موضوع: تقیہ کے بارے میں کچھ عرائض
تحریر: سید جواد حسین رضوی
آج ایک محترم بھائی کی تحریر پر کسی نے ٹیگ کیا جس میں انہوں نے انوار نعمانیہ سے ایک موضوع حدیث کو نقل کر کے تقیہ کی نسبت غلط فہمیوں کا اظہار کیا۔ میرے یہ بھائی بہت فاضل شخصیت ہیں، مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ فریق مخالف کے اصول حدیث پر پرکھے بغیر انہوں نے اس پر پورا عقیدہ بنا دیا۔ حالانکہ موصوف کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اس بات کو بخوبی درک کرتے ہیں کہ مرور زمانہ سے شیعہ سنی کتب احادیث میں ڈھیروں جعلی اور موضوع روایات ڈالی گئیں، کبھی بھی کسی روایت کو محض کہیں کسی کی کتاب میں دیکھ کر نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
کچھ برادران نے درخواست کی کہ اس پر کچھ لکھوں، اب تقیہ کا موضوع ایسا ہے جس کا حق شاید ایک پوسٹ میں ادا نہ ہو سکے لیکن تقیہ کے بارے میں صرف غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
تقیہ کی دو اقسام ہیں؛
1) تقیہ خوفی
2) تقیہ مداراتی
2) تقیہ مداراتی
تقیہ خوفی سے مراد وہ تقیہ ہے جو کسی ڈر اور خوف کی وجہ سے انجام دیا جائے، جہاں جان و مال و آبرو کا کوئی خطرہ ہو۔ مثلا کسی کو ڈر ہے کہ وہ کوئی عقیدہ کسی جگہ بیان کرے تو قتل کیا جائے گا اور وہ اپنے عقیدے کو چھپائے تو اس کو "تقیہ خوفی" کہتے ہیں۔ اس قسم کا تقیہ کبھی جائز بھی ہو سکتا ہے، کبھی واجب اور کبھی حرام بھی ہو سکتا ہے۔ شیعہ علماء نے اس پر تفصیل سے کلام کیا ہے کہ کن کن حالات میں کیا احکام ہوں گے۔ یعنی یہ صورتحال پر منحصر ہے کہ کن مواقع اور کن شخصیات کیلئے حلال ہے اور کہاں حرام ہے۔
مثلا جہاں عقیدے کے اظہار کا فائدہ نہ ہو، اور مسلمان کی عددی تعداد کم ہو یا پھر یوں کہیں کہ اس شخص کی جان دین اور انسانیت کے لئے ضروری ہو تو اس کو چاھئے تقیہ کرے۔ لیکن جہاں حق کا اظہار ضروری ہو وہاں تقیہ خوفی حرام ہوگا اور حق کا اظہار واجب ہوگا۔ جو ان دونوں کیٹگری میں نہیں آتے ان کیلئے تقیہ خوفی محض مباح ہے، یعنی ان کو اختیار ہے۔
عموما جب بھی تقیہ کہا جاتا ہے تو تقیہ خوفی ہی ذہن میں آتا ہے۔
تقیہ کی دوسری قسم سے لوگ زیادہ واقف نہیں، یہ تقیہ مداراتی ہے جس سے مراد دیگر عقائد، مسالک، مذاہب اور ادیان کے لوگوں کے ساتھ احترام اور ہم زیستی کا تعلق ہے۔ جو کچھ بھی شیعہ متون میں تقیہ کی اہمیت کے بارے میں ہے وہ تقیہ مداراتی ہے۔ اس تقیہ کی اتنی اہمیت ہے کہ امام خمینی جیسے فقیہ نے تقیہ مداراتی کو ہر زمانے میں واجب کہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تقیہ نہ صرف مذموم نہیں ہے بلکہ ممدوح ہے، اور اگر تمام مسالک اور تمام مکاتیب اس تقیہ پر عمل کریں تو اس سے بہتر معاشرہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس تقیہ کا مدار "Tolerance" اور "Respect" کے گرد گھومتا ہے، جس کی تاکید اور ترویج جدید معاشروں میں کی جاتی ہے۔
اب ہمارے فاضل دوست نے ایک موضوع روایت کا انتخاب کیا، یہاں ہم چند معتبر روایات پیش کرتے ہیں۔
قال سمعت أبا عبداللّه علیه السلام یقول إیّاکم أن تعملوا عملاً نعیر به فانّ ولد السوء یعیر والده بعمله کُونوا لمَنْ انقطعتم الیه زینا ولا تکونوا علیه شینا، صلّوا فی عشائرهم وعودوا مرضاهم واشهدوا جنائزهم ولا یسبقونکم إلی شیء الی الخیر من الخیر فأنتم أولی به منهم واللّه ما عُبد اللّه بشیء أحبّ إلیه منَ الخبأ، قلت وما الخبأ؟ قال التقیّه
امام جعفر صادق(ع):"ان کاموں سے بچو جن کی وجہ سے ہماری بازپرس ہو، جیسے کہ بچوں کے برے کاموں کی وجہ سے ماں باپ کی باز پرس ہوتی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے تمہارے ساتھ رابطہ ختم کیا باعث زینت بنو، بداخلاق اور دشمن نہ بنو۔ ان کے ساتھ ان کے قبائل میں نماز پڑھو، ان کے مریضوں کی عیادت کرو، ان کے مردوں کے جنازے کی تشییع کرو۔ وہ تم سے نیکی میں سبقت نہ لے جائیں، کیونکہ تم نیک کاموں کے زیادہ سزاوار ہو۔ قسم بخدا اللہ کی کبھی "خبا" سے بڑھ کر عبادت نہیں ہوئی۔ پوچھا گیا کہ خبا کیا ہے، آپ نے فرمایا: تقیہ۔"(وسائل الشیعہ: ج11 باب 26)
گو کہ ایسی روایات فراوان ہیں، اور اس مختصر تحریر میں ان سب کا ذکر نہیں ہو سکتا لیکن اس روایت میں غور کرنے سے ہی غرض و غایت سمجھ آتی ہے کہ جس تقیہ کی اس قدر تاکید اور حکم ہے وہ درحقیقت کیا ہے۔ یہی ہم زیستی اور احترام کا حکم ہے جو ہمارے آئمہ ع نے ہمیں دیا۔ تقیہ مداراتی کے ضمن میں روایات کی ایک تعداد ایسی ہے جس میں اہلسنت کے ساتھ نماز پڑھنے کا خاص حکم ہے تاکہ مسلمان مسالک میں احترام کی فضا قائم رہے۔
عن اسحاق بن عمّار قال: قال لی أبوعبداللّه علیه السلام یا اسحاق أتُصلّی معهم فی المسجد، قال صلّ معهم فانّ المصلّی معهم فی الصفّ الأوّل کالشاهر سیفه فی سبیل اللّه
اسحاق بن عمار کہتے ہیں کہ مجھ سے امام صادق(ع) نے پوچھا کہ اے اسحاق کیا تم ان کے ساتھ (ان کی) مسجد میں نماز پڑھتے ہو؟ پھر فرمایا کہ ان کے ساتھ نماز پڑھا کرو کیونکہ جو ان کے ساتھ صف اوّل میں نماز پڑھے گا وہ ایسا ہی ہے جس نے راہ خدا میں اپنی تلوار تیز کی ہو۔
ایسی روایات فراوان ہیں، جن سے استدلال کرتے ہوئے امام خمینی ہر زمانے اور حالت میں تقیہ مداراتی کے وجوب کے قائل ہوئے اور آيت اللہ خوئی نے بھی فرمایا کہ تقیہ محض خوف اور تقیہ کیلئے نہیں بلکہ اصل ملاک اہلسنت کے ساتھ مدارات اور مجاملہ ہے۔ (تنقیح ج4 ص316) بعض روایات اس کے معارض بھی ہیں لیکن وہ سند کے مقابلے میں ان روایات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
یہی وہ تقیہ ہے جس کا حکم ہے اور جس کے بارے میں فرمایا گيا "علیکم بالتقیّه فإنّه لیس منّا من لم یجعلها شعاره" ۔۔۔۔۔ یعنی وہ شخص ہم میں سے نہیں جو تقیہ کو اپنا شعار نہیں بناتا، اس سے مراد یہی تقیہ ہے جو نہ صرف اہلسنت بلکہ ہر مسلک اور دین کے مقابلے میں ہے۔ یہی وہ مدارات ہیں جن کا حکم رسول اللہ(ص) کو ہوا۔
آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین کا صحیح فہم عطا کرے اور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم و دائم رکھے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
نوٹ: یہ تحریر بعض برادران کی درخواست پر چلدی میں لکھی گئی لہذا غلطیوں کیلئے معافی کا طلبگار ہوں۔
کیا انوار نعمانیہ میں ہے کہ امام مہدی کے ہاتھ پر رسالت ماب بائیٹ کریں گے
جواب دیںحذف کریں