موضوع: سیاہ لباس کا حکم
تحریر: سید جواد حسین رضوی
ہماری کتب میں سیاہ لباس کی ممانعت پر کافی روایات ہیں۔ لیکن ان کی سند پر نظر دوڑائی جائے تو سب کی سب ضعیف ہیں، اسی لئے مراجع نے ان کو کراہت پر محمول کیا ہے۔ آقای جواد تبریزی کے مطابق سند کے ضعف کی وجہ سے کراہت بھی نہیں۔ بہت سے شیعہ علماء نے عزاداری میں اس امر کو مستثنی کیا ہے، اور بعض کے نزدیک عزاداری میں سیاہ لباس کا استعمال چونکہ غم کے مظاہر میں سے ہے تو اس کا استحباب اس کی کراہت سے زیادہ ہے۔
اس فقہی اختلاف سے قطع نظر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تواریخ میں عباسیوں نے سیاہ رنگ کو اپنا شعار قرار دیا تھا۔ ان کے جھنڈے کا رنگ سیاہ تھا اور ساتھ ہی سیاہ لباس پہننے پر سرکاری توجہ حاصل رہی، ان کے خلفاء و امراء سیاہ لباس زیب تن کرتے تھے۔ بعید نہیں کہ روایات میں یہ ممانعت ان عباسی خلفاء سے مشابہت و متابعت کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے ہو جیسا کہ حذیفہ بن منصور کی روایت میں ذکر ہے کہ جب امام جعفر صادق(ع) کو عباسی خلیفہ منصور نے بلایا تو آپ نے سیاہ لباس کو جہنمیوں کا لباس کہا۔ اس روایت کو شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں مرسل اور علل الشرائع میں مسند نقل کیا۔ امام جعفر صادق(ع) ایک اور جگہ فرماتے ہیں؛
قال: أوحى الله عزوجل إلى نبي من أنبيائه قل للمؤمنين لا تلبسوا لباس اعدائي ولا تطعموا طعام أعدائي ولا تسلكوا مسالك أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائی
امام صادق ع سے منقول ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ وہ مؤمنین سے کہے کہ وہ میرے دشمن کے لباس جیسا نہ پہنیں، ان سے مخصوص کھانے نہ کھائیں، اور میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو مبادا کہیں وہ میرے دشمن نہ ہوجائیں جیسے وہ میرے دشمن ہیں۔
علل الشرائع جلد 2 ص 348
اس موضوع پر روایات فراوان ہیں کہ اہل جور و ظلم کے ساتھ متابعت نہ کی جائے تو بعید نہیں کہ سیاہ لباس کی مخالفت اسی وجہ سے ہو کہ عباسی خلفاء کا یہ شعار رہا ہے۔ یہ بات اہلسنت میں بھی بہت معروف رہی ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل کے بارے میں لکھتے ہیں؛
وقد كره أحمد رضي الله عنه لبس السواد في الوقت الذي كان شعار الولاة والجند
احمد بن حنبل نے کالے کپڑے کو مکروہ قرار دیا جب یہ حکمرانوں اور فوج کا شعار ہو۔
شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص 385
اب جبکہ یہ ثابت ہے کہ خلفائے جور کا شعار سیاہ لباس رہا اور اس کی ممانعت ان کی متابعت کی وجہ سے ہوئی تاکہ گریز پسندی کا راستہ اختیار کیا جائے تو پھر آج یہ موضوع بھی ختم ہو چکا ہے۔ عباسیوں کے بعد کبھی ظالم حکمرانوں کا شعار سیاہ لباس نہیں رہا، لہذا ہمارے زمانے میں اس کی کراہت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا چاہے عزاداری میں ہو یا عزاداری کے علاوہ ہو۔ موجودہ صدی کے عظیم فقیہ آیت اللہ سید علی سیستانی فرماتے ہیں "لم تثبت الكراهة حتى في غير تلك الايام" یعنی اس کی کراہت ان (عزاداری کے) ایام کے علاوہ بھی ثابت نہیں ہے (کنز الفتاوی)۔
علاوہ ازیں یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سیاہ عمامہ اور سیاہ چادر (کملی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ نیز خواتین کے لئے سیاہ چادر بہترین
حجاب ہے لہذا اس کی کلّی مخالفت درست نہیں ہے۔
حجاب ہے لہذا اس کی کلّی مخالفت درست نہیں ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں