٭ شرابخوری کی سزا٭
سوال) اسلام میں شرابخور کیلئے کیا سزا بیان ہوئی ہے؟ کیا بیئر Beer پینے کی بھی وہی سزا ہے جو شراب Wine پینے کی ہے؟
جواب) شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ میں "مسکر" یعنی شرابخوار کے حد والے باب میں احادیث جمع کی ہیں، جن میں سے کچھ سند کے لحاظ سے صحیح کے درجے پر ہیں۔ ان میں سے ایک صحیح حدیث کے مطابق ابو بصیر نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ شرابخور کی حد کیا ہے۔ تو آپ(ع) نے جواب دیا کہ رسول اللہ(ص) کے دور میں شرابخور کو ابتدا میں ہاتھوں اور جوتوں سے مارا کرتے تھے، جب شرابخوری کثرت سے بڑھ گئی اور شرابخور آپ(ص) کے پاس زیادہ لائے جانے لگے تو ان کو زیادہ مارا پیٹا جانے لگا، یہاں تک کہ شرابخوری حد سے زیادہ پہنچی تو یہ ضربیں 80 تک جا پہنچیں۔
خلیفۂ دوّم حضرت عمر کے دور میں ایک شخص کو شرابخوری کے جرم میں پکڑ کر لایا گیا، لیکن حضرت عمر کو اس حوالے سے تردّد تھا کہ کتنی ضربیں لگائی جائیں، اس پر حضرت علی ع نے فرمایا کہ اس شرابی کو 80 کوڑے کی سزا ہوگی کیونکہ شرابخوار جب مست ہوتا ہے تو فضولیات بکتا ہے، اور اس پر ایک مفتری (تہمت لگانے والے) کی حد جاری ہوگی جو قرآن میں 80 کوڑے بیان ہوئی ہے۔
شیعہ سنّی فقہاء شرابخوری کیلئے اسّی کوڑے کی سزا کے قائل ہوئے ہیں، بشرطیکہ دو عادل گواہ اس شخص کو باقاعدہ شراب پیتے دیکھیں۔ بنا بر مشہور مست کرنے والے فقاع (آب جو) یعنی بیئر (Beer) کی بھی یہی سزا ہے۔ اس سزا کی علت یہ ہے کہ شرابی مست ہونے کے بعد ہوش و ہواس میں نہیں رہتا اور ایسے شخص کا نشے میں گھومنا معاشرے میں دیگر افراد کیلئے نقصان یا سردرد کا باعث بھی ہو سکتا ہے، اس کے آئے دن مظاہرے آپ کو مغربی ممالک میں بکثرت نظر آئیں گے۔ لہذا اسلام نے شراب پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کی سزا بھی قدرے سخت بیان کی ہے تاکہ ان مسائل کا سدباب ہو سکے۔
البتہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شرابخواری کی سزا میں اضافہ زمانے کی ضرورت کے حساب سے کیا گیا۔ شروع میں فقط مار پیٹ پر اکتفا کیا جاتا تھا، جب شرابخواری بڑھی تو ان ضربوں کو بڑھا کر 80 تک کر دیا گيا۔ لہذا یہ حکومت اور عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس جرم کے روک تھام کیلئے کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔ جیسے ایران کی عدالت نے مبینہ توہین رسالت کے مرتکب کو اسلامی کتب پڑھنے اور دو سال تک دینی علوم حاصل کرنے کی سزا سنائی، غالبا عدالت یہ جان گئی تھی کہ اس توہین کا ارتکاب فقط اسلامی عقائد و احکامات سے عدم واقفیت کی بنا پر ہوا۔
بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ تادیب ہو جائیں اور اس مذموم حرکت سے بچ کر رہیں۔
والسلام علیکم
سید جواد حسین رضوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں