موضوع: عراق کا یزیدی فرقہ
تحریر: سید جواد حسین رضوی
تحریر: سید جواد حسین رضوی
یزیدی مذہب کافی پرانا فرقہ ہے۔ اس فرقے کی جڑیں قدیم ایرانی مذاہب سے جا ملتی ہیں۔ عقائد کے لحاظ سے قدیم زرتشت، مانی و مزدک کے مذاہب سے خاصا متاثر ہے، نیز نسطوری عیسائیوں اور صوفی مسلمانوں کے بھی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں، یہاں تک کہ حیرت انگیز طور پر ہندوؤں کے اثرات بھی نمایاں ہیں جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ چنانچہ یہ مختلف ادیان و مذاہب کا ایک مجموعہ ہے۔
نام سے عموما یہ تاثر ذہن میں ابھرتا ہے کہ یزیدی فرقے کا تعلق یزید بن معاویہ سے ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس مذہب کا اصل نام "ایزدی" ہے۔ ایزد قدیم فارس میں خدا کا نام تھا، اسی نسبت کی وجہ سے ان کو ایزدی کہا جاتا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر یزیدی میں تبدیل ہو گیا۔
ان کو اسلام سے روشناس کروانے والے پانچویں صدی ہجری کے ایک صوفی شیخ عدی بن مسافر تھے۔ یعنی موجودہ شکل میں یزیدی فرقے کی تشکیل شیخ عدی کے دور میں ہوئی۔ اس وقت ان کو یزیدی نہیں کہا جاتا تھا بلکہ شیخ عدی کی وجہ سے "عدویہ"کہا جاتا تھا، اور یہ ایک صوفی فرقہ تصوّر ہوتا تھا۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عدی کی وفات کے بعد ان کے عقائد میں بتدریج تبدیلی آتی گئی اور سابقہ عقائد کی طرف لوٹ گئے۔ جن علاقوں میں آج یزیدیوں کی آبادی ہے، وہاں آس پاس کے عیسائی اور مسلمان ان کو شیطان پرست کہہ کر پکارتے ہیں، گو کہ یہ نام یزیدیوں کو پسند نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس مذہب کا شیطان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔
یزیدیوں کے عقائد کے مطابق اس کائنات کو خلق کرنے والا ایک خدا ہے، جس کا کام کائنات کو خلق کرنا تھا اس کے بعد اس کا کردار اس دنیا میں نہیں۔ اس کے بعد اس خدا نے جس مخلوق کو خلق کیا وہ "ملک طاؤوس" تھا گویا ملک طاؤوس کو ان کے مطابق مخلوق اوّل قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے بعد باقی مزید چھ فرشتے بھی آگ سے خلق کئے۔ کائنات کے امور یہ سات فرشتے چلا رہے ہیں جن میں سب سے مقرّب "ملک طاؤوس" ہے۔
یزیدیوں کے عقائد کے مطابق اس کائنات کو خلق کرنے والا ایک خدا ہے، جس کا کام کائنات کو خلق کرنا تھا اس کے بعد اس کا کردار اس دنیا میں نہیں۔ اس کے بعد اس خدا نے جس مخلوق کو خلق کیا وہ "ملک طاؤوس" تھا گویا ملک طاؤوس کو ان کے مطابق مخلوق اوّل قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے بعد باقی مزید چھ فرشتے بھی آگ سے خلق کئے۔ کائنات کے امور یہ سات فرشتے چلا رہے ہیں جن میں سب سے مقرّب "ملک طاؤوس" ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ملک طاؤوس ذات خداوندی کا ایک حصّہ ہے، نیز وہ خداوند اور مخلوقات کے درمیان واسطۂ فیض ہیں۔ یہ ایک توحید شناس فرشتہ تھا جس کو اللہ نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اپنی توحید پرستی کی وجہ سے سجدے سے انکار کیا۔ اس کی پاداش میں اللہ نے اس کو جہنم میں ڈالا جہاں وہ سات سو سالوں تک گریہ و توبہ کرتا رہا۔ بالآخر اللہ نے اس کی توبہ قبول کی اور اس کو وہی بلند و بالا مقام عطا کیا۔ یہ عقیدہ نیا نہیں ہے بلکہ مختلف صوفی بزرگوں نے ابلیس کی توحید پرستی کی تعریف کی۔ حسین بن منصور حلاج اور امام غزالی کے بھائی کی طرف اس قول کی نسبت دی جاتی ہے کہ توحید سیکھنی ہے تو ابلیس سے سیکھنی چاھئے۔ یہی عقیدہ تصوّف کے توسط سے یزیدیوں میں بھی در آیا۔
یزیدیوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ آدم(ع) نے ایک حور کے ساتھ شادی کی جس سے آجکل کے یزیدی پیدا ہوئے، اور حوّا کے ساتھ شادی کے نتیجے میں باقی انسانیت۔ یہی وجہ ہے کہ یزیدی اپنے آپ کو سب سے اعلی سمجھتے ہیں اور دیگر انسانوں کو اپنے اندر قبول نہیں کرتے اور نہ اپنے علاوہ کسی سے شادی کرنے کے قائل ہیں۔
یزیدیوں کا ملک طاؤوس اور چھ دیگر مقرّب فرشتوں کا عقیدہ قدیم زرتشتیوں سے جا ملتا ہے۔ زرتشتی بھی قائل ہیں کہ ذات خداوندی کے بعد ایک مقدس ذات "اسپنتامینو" کو بنایا گیا جس کے بعد چھ "امشاسپندان" بھی ہیں۔ البتہ یاد رہے کہ یزیدیوں کے ہاں شیطان کا وہ تصور نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ ان کے مطابق یہ اللہ کے مقرّب فرشتوں میں سے ہے جو اب بھی کائنات کے امور چلا رہا ہے اور خداوند متعال اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔ یزیدیوں کے ہاں سورج کی بھی بڑی اہمیت ہے، چنانچہ ان کی عبادتگاہوں میں سورج کی تصاویر کو خاص اہمیت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی طرح پانچ وقت عبادت کرتے ہیں جن میں سے چار دفعہ سورج کی سمت رخ کرتے ہیں اور دن میں ایک دفعہ اپنے مرشد شیخ عدی بن مسافر کی قبر کی طرف رخ کرتے ہیں جو عراقی کردستان کے ایک درّے "لالش" میں واقع ہے۔
استطاعت کی صورت میں اس قبر کی طرف سال میں ایک دفعہ زیارت کرنے کی خاص اہمیت ہے، نیز سال میں ایک دفعہ گرمیوں کے مہینوں میں خاص طور پر آتے ہیں۔ اس مقبرے کی مٹی کو بھی اپنے ساتھ ہر وقت رکھتے ہیں، سمعانی کتاب الانساب میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ ایک خاص مٹی کھاتے ہیں جو شیخ عدی بن مسافر کے مقبرے سے حاصل کی جاتی ہے، اس کو آٹے کے ساتھ ملا کر خمیر کرتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے کھاتے رہتے ہیں، اس کو "برات" کہا جاتا ہے۔
صوفیوں کی طرح ان کے ہاں بھی سماع، ذکر اور پیری مریدی ہے۔ علاوہ ازیں مختلف صوفی بزرگوں جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی کا احترام بھی کرتے ہیں۔ نیز عقائد میں تناسخ یعنی جنم کے قائل ہیں، اور کئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جیسے لوبیا و سلاد وغیرہ۔ مرغا کھانے کو بھی جائز نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے بقول ملک طاؤوس مرغے کی شکل میں ہے۔ مونچھوں کے کتروانے کو جائز نہیں سمجھتے لیکن اصلاح کرنے میں حرج نہیں۔ ان کے جو بزرگ یا شیوخ ہیں ان کے لئے داڑھی بھی لازمی ہے۔
یزیدیوں کی سب سے بڑی تعداد عراق میں ہے جہاں کردستان اور موصل میں زیادہ تر رہتے ہیں۔ ایک اچھی آبادی ترکی اور شام میں بھی ہے۔ اور چھوٹی سی تعداد آرمینیا، جارجیا اور روس میں بھی رہتی ہے۔ بہت سے یزیدی یورپی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ جرمنی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی پوری دنیا میں 5 لاکھ سے 8 لاکھ تعداد بتائی جاتی ہے۔ تقریبا تمام یزیدی کرد ہیں اور کردی زبان بولتے ہیں، البتہ ایک چھوٹی سی تعداد عرب یزیدیوں کی بھی ہے۔
عالمی میڈیا میں یزیدی فرقے کا نام سب سے پہلے 2007 میں ابھرا جب ایک لڑکی کے سنگسار کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ یزیدی قبائل نے ایک لڑکی کو بری طرح زد و کوب کر کے ہلاک کیا جس کا جرم فقط یہی تھا کہ وہ ایک سنّی عرب کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔ دونوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن خاندان کے بڑوں نے لڑکی کو پکڑ لیا اور سرعام چوک پر آدھے گھنٹے کے تشدد کے دوران ہلاک کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی، عالمی میڈیا میں یہ عمل مسلمانوں کے نام سے پیش کیا گیا۔ مغالطہ اس لئے بھی ہوا کہ واقعہ چونکہ عراق کا تھا، اور فورا مسلمانوں کا نام ذہن میں ابھرتا ہے، اس لئے اسلام مخالف عناصر نے مسلمانوں کے خلاف اس ویڈیو کو استعمال کیا۔ ہم نے اس وقت بھی مختلف سوشل نیٹ ورک پر اس سازش کا جواب دیا۔
حالیہ دنوں میں ان کا نام پھر سے سامنے آنے لگا جب داعش نامی دہشتگرد تنظیم نے یزیدیوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی۔ ہم یزیدیوں کے عقائد سے بیزاری کرتے ہیں لیکن بطور انسان ان کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے، لیکن داعش نے ان سے یہ حق بھی چھین لیا تھا۔ لیکن بحمداللہ داعش کو عراق میں شکست فاش ہو چکی ہے اور یزیدی پھر سے آرام و سکون کی زندگی گزارنے لگے ہیں۔
یزیدی مذہب و آئین کے عالمی منظر نامے پر آنے کے بعد ان کی ہندوؤں کے ساتھ عجیب شباہت بھی دیکھنے میں آئی، اور اس حوالے سے اب کافی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ سب سے پہلی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یزیدی اپنے دیوتا ملک طاؤوس کی نسبت مور سے دیتے ہیں۔ عربی میں مور کو طاؤوس کہا جاتا ہے حالانکہ مشرق وسطی میں مور نہیں ہوتے ہیں، بلکہ برصغیر میں پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ملک طاؤوس کی عجیب شباہت جنوبی ہندوستان کے دیوتا "موروگن" سے ہے جو دیوتا شو اور دیوی پاروتی کا بیٹا تھا۔ موروگن کی نسبت بھی قوی طور پر طاؤوس یعنی مور سے دی جاتی ہے، متعدد ہندو مندروں میں جن کا تعلق جنوبی ہندوستان سے ہے "موروگن" کو مور پر بیٹھا دکھایا جاتا ہے۔ اس موروگن سے سانپوں کا تعلق بھی بتایا جاتا ہے، اور حیرت انگیز طور پر عراقی کردستان "لالش" میں یزیدیوں کے معبد کے دروازے پر سانپ کی شبیہ موجود ہے۔
ایک اور عجیب شباہت یہ ہے کہ یزیدی خواتین اسی طرح آگ کی آرتیاں اٹھا کر عبادت کرتی ہیں جیسے ہندو کرتے ہیں، ان آرتیوں کو یزیدی سنجک کہتے ہیں۔ عموما ان آرتیوں پر مور کا چھوٹا مجسمہ ہوتا ہے بعینہ ویسے ہی جیسے جنوبی ہند میں ہوتا ہے۔ اسی طرح عبادت کے بعد یزیدیوں کا شیخ عقیدت مندوں کی پیشانی پر تلک لگاتا ہے جس کو تیسری آنکھ کہا جاتا ہے۔ یزیدی دن میں تین یا چار دفعہ سورج کی طرف رخ کر کے عبادت کرتے ہیں جس کو ہندو دھرم میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یزیدیوں کے معبد کی شکلیں مخروطی ہوتی ہیں جیسے ہندو مندر ہوتے ہیں۔ اور سب سے تعجب انگیز یہ ہے کہ لالش میں یزیدی معبد میں دیوار پر موجود ایک تصویر میں کسی خاتون کو ساڑھی پہنے ہاتھ میں آرتی لئے دکھایا گيا ہے۔
ہندوؤں کے ساتھ یہ شباہت حقیقت میں کافی عجیب ہے۔ اس تشابہ کی وجہ سے مختلف ہندو مفکرین یزیدیوں کو مشرق وسطی میں ہندوستانی باقیات قرار دے رہے ہیں۔ یزیدی روایات جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں ان میں چار ہزار سال قبل مسیح میں ایک طوفان کا ذکر ہے جس کے بعد متعدد یزیدی ہندوستان کی طرف کوچ کر گئے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قدیم زمانے میں عراق کے بابلیوں اور آشوریوں کا ہندوستان سے گہرا تعلق رہا ہے۔ بہت سے مفکّرین نے یزیدیوں کے مذہب کا تعلق قدیم ایرانی مذہب "متھرا ازم" سے جوڑا ہے جو زرتشتی مذہب سے بھی بہت پہلے کا ہے۔ یہ مذہب سورج دیوتا کی پوجا کرتا تھا اور اس مذہب کی حیثیت آریائی ابتدائی مذہب سے ہے۔ ممکن ہے کہ یزیدی اس وقت سے اب تک چلے آ رہے ہوں جنہوں نے بعد میں آنے والے مذاہب کے اثرات کو قبول کیا ہو۔ بہرکیف یزیدی مذہب کو اس حوالے سے داد دینی چاہئے کہ صدیوں سے بے انتہا دباؤ میں رہنے کے باوجود اپنے مذہب کو باقی اور جاری و ساری رکھا، جس کی وجہ ان کے اندر وہ لچک ہے جس کی وجہ سے آنے والے مذاہب کے اثرات کو اپنے اندر جذب کرتے گئے۔ تاریخ میں سخت اور کٹھن حالات بھی رہے جو اب تک داعش جیسی عفریت کی صورت میں جاری تھا، لیکن اس مذہب نے اپنی بقا کی صدیوں پر محیط جنگ کامیابی سے لڑی۔
والسّلام علیکم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں