٭سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟٭
سوال) سورہ حجر میں سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟
جواب) سورہ حجر کی آيت نمبر 87 میں ارشادی باری تعالی ہے؛
ولَقَد ءاتَينكَ سَبعـًا مِنَ المَثانى والقُرءانَ العَظيم
اور ہم نے تمہیں سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا۔
سبعا من المثانی کی تعبیر کے بارے میں درج ذیل نظریات مفسرین کے درمیان پائے جاتے ہیں؛
1) اس سے مراد سورہ حمد ہے
2) اس سے مراد قرآن کی ابتدائی سات لمبی سورتیں ہیں
3) اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جو بعض حروف مقطعات جیسے حا میم وغیرہ سے شروع ہوتی ہیں۔
جس نظریہ کی تائید ہمیں آئمہ علیھم السلام سے ملتی ہے وہ پہلی رائے ہے۔ امام صادق ع اس آيت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ حمد ہے جو ہر نماز میں دو دفعہ پڑھی جاتی ہے۔ علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اور آيت اللہ مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ میں اسی رائے کو درست قرار دیا کیونکہ ظاہر آيات و قرائن بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور معصومین ع سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
جو دوسری رائے ہے اس کے اپنے دلائل ہیں، ایک دلیل یہ ہے کہ اوائل کی لمبی سورتوں میں تمام غیبی امور من جملہ واقعات و حوادث تاریخی زیادہ بیان ہوئے ہیں، اور چونکہ ان مفسرین کے مطابق قرآن دو دفعہ نازل ہوا ہے لہذا سبعا من المثانی سے مراد ابتدائی سات لمبی سورتیں ہیں۔
لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ پہلی رائے زیادہ ارجح و مطابق با حقیقت ہے۔ اس میں اس پر بھی بحث ہے کہ "من" سے مراد من تبعیض ہے یا من تبیین ۔۔۔۔۔ دونوں صورتوں میں پہلی رائے پر فرق نہیں پڑتا، سید فضل اللہ لکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن سارا کا سارا مثانی ہے، لہذا اس قرآن میں سے کچھ آیتیں جو سورہ حمد کی سات آیتیں ہیں، مراد ہیں، یعنی یہ "من" تبعیض ہے۔ سورہ زمر کی آيت 23 میں بھی قرآن کو مثانی کہا گيا ہے۔
کتاباً مُتَشابِهاً مَثانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُم
مخفی نہ رہے کہ بعض کے نزدیک سورہ فاتحہ قرآن سے ہٹ کر نازل ہوئی ہیں، لہذا یہاں سورہ فاتحہ اور باقی قرآن کا الگ الگ ذکر کرنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ نیز یہ احتمال بھی قوی ہے کہ سورہ فاتحہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کیلئے بھی الگ سے ذکر کیا گيا ہے۔
سید جواد حسین رضوی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں