس دینے والا کچھ روپوں کے عوض نقصان کا ضامن ہو جاتا ہے۔ انشورنس کو اردو اور فارسی میں "بیمہ" کہتے ہیں۔ انشورنس کی دو اقسام ہیں، جنرل انشورنس جس میں مشینوں، جائداد اور گاڑیوں کے انشورنس ہوتے ہیں۔ اس میں مدت ختم ہونے پر کچھ نہیں ملتا، بلکہ پریمیم کے عوض ایک مقررہ مدت تک جو کہ عموما ایک سال پر مشتمل ہوتی ہے، انشورنس کمپنی نقصانات کو پورا کرنے کی ضامن بن جاتی ہے۔
دوسری قسم لائف انشورنس ہے جس میں عموما سالانہ پریمیئم کے عوض ایک مقررہ مدت تک انسان کی موت کی صورت میں یا اس کے اپاہج ہونے کی صورت میں ایک بڑی رقم ورثاء کو دی جاتی ہے۔ اگر یہ مدت بخیر و خوبی گزر جائے تو انشورنس کمپنی انشورنس کی رقم کے ساتھ اس عرصے تک کا منافع بھی ادا کرتی ہے۔
اہلسنت علماء اس انشورنس کے عقد کے بارے میں ہمیشہ مختلف الخیال رہے ہیں۔ عقد بیمہ پر جو اعتراضات وارد کئے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں؛
1) خود عقد بیمہ کا تصور صدر اسلام میں نہیں ملتا
2) اس میں غرر کا فیکٹر ہوتا ہے جو شرع میں جائز نہیں، غرر کسی چیز کی قیمت یا مبیع *Subject Matter* میں بے یقینی کی کیفیت کو کہتے ہیں۔ چونکہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ نقصان ہوگا بھی یا نہیں، اور نقصان کی صورت میں کتنا نقصان ہوگا، یہ معلوم نہیں ہوتا، ان کے نزدیک یہ غرر کا عنوان ہے۔ اور غرر سے رسول اللہ(ص) نے منع فرمایا ہے "ونھی النبی عن البیع الغرر"
3) قمار کا مسئلہ بھی پیش آتا ہے خصوصا جنرل انشورنس میں۔ انسان پریمئم ادا کرتا ہے جس کے عوض انشورنس کپمنی کسی بھی نقصان یا خسارت کے وارد ہونے کی صورت میں پورا کرتا ہے۔ لیکن نقصان نہ ہونے کی صورت میں انشورنس کرنے والے کو اس کی پریمئم کی رقم واپس ادا نہیں ہوتی۔ بالفاظ دیگر ایک رقم ادا ہوتی ہے جو واپس نہیں ہوتی، لیکن اس کے عوض انسان ایک غیر معینہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جو قمار کی صورت ہے۔
4) چوتھا فیکٹر سود کا ہے، خصوصا لائف انشورنس میں جتنا پریمئم ادا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ مدت مقرر ہونے پر انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے۔
ان باتوں کی وجہ سے اہلسنت علماء کی ایک بڑی تعداد انشورنس کو جائز نہیں سمجھتی۔ اس کے عوض انہوں نے تکافل کے نام سے اسلامی انشورنس کی بنیاد رکھی ہے جس میں عقد معاوضہ (بیمہ) کو عقد تبرّع میں بدلا گیا ہے۔ چونکہ عقد تبرّع میں غرر اور قمار جائز ہے، لہذا اس قباحت کو اس طرح دور کیا گيا ہے۔ اور سود کے فیکٹر کو مضاربت کے ذریعے پورا کیا گيا ہے، جو یقینا اچھی کاوش ہے لیکن بظاہر ملمّع کاری معلوم ہوتی ہے۔
شیعہ مراجع نے ابتدا سے ہی عقد بیمہ کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک ضروری نہیں کہ کسی عقد کا وجود ابتدائے اسلام میں ملے، ہر جدید چیز جائز ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس میں خلاف شرع کوئی بات نہ ہو۔ لہذا کسی عقد کے صدر اسلام میں نہ ملنے سے وہ عقد ناجائز نہیں ہو جاتا۔ شیعہ مراجع فرماتے ہیں کہ پریمئم کو "ھبۂ معوّضہ" کے عنوان سے ادا کیا جائے، یعنی ایسا گفٹ جس کے عوض آپ بھی فائدہ حاصل کریں۔ اس ھبۂ معوّضہ کے بدلے انشورنس کمپنی خسارتوں کو پورا کرنے کی ضامن ہو جائے، اس طرح سے ابتدائی تین مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
شہید مطہری نے 1970 کی دہائی میں حسینیۂ ارشاد میں سود کے مسائل پر جو لیکچرز دیے تھے وہ "ربا" کے عنوان سے فارسی میں طبع شدہ دستیاب ہیں، آپ نے ان لیکچرز میں سود کے مسئلے، جدید بینکاری اور مختلف نئے عقود پر سیر حاصل بات کی ہے۔ آپ نے جب انشورنس پر بات کی تو مندرجہ بالا اصول اخذ کرنے کے بعد پہلے تین فیکٹرز سے انشورنس کو مبرّا قرار دیا۔ جو چیز قابل اشکال ہے وہ اس میں ربا کا فیکٹر ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو جنرل انشورنس میں قباحت نظر نہیں آتی لیکن لائف انشورنس میں ربا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اگر انشورنس کمپنی یہ عہد کرے کہ وہ پریمئم کے پیسوں کو شرعی طور پر حلال جگہوں میں سرمایہ کاری کر کے اس کا منافع مضاربت کے عنوان سے ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں دیکھا جائے تو اس کا التزام پاکستان میں فقط تکافل کمپنیاں یا انشورنس کمپنیوں کی تکافل ونڈوز کرتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ عرض ہوا کہ اہلسنت علماء نے انشورنس میں بزعم خویش قباحتوں کو دیکھتے ہوئے تکافل (اسلامی انشورنس) کی بنیاد رکھی تھی۔ باقی انشورنس کمپنیاں اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کرتیں اور اس کا التزام بھی نہیں کرتیں۔ ایران کی تمام انشورنس کمپنیاں اس حوالے سے شرعی اصولوں پر کاربند ہیں لہذا ان کا بیمہ بلا اشکال ہے۔ اکثر مراجع کی توضیح میں بیمہ کے حوالے سے ایران کی انشورنس کمپنیوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
البتہ مراجع اس عنوان سے کہ عقد میں ھبہ کے عنوان سے اصل رقم سے زائد دینے کا ذکر ہو تو اس کی بھی اجازت دیتے ہیں، کیونکہ ایک عرصے تک طرفین انشورنس کے عقد میں منسلک رہے تو اس مدت کے بعد کمپنی ھبہ یا گفٹ کے عنوان سے انشورنس کرنے والے کو زائد رقم دے تو انشورنس کروانے والا اس رقم کو قبول کر سکتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں