منگل، 22 مئی، 2018

اتحاد بین المسلمین میں سنجیدگی


اتحاد بین المسلمین میں سنجیدگی
امت مسلمہ کو دو بڑے فرقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ دو بڑے فرقے مزید ذیلی شاخوں میں منقسم ہیں۔ برصغیر کی بوہری جماعت بھی نوع کے لحاظ سے اسماعیلی شیعوں کی ایک ذیلی شاخ ہے۔
امام جعفر صادق(ع) کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل اور دوسرے بیٹے موسی کاظم(ع) کے متعلق شیعوں میں اختلاف رونما ہوا۔ ایک گروہ نے اسماعیل کو امام مان لیا، لیکن چونکہ اسماعیل کی وفات خود امام جعفر صادق(ع) کی حیات مبارکہ میں ہوئی تو انہوں نے ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کو امام مانا۔ یہ گروہ "اسماعیلیہ" کے نام سے معروف ہوا، جبکہ دوسری طرف امام کاظم(ع) کو ماننے والے اب "اثنا عشریہ" کے نام سے معروف ہیں۔
گروہ اسماعیلیہ بعد میں مزید گروہوں میں منقسم ہوئے؛ مبارکیہ، مستعلیہ، نزاریہ اور دروزیہ۔ خلافت فاطمیہ بھی انہی کے ہاتھوں قائم ہوئی جس کا سہرا ان کے ایک امام عبیداللہ المھدی کے سر جاتا ہے۔ ابتدا میں تیونس و شمالی افریقا میں ان کی خلافت قائم ہوئی اور پھر انہوں نے مصر کو مستقر بنا لیا۔ یہ بہت علم دوست تھے اور ان کی خلافت کی تعریف اپنے پرائے سبھی مؤرخین نے کی۔
ان کے ہاں بھی آگے چل کر دو بھائیوں کی خلافت پر اختلاف ہوا، عموما بڑے بیٹے کو خلافت ملتی تھی اس لئے امید کی جاتی تھی کہ "نزار العزیز اللہ" خلیفہ بنے گا، لیکن چونکہ "احمد مستعلی" کی والدہ کا دربار میں بہت اثر و رسوخ تھا تو عملی طور پر مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن حسن بن صباح سمیت ایک بڑی تعداد نزار کو ہی امام/ خلیفہ تصور کرتی تھی، مستعلی کو خلافت ملنے کے بعد حسن بن صباح نزار کے بیٹے کو لے کر ایران کے علاقے طبرستان آیا اور وہاں اپنی طاقت کے زور سے حکومت حاصل کی، جبکہ مستعلی نے مصر میں خلافت جاری رکھی۔ "نزار" کے ماننے والے آج آغا خانی ہیں اور "مستعلی" کو ماننے والے آج بوہری ہیں۔ نزاریوں نے بعد میں اپنے امام حسن علی ذکرہ السلام کے دور میں ظاہری شریعت چھوڑی اور باطنی شریعت پر عمل پیرا رہے۔ جبکہ مستعلیہ گروہ بعد میں مزید دو گروہوں حافظی اور طیّبی میں بٹ گئے۔ موجودہ بوہری "طیّبی" ہیں جبکہ حافظی صلاح الدین ایوبی کی وجہ سے ختم ہو گئے۔
---------------------------------------------------
یہ سب باتیں آپ کو تاریخ اسماعیلیہ سے مستفید کرنے کیلئے نہیں بتائی جا رہیں، اس پر انشاء اللہ کبھی تفصیل سے لکھیں گے۔ اس تمہید کا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ گروہ اسماعیلیہ حضرت امام موسی کاظم(ع) کو امام نہیں مانتے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے مشہور تھا کہ بوہری حضرات امام موسی کاظم(ع) کو برا بھلا کہتے ہیں کیونکہ ان کو یہ لگتا تھا کہ امام کاظم(ع) نے غلط دعوائے امامت کیا۔ اس وجہ سے شیعہ اثنا عشری بوہریوں سے شدید بدظن ہوا کرتے تھے اور ان کو کھلے عام عتبات عالیہ کربلا و نجف کی زیارت میں اتنی آزادی میسّر نہیں ہوا کرتی تھی۔
لیکن تاریخ میں وہ موڑ بھی آیا جب ان کے کچھ زعماء نے نجف میں اپنے زمانے کے مرجع اعلی آيت اللہ حاج سید ابوالحسن اصفہانی سے ملاقات کی اور ان کو باور کرایا کہ بوہری جماعت اس فعل شنیعہ کا ارتکاب نہیں کرتی اور آئندہ سے ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی۔ ان کے اس عذر کو قبول کر لیا گيا اور پھر اثنا عشری شیعوں کے ساتھ ان کا عمدہ اتحاد قائم ہوا، یہ نہ صرف زیارات اور دیگر مجالس حسینیہ میں شامل ہوتے ہیں بلکہ امام علی(ع) و امام حسین(ع) کی ضریحوں کے علاوہ مسجد کوفہ کی تعمیر و تزئین و آرائش کا کام بھی انہی کے ہاتھوں طے پایا۔
-------------------------------------------------
یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ شیعہ اثنا عشری اپنے بوہری اسماعیلی بھائیوں کے ساتھ اتحاد و یگانگت اور رواداری کے فروغ کے خواہاں تھے، لہذا ان کے عذر کو قبول کیا گيا اور جب ان کے زعماء نے یقین دلایا کہ اب سے امام کاظم(ع) کے بارے میں ناروا نہیں کہا جائے گا تو بلا پس و پیش قبول کر لیا گيا۔ دوسری طرف ہمیں ایسے افراد ملتے ہیں، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، جو شیعوں کی طرف سے صحابہ کرام اور امہات مؤمنین کے احترام اور خیر سگالی کے جذبات کو نہ صرف قبول نہیں کرتے بلکہ بعض پرانے علماء کے اقوال لا کر کہتے ہیں کہ ہم ان کی بات تبھی قبول کریں گے جب ان بزرگوں پر لعنت کی جائے۔
یہ افراد چاہتے ہیں کہ گڑھے مردے اکھاڑے جائیں اور دو بڑے مسلمان فرقوں کے درمیان رواداری قائم نہ ہونے دی جائے۔ یا تو پرانے علماء کے بعض اقوال لائے جائیں یا پھر یاسر الحبیب کویتی جیسے افراد کی حرکتوں کو بنیاد بنا کر صلح جو شیعوں کا دوستی کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا جائے تاکہ اختلافی اور ناقابل حل مسائل کو ہمیشہ چھیڑے رکھیں۔ یہ روشن خیال کہلانے والے افراد اس بات کو درک نہیں کرنا چاہتے کہ تبدیلی ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ آتی ہے۔
ان افراد کو چاھئے کہ اس امت پر کچھ رحم کریں، اگر دوسری طرف سے سنجیدگی سے ہاتھ بڑھایا جا رہا ہے تو اس کو قبول کریں اور پرانی باتوں کو کبھی سامنے نہ لائیں۔ اگر اکابرین کی باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا ہے تو پھر کوئی مسلمان نہیں بچے گا۔ دور کیوں جائیں، صرف برصغیر کو ہی لے لیں جہاں ہر مسلمان فرقے نے دوسرے کی تکفیر کا حکم دیا ہے۔ ان کا ذکر یہاں مناسب نہیں کیونکہ ہم دوستی بڑھانے کیلئے ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں، اختلافی موضوعات چھیڑ کر تکفیر و تفسیق کے فتووں سے ہمیں دلچسپی نہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام مسلمان گروہوں کے درمیان اتفاق و اتحاد و رواداری کی فضا قائم رکھے۔ اور ان کے درمیان تفرقہ پھیلانے والے اگر قابل اصلاح ہوں تو ان کو ہدایت دے اور ناقابل ہدایت ہوں اور مذموم تکفیری ایجنڈے پر عمل کرتے ہوں تو اللہ ان کو نیست و نابود کرے۔
وما علینا الا البلاع
ج رضوی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں