منگل، 22 مئی، 2018

سورج سے گرم شدہ پانی سے وضو کرنے کی کراہت


-- ٭ سورج سے گرم شدہ پانی سے وضو کرنے کی کراہت ٭ ---
تحریر: سید جواد حسین رضوی
احادیث میں اس پانی سے وضو کرنے کی کراہت بیان ہوئی ہے جو سورج کی تمازت کی وجہ سے گرم ہوا ہو۔ یہ شرعی حکم اپنی جگہ لیکن آج سائنس کی ترقی کے ساتھ اس کی علّت اور اس کی حکمتیں بھی واضح ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے دین اسلام پر ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ ان سائنسی علوم کی ترقّی سے انسان کی فہم میں اضافہ ہوا ہے، اور اگر صحیح معنوں میں اسلامی معارف میں اب غور و فکر کیا جائے تو یہ فکر انسان کو دنیوی و اخروی سعادت کی جانب لے جائے گا۔
ذیل میں کچھ روایات حاضر خدمت ہیں؛
1) مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْعُبَيْدِيِّ عَنْ دُرُسْتَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلَى عَائِشَةَ- وَ قَدْ وَضَعَتْ قُمْقُمَتَهَا فِي الشَّمْسِ فَقَالَ يَا حُمَيْرَاءُ مَا هَذَا قَالَتْ أَغْسِلُ رَأْسِي وَ جَسَدِي قَالَ لَا تَعُودِي فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَص
ابراھیم بن عبدالحمید امام کاظم(ع) سے روایت کرتے ہیں، فرمایا: "رسول اللہ(ص) ایک دفعہ جناب عائشہ کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا انہوں نے تانبے کا برتن (جس میں پانی تھا) دھوب میں رکھا ہوا ہے۔ فرمایا: اے حمیرا یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا دھوپ میں پانی گرم کر رہی ہوں جس سے اپنا سر اور بدن دھؤں گی۔ آپ(ص) نے فرمایا ایسا کبھی نہ کرنا، کیونکہ یہ پانی برص کا باعث ہوتا ہے"۔
اس حدیث کو شیخ طوسی نے تہذیب الاحکام: ج1 ص366 اور الاستبصار: ج1 ص30 پر لکھا ہے۔ نیز شیخ صدوق نے اس حدیث کے متن پر اپنی فقہی کتاب "المقنع" میں فتوی دیا ہے، اور علل الشرائع میں اسی سند کے ساتھ پہلی جلد میں باب نمبر 194 میں یہ حدیث نقل کی ہے۔
اس حدیث کی سند میں درست بن ابی منصور کے سوا سب ثقہ ہیں، درست بن ابی منصور کی توثیق وارد نہیں نیز وہ واقفی تھا۔
2) مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحُسَيْنِ الْفَارِسِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْمَاءُ الَّذِي تُسَخِّنُهُ الشَّمْسُ لَا تَتَوَضَّئُوا بِهِ وَ لَا تَغْتَسِلُوا بِهِ وَ لَا تَعْجِنُوا بِهِ فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَص
امام جعفر صادق(ع) سے مروی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "وہ پانی جسے سورج گرم کر دے، اس سے نہ وضو کرو اور نہ غسل، اور نہ ہی اس سے آٹا گوندھو کیونکہ یہ برص کی بیماری کا موجب ہوتا ہے۔" (کافی ج3 ص18)
اس روایت میں حسن بن ابی الحسین الفارسی مجہول ہیں۔ جبکہ یہی روایت شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں بالجزم نقل کی ہے جو امام خمینی سمیت متعدد جید علماء کے نزدیک معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں شیخ صدوق نے علل الشرائع کے باب نمبر 194 میں اس روایت کو محمد بن حسن الصفار کے ذریعے ابراھیم بن ہاشم سے نقل کیا، جنہوں نے آگے نوفلی و سکونی سے۔ سکونی کی اس سند پر علماء فقہی ابواب میں اعتبار کرتے ہیں، گو کہ سکونی سنّی (عامی) تھا۔ پس یہ روایت معتبر ہے۔
ان روایات کی وجہ سے فقہائے کرام سورج سے گرم شدہ پانی سے وضو کرنے کی کراہت کے قائل ہیں۔ شیخ صدوق علیہ الرّحمہ اس سلسلے میں حرمت کے بھی قائل رہے ہیں یعنی ان کے نزدیک حرام ہے کہ ایسے پانی سے وضو کیا جائے۔ ان کے موقف کی تائید شیخ بہائی رح نے بھی کی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ایسا قدم اٹھانا ممنوع ہے جس سے انسان موذی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے، لہذا یہ فقہاء حرمت کے قائل تھے۔ لیکن مشہور اور قوی یہی ہے کہ ایسے پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے۔
اس کی علّت آجکل کے زمانے میں سمجھنا مشکل نہیں ہے، سورج سے گرم شدہ پانی جراثیموں کے پھلنے پھولنے کیلئے بہترین ہے۔ بائیولوجی کے لحاظ سے ایسے پانی میں فنگس، امیبا اور بیکٹیریا کی افزائش بہترین انداز میں ہوتی ہے۔ اس پانی کے استعمال سے یہ خطرناک جراثیم جسم میں جا سکتے ہیں اور گوناگوں بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے کراچی میں ایک بیماری بہت عام ہے جس کو "نیگلیریا" کہتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی جان لیوا مرض ہے، اور اس کا کوئی مریض پاکستان میں آج تک بچ نہیں سکا۔ یہ مرض ایسے امیبا (جراثیم) کی وجہ سے ہوتا ہے جو سورج کی تمازت سے گرم شدہ پانی میں پھلتا پھولتا ہے، یہ اگر انسانی جسم میں داخل ہو جائے تو ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ دماغ کو کھا کر ختم کر دیتا ہے۔ اس بیماری کی علامتوں میں شدید سردرد، کمزوری، تیز بخار اور قے کا آنا شامل ہے۔
جب اس طرح کے کسی پانی سے وضو کیا جائے گا تو نیگلیریا کے ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہونے کے چانسز میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنا وضو کے مستحبات میں سے ہے جس کو لوگ واجب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ وضو کے کیسز میں اس پانی کے ذریعے نیگلیریا کے دماغ میں داخل ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں، اسی لئے پچھلے کئی سالوں سے کراچی اور زیریں سندھ میں نیگلیریا سے اموات کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور حکمت بھی ہے، وضو کیلئے ٹھنڈے پانی کی تاکید ہے۔ جب انسان ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے تو یہ جسم میں خون کا دورانیہ بڑھاتا ہے۔ ٹھنڈے پانی سے ہمارے ان اعضاء کا درجۂ حرارت کم ہوتا ہے اور اس عضو کے قریبی حصّوں سے خون کی ترسیل ان اعضاء کی طرف بڑھ جاتی ہے تاکہ یہ اعضاء بھی جسم کے طبیعی ٹمپریچر کی طرف لوٹ جائیں۔
غرض وضو سے جہاں ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے وہاں خالص اللہ کی اطاعت میں خاص ترتیب سے جسم دھونے اور مسح کرنے سے روحانی طہارت بھی حاصل ہوتی ہے۔ نیز یہ بے شمار طبی فوائد کا باعث بھی ہے، جو ایک مسلمان کیلئے مثبت نکات ہیں۔ اسلام کے تمام احکام بہترین حکمتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، انشاء اللہ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقانیت مزید آشکار ہوتی جائے گی، لیکن ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں پر قفل نہیں اور عقل و تدبّر کرنے والے ہیں۔
والسلام علی من اتبع الھدی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں