عورت سے مشورہ لینے کی ممانعت پر ایک نظر
تحریر: سید جواد حسین رضوی
کچھ دن پہلے کسی محترم بھائی نے اس بارے میں استفسار کیا کہ کیا مولا علی(ع) نے واقعی عورتوں سے مشورہ لینے سے منع کیا ہے۔ ہمیں نہج البلاغہ میں ایک روایت ملتی ہے جس کی بنا پر عموما یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے؛
فانّ رأیهن یجرّ الی الافن و عزمهنّ الی وهن
"ان عورتوں کی آراء کمزوری کی طرف مائل اور ان کا عزم سست ہے۔"
نہج البلاغہ کی اسناد چونکہ موجود نہیں ہیں لہذا اس پر کوئی کلام ممکن نہیں، لیکن اس سے ملتی جلتی ایک روایت امام صادق(ع) سے بھی منسوب ہے؛
وَ عَنْهُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَامُورَانِيِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ صَنْدَلٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدُ إِيَّاكُمْ وَ مُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّ فِيهِنَّ الضَّعْفَ وَ الْوَهْنَ وَ الْعَجْزَ
اس روایت میں ابی عبداللہ جامورانی قمیوں کی طرف سے متہم بہ غلو تھا اور ضعیف ہے، حسن بن علی بن ابی حمزہ ایک گمراہ فرقہ واقفیوں کا سردار تھا اور یہ بھی ضعیف ہے۔
دوسری طرف شیعہ سنی منابع میں بعض دیگر روایات بھی ہیں جن میں سے ایک مولا علی(ع) سے منسوب ہے جس میں وہ واضح طور پر خواتین سے مشورہ لینے سے منع فرما رہے ہیں؛
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَمَّنْ ذَكَرَهُ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْمُخْتَارِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فِي كَلَامٍ لَهُ اتَّقُوا شِرَارَ النِّسَاءِ وَ كُونُوا مِنْ خِيَارِهِنَّ عَلَى حَذَرٍ وَ إِنْ أَمَرْنَكُمْ بِالْمَعْرُوفِ فَخَالِفُوهُنَّ كَيْ لَا يَطْمَعْنَ مِنْكُمْ فِي الْمُنْكَر
امام صادق(ع) نے فرمایا کہ امیرالمؤمنین (امام علی ع) کا فرمان ہے کہ بری عورتوں سے دور رہو اور نیک عورتوں سے ہوشیار رہو، اگر تمہیں اچھی چیز کا بھی مشورہ دیں تو اطاعت نہ کرو تاکہ غلط مشوروں کی اطاعت کی بھی تم سے امید نہ رکھیں۔ (اصول کافی: ج5 ص517)
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اس روایت کی سند میں ارسال (عمن ذکرہ) ہے، جس کی وجہ سے روایت ضعیف ٹھہرے گی۔ اصول کافی کے اسی باب میں ساتویں حدیث میں یہی الفاظ امام صادق(ع) سے منسوب ہیں، لیکن اس روایت کی سند میں بھی ارسال (رفع) ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مجہول الحال راوی بھی ہے، پس یہ روایت بھی ضعیف ٹھہرتی ہے۔
شیخ کلینی نے کافی کی پانچویں جلد میں عورتوں سے مشورہ لینے کی مذمت میں پورا ایک باب باندھا ہے جس میں 12 روایات جمع کی گئی ہیں، ان میں سے دو صحیح ہیں اور باقی ضعیف یا قابل مناقشہ ہیں۔ اہلسنت کی کتب میں بھی ڈھیروں اور بے شمار روایتیں اس نوعیت کی ہیں جیسے رسول اللہ(ص) کسی بھی جنگ پر جانے سے پہلے ازواج سے مشورہ کرتے تھے، اور جو وہ کہتے تھے اس کے برخلاف عمل کرتے تھے۔ خیر اس روایت کا متن قابل مناقشہ ہے اور بعض دیگر روایات سے معارض ہیں جن کی طرف ہم اشارہ کریں گے۔
---------------------------------------------
یہ تو ان روایات کی اسناد اور متون کا اجمالی سا جائزہ تھا۔ ہم اسی پر بنا رکھتے ہیں کہ کم و بیش اس طرح کی باتیں معصومین ع سے صادر ہوئی ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ تمام عورتوں کے بارے میں ہے؟ اگر ایک طرف ان پڑھ اور ناتجربہ کار مرد آپ کو مشورہ دے رہا ہو اور دوسری طرف ایک جہاندیدہ اور پڑھی لکھی خاتون (فرض کریں ایک پی ایچ ڈی) آپ کو مشورہ دے رہی ہو تو کیا ان روایات کا مفاد یہ ہے کہ ان پڑھ شخص کی بات مانیں اور اس جہاندیدہ خاتون کی بات کو کلّی رد کیا جائے؟
ہمیں اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ان روایات کے صدور کے وقت عورتوں کی حالت کو جاننا ہوگا۔ جس طرح قرآن کی آيات کے صحیح ادراک کے لئے شان نزول اور نزول کے وقت عربوں کے حالات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، ویسے ہی روایات کا صحیح مفاد سمجھنے کیلئے صدور کے زمانے کے حالات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
اس دور میں عرب اپنی خواتین کو بالکل جاہل رکھتے تھے، یہ گھر کے کام کاج تک مقید تھیں۔ ایک عورت نہ تو جنگ کیلئے باہر نکلتی اور نہ معاش کیلئے، اس لئے تجربہ نہ ہونے کی صورت میں خواتین کے مشورے ناقص ہوتے تھے جو اکثر اوقات ناقابل عمل ہوتے تھے۔ حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے کہ عقل کے دو حصّے ہیں، ایک عقل فطری ہے جس کو لے کر انسان پیدا ہوتا ہے، اس عقل میں مرد اور عورت برابر ہیں، جبکہ ایک عقل تجربے سے حاصل ہوتا ہے۔
امام علی(ع): العقل عقلان عقل الطبّع و عقل التّجربه ۔۔۔۔۔ یعنی عقل دو طرح کی ہیں، ایک فطری اور طبیعی عقل (جس کو لے کر ہم پیدا ہوتے ہیں) اور دوسری وہ عقل ہے جو تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔ (بحارالانوار: ج 87 ص9)
اسی طرح آپ(ع) نے فرمایا: العقل غریزة تزید بالعلم و التجارب ۔۔۔۔ یعنی عقل کی ایک سرشت ہے جس میں اضافہ علم اور تجربے سے ہوتا ہے۔ (غرر الحکم ص 56)
چنانچہ معصومین(ع) کی عورتوں سے مشورہ لینے کی مذمت والی روایات سے مراد خواتین میں عقل تجربی کی کمی ہے جس کی وجہ سے اس زمانے میں خواتین درست مشورہ نہیں دے سکتی تھیں۔ گویا جو خواتین عقل اور تجربہ اچھا رکھتی ہوں ان سے مشورہ لینے میں حرج نہیں، جس کی تائید خود مولا علی(ع) کے اس کلام سے ہوتی ہے؛
ایاک و مشاورة النساء الاّ من جرّبت بکمال عقل
عورتوں سے مشورہ مت کرو مگر جو کمال عقل کے لحاظ سے آزمودہ ہوں۔ (نہج البلاغہ: مکتوب 31، بحارالانوار ج100 ص253)
اس قول سے ان تمام روایات کی غرض و غایت سمجھ آتی ہے، یعنی ان خواتین سے مشورہ لینے سے منع کیا گيا جن کے اندر علم اور تجربہ کی کمی ہے، کیونکہ وہ کسی نہ کسی طرح آپ کو ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں جس سے آپ کا ہی نقصان ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ خواتین علم اور تجربہ رکھتی ہوں تو ان سے مشورہ لینا غلط نہیں۔
اس زمانے کے عظیم فلسفی مجتہد آیت اللہ جوادی آملی اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "اگر عورتیں صحیح تعلیم اور محکم تربیت کے زیر سایہ پرورش پائیں اور مردوں کی طرح سوچیں اور مردوں کی طرح تعقل و تدبر رکھتی ہوں تو اس لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں فرق نہیں رہے گا اور کبھی فرق دیکھا جاتا ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے خود مردوں میں دیکھا جاتا ہے، مثلا مستعد عورتیں حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں میں پہنچیں اور مردوں کی طرح علوم حاصل کریں اور مشترک دروس میں علم حاصل کریں تو پھر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ روایات جو عورتوں کی مذمت اور ان سے مشورہ کرنے سے پرہیز کرنے میں وارد ہوئی ہیں اور وہ دلائل جو ان کے عقول کی نارسائی کے بارے میں ہم تک پہنچے ہیں, اطلاق رکھتے ہوں اور قطعی طور پر ایسی عورتیں مستثنی ہوں گی اور عورتیں بھی اس بارے میں مردوں سے مختلف نہیں ہوں گی."(نصیحتیں ,ص,١٦٩,١٧٠)
یہ اصول سب پر لاگو ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اگر مرد میں بھی علم اور تجربہ کی کمی ہے تو اس سے مشورہ لینا آپ کیلئے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ جیسے کم عقل عورتوں سے مشورہ لینے کی ممانعت ہے ویسے ہی کم عقل مردوں کی بھی مذمت ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں امام علی(ع) کے متعدد کلام میں ذکر ہے۔ مثلا خطبہ نمبر 97 اور 131 میں مردوں کو مخاطب کر کے سرزنش کی گئی کہ تم لوگوں کے اجسام یہاں اور عقلیں غائب رہتی ہیں(یعنی عقل نہیں رکھتے)۔
بنابریں مشورہ کرنے کے معاملے میں مرد اور عورت برابر ہیں، جو شرائط ہیں وہ عقل، علم اور تجربے کی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ روایات جن میں مشورہ لینے کے لئے دیگر شرائط کا ذکر ہے اور کچھ صفات رکھنے والوں سے مشورے کی ممانعت ہے وہاں مرد اور عورت کے درمیان تقسیم نہیں۔ مثلا احادیث میں حکم ہے کہ متقی افراد سے مشورہ لیا جائے جو ڈرپوک اور خسیس نہ ہوں۔
اور پھر امور زندگی میں خواتین سے مشورہ لینے کا حکم قرآن میں موحود ہے؛
فَإِنْ أَرادا فِصالًا عَنْ تَراضٍ مِنْهُما وَ تَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَیهِما
اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ (سورہ بقرہ آیت 233)
لہذا اگر کسی روایت کا مفاد واضح نص قرآنی سے ٹکرائے تو وہ قابل قبول نہیں ہوتا۔
اور پھر ہمیں خود رسول اللہ(ص) کی زندگی میں ملتا ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے بعد آپ(ص) نے اصحاب کو بال تراشنے اور قربانی کا حکم دیا اور لوگوں نے عمل نہیں کیا تو اپنی زوجہ ام المؤمنین حضرت امّ سلمہ (رض) سے اس کا ذکر کیا۔ جناب امّ سلمہ(س) نے مشورہ دیا کہ آپ سب سے پہلے خود بال ترشوائیں (حلق کریں)، مسلمان آپ کی پیروی کریں گے۔ آپ(ص) نے ایسا ہی کیا اور معاملہ حل ہو گیا۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے اطراف میں خواتین کی عزّت اور ان کا جائز مقام دینے کی توفیق عنایت کرے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں