منگل، 22 مئی، 2018

کیا آئمہ(ع) انبیاء سے افضل ہیں


موضوع: کیا آئمہ(ع) انبیاء سے افضل ہیں
تحریر: سید جواد حسین رضوی
آئمہ ع انبیاء سے افضل ہیں یا نہیں اس بابت ہمارے ہاں تین آراء پائی جاتی ہیں؛
1) انبیاء آئمہ سے افضل ہیں۔ یہ رائے آل نوبخت کی تھی جو غیبت صغری و کبری میں علماء کا مشہور خاندان تھا۔
2) آئمہ کچھ انبیاء سے افضل ہیں، لیکن بعض انبیاء بالخصوص اولو العزم انبیاء سے افضل نہیں۔ یہ رائے ایک جماعت کی ہے جس میں موجودہ صدی کے آيت اللہ اسحاق فیاض ہیں۔ تیجانی سماوی نے بھی ایک جگہ اس رائے کا اظہار کیا ہے۔
3) آئمہ تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ یہ رائے معاصر علماء میں مقبول و مشہور ہے۔
میرا عقیدہ یہ ہے آئمہ ع نبی نہیں بھے لیکن نوعیت کے لحاظ سے آئمہ اوصیاء کی کیٹگری میں آتے ہیں۔ یعنی ہر مشہور نبی کے کچھ جانشین ہوتے تھے، ویسے ہی حضرت محمد(ص) کے جانشین ہمارے آئمہ ع ہیں، ہمارے آئمہ کا سلسلہ امام علی ع سے شروع ہوتا ہے اور امام زمانہ عج پر ختم ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت محمد(ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں، لہذا ہمارے آئمہ بھی دیگر اوصیاء سے افضل ہیں۔ جیسے رسول اللہ(ص) کو امام الانبیاء کہا گيا ویسے حضرت علی(ع) کو امام الاوصیاء کہا گیا۔ جب یہ مانا جائے کہ وہ تمام اوصیاء سے افضل ہیں، تو بہت سے اوصیاء ایسے بھی گزرے جو نبی تھے، لہذا آئمہ ان اوصیاء سے افضل ہوئے جو نبی تھے۔
امام صادق(ع) فرماتے ہیں؛ وَ مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيّاً خَيْراً مِنْ مُحَمَّدٍ (ص) وَ لَا وَصِيّاً خَيْراً مِنْ وَصِيِّهِ
"اللہ تعالی نے کسی نبی کو محمد(ص) سے بہتر مبعوث نہیں کیا، اور کسی وصی کو (رسول اللہ کے) وصی سے بہتر قرار نہیں دیا۔" (بحارالانوار: ج16 ص341)
بہت سے انبیاء ایسے بھی تھے جو مخصوص گروہ یا شہر یا گاؤں کے لیے مبعوث ہوئے، یقینا آئمہ ع کو ہم ان سے افضل قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن بعض انبیاء جن کا مقام اپنی جگہ مسلّم ہے جیسے حضرت ابراھیم ع، ان سے آئمہ کو افضل قرار دینا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ یہ انبیاء بیک وقت نبوت، رسالت، شریعت یہاں تک کہ امامت کا منصب بھی رکھتے تھے، اور صاحب کتاب بھی تھے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ امام ہر وہ شخص ہے جس کو اللہ ہدایت پر مامور کرے۔ اللہ تعالی کبھی نبوت عطا کر کے ہدایت پر مامور کرتا ہے، کبھی رسالت عطا کر کے، یا پھر اللہ کا کوئی نبی یا رسول کسی اور شخص کو اللہ کے حکم سے ہدایت پر مامور کرتا ہے۔ اس طرح سے دیکھیں تو ہر نبی امام ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں سورہ انبیاء میں اللہ تعالی مختلف انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے؛
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ
اور ان کو ہم نے امام بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کو نیک کام کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کا حکم بھیجا۔ اور وہ ہماری عبادت کیا کرتے تھے۔ (سورہ انبیاء: 73)
جو افراد آئمہ ع کو تمام انبیاء سے افضل مانتے ہیں وہ دلیل میں حضرت ابراہیم ع کو امامت ملنے والی آيت کا ذکر کرتے ہیں جس میں ابتلاء و آزمائش کے بعد ان کو امامت ملی۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقام امامت نبوت سے بڑا ہے۔ پھر آگے آپ لوگ اس قول کے مطابق نتیجہ سازی کرتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے کہ اللہ نے اس قدر امتحانات کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو امامت سے سرفراز کیا۔
ہم یہ آیت تو طمطراق سے نقل کرتے ہیں لیکن وہ آیت نہیں دیکھتے جو تمام انبیاء کو امام کہتی ہے اور جس سے متعدد انبیاء کا بغیر ابتلا امام قرار پانا ثابت ہوتا ہے۔
اب جب تمام انبیاء بھی امام ہوئے تو بات ہی ختم ہو گئی۔ جب کئی انبیاء امام بھی ہوئے تو وہ بیک وقت نبوت و رسالت و شریعت و امامت سے سرافراز ہوئے۔ تو پھر ایک منصب رکھنے والا افضل ہوا یا متعدد مناصب رکھنے والا؟
اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہمارے آئمہ ع بعض انبیاء سے افضل قرار دیے جا سکتے ہیں، لیکن بعض انبیاء ایسے تھے جن سے ہم ان کو افضل قرار نہیں دے سکتے۔ مثلا حضرت ابراھیم(ع) جو رسول اللہ(ص) کے بعد باقی انبیاء سے افضل ہیں۔ ان انبیاء سے افضل قرار دیے جانے کی ہمارے پاس ٹھوس اور مستحکم دلیل نہیں ہے۔ لہذا ہم درج بالا آراء میں سے دوسری رائے کو زیادہ معتدل اور مبنی بر حقیقت قرار دیں گے۔
لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ہمیں شخصیتوں کے درمیان فضیلت کے تعین سے گریز کرنا چاہیے، ان سب پر ایمان لانا چاہیے لیکن بطور خاص اپنے زمانے کے نبی اور امام سے عقیدت و پیروی رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے؛
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَ ما أُنْزِلَ إِلَيْنا وَ ما أُنْزِلَ إِلى‌ إِبْراهيمَ وَ إِسْماعيلَ وَ إِسْحاقَ وَ يَعْقُوبَ وَ الْأَسْباطِ وَ ما أُوتِيَ مُوسى‌ وَ عيسى‌ وَ ما أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (خدائے واحد) کے فرمانبردار ہیں۔ (سورہ بقرہ؛ 136)
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ


4 تبصرے:

  1. نہایت ہی رکیک نظریہ موصوف کا ۔۔۔آئمہ علیھم السلام بعد از نبئ خاتم سب سے افضل ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. بڑے قابل بن رہے ہو آتا جاتا کچھ نہیں ہے۔ ابوجہل کی اولاد حضرت ابراہیم ع کو امام بنانے والی دلیل ہی نہیں ہے ایک لاکھ دلیلیں میرے پاس ہیں۔ ابوجہل کی اولاد!!! ائمہ ع سب کے سب محمد ص ہیں یعنی سارے انبیاء سے افضل ہیں۔ جو مثل نبی ہون جو محمد اور علی ع اور ائمہ ایک ہی نور ہوں اول ما خلق اللہ نوری۔ دوسرے یہی ائمہ ع عالین تھے جن پر آدم ع کو سجدہ نہیں تھا۔ علی ع نہ ہوتے تو محمد مصطفی ص کو بھی خلق نہ کیا جاتا اور اگر فاطمہ ع نہ ہوتیں تو ان دونوں کو بھی نہ بنایا جاتا۔ تمام انبیا رسول اللہ کا پسی ہ ہیں اور ائمہ ع خون ہیں۔ تمام انبیاء کی مدد علی ع نے کی پڑھ سورہ حدید کی آیت 25 سورہ حدید کی آیت 80
    واللہ اس کے لئے ایک لاکھ دلیلیں۔ دے سکتا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ کمینہ شیعہ نہیں ہے واللہ یہ شیعہ نہیں ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ علی ولی اللہ کی قسم یہ شیعہ نہیں ہے اس سے کوئی دھوکہ نہ کھائے۔ شیعہ عقیدہ میں مولا عباس ع مولا قاسم ع مولا علی اصغر ع رسول اللہ ص کے علاؤہ سارے انبیاء سے افضل و برتر ہیں اس کے لئے بھی ہمارے پاس دلائل ہیں۔ قرآن و حدیث سے بھی عقلی۔ ھی

    جواب دیںحذف کریں
  4. دیکھ آلو کے پٹھے دیکھ تیرا جواب
    https://www.facebook.com/share/v/159odpoZh1/

    جواب دیںحذف کریں