موضوع: مرزا حسن رشدیہ؛ ایران میں جدید تعلیم کے ایک نامور سپوت
تحریر: سید جواد حسین رضوی
تحریر: سید جواد حسین رضوی
میرزا حسن رشدیہ ایک عہد ساز شخص تھے جن کی بہت زیادہ خدمات تعلیم و تربیت کے حوالے سے رہی ہیں۔ آپ تبریز کے ایک بڑے عالم کے بیٹے تھے، بلکہ خود بھی ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے والد آپ کو نجف بھیجنا چاہتے تھے لیکن آپ اور آپ کے والد دونوں اس بات کو درک کرتے تھے کہ قدیم تعلیمی نظام میں نقائص ہیں جن کا دور ہونا ضروری ہے، تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار ہونا چاھئے۔ آپ نجف جانے کے بجائے والد کی اجازت سے بیروت چلے گئے جہاں فرانسیسیوں نے ٹیچرز کی تربیت کیلئے ایک کالج کھول رکھا تھا جو بہت مشہور تھا، آپ وہاں گئے اور جدید طریقۂ تعلیم سیکھا، قاہرہ اور استنبول کا بھی سفر کیا، اور پھر آرمینیا میں قفقاز کے مسلمانوں کیلئے جدید اسکول کھولا جہاں فارسی کی جدید خطوط پر تعلیم دی جاتی تھی۔ آپ نے جدید روش سے استفادہ کرتے ہوئے فارسی کی صوتی تعلیم کا طریقہ ایجاد کیا۔
ایران کے قاجاری شہنشاہ ناصر الدین شاہ قاجار جب سفر کے دوران آرمینیا آئے تو میرزا حسن کے کام سے بہت متاثر ہوئے، ان کو تہران آنے کی دعوت دی لیکن کچھ لوگوں نے اس کے کان بھرے کہ میرزا حسن جدید نظام تعلیم کی حمایت کرتا ہے اور اس کی ترویج آپ کی مملکت میں آپ کیلئے نقصاندہ ہے۔ شاہ اپنے اس کام سے منصرف ہوتا ہے اور میرزا حسن کیلئے بہت ساری مشکلات کھڑی کرتا ہے۔
میرزا حسن اپنے وطن تبریز واپس آتے ہیں، اور وہاں جدید مدارس اور اسکول کھولتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ بہت مختصر وقت میں بچوں کو فارسی لکھنا پڑھتا سکھاتے تھے۔ جب ان کی شہرت بہت بڑھتی ہے تو دیگر قدیم مدارس ان کے خلاف محاذ کھولتے ہیں، عوام کو میرزا کے خلاف بھڑکاتے ہیں کہ یہ ہمارے دین کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور بچوں کو فرنگی زبان سکھاتا ہے، سائنس کی تعلیم دے کر ان کو مذہب سے دور کر رہا ہے۔ یہ سازش بہت کام آئی اور ان کے اسکول کے خلاف احتجاج و ہنگامہ ہوا اور میرزا کو مشہد بھاگ کر جانا پڑا۔ واپس آ کر وہ ہر دفعہ ایک نیا اسکول کھولتا اور جب ہنگامہ ہوتا تو متعدد دفعہ مشہد اور ایک دفعہ جمہوریہ آذربائجان اور قفقاز کے علاقوں میں پناہ لیتا ہے جو اس وقت تک مکمل روسی تسلط میں نہیں تھے اور ایران سے ان علاقوں میں آنا جانا عام سی بات تھی۔
اس دوران مشہد اور قفقاز کے علاقوں میں مختلف اسکول کھولے، اور پھر تہران میں بھی جدید اسکول کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اواخر میں اس کے خلاف الزام لگا کہ وہ امام زمانہ عج کا مخالف ہے اور بابی ہو گیا ہے (ایک منحرف فرقہ)۔ اس کے اسکولوں پر حملے ہوتے ہیں، کئی طالبعلم شہید بھی ہوتے ہیں، اور فتوے بھی دیے جاتے ہیں کہ فرنگی زبان سکھا کر یہ بچوں کو گمراہ کر رہا ہے، اور فزکس و کیمسٹری جیسی چیزیں پڑھا کر لوگوں کو دین سے دور کر رہا ہے۔
آخری عمر میں قم مقیم ہوتے ہیں، اور وہاں بھی اسکول کی بنیاد رکھتے ہیں، جس پر ہر دفعہ کی طرح ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخرکار قم میں وفات پا جاتے ہیں۔
یہ تھا ان کا مختصر تعارف لیکن کلّی طور پر ان کا ہندوستان میں سرسید احمد خان سے موازنہ کرنا ٹھیک نہیں۔ سرسید کو ان پر ایک جہت سے فوقیت ہے اور ایک جہت سے میرزا حسن کو سرسید احمد خان پر فوقیت ہے۔ سرسید کو ان پر فوقیت یہ ہے کہ سرسید صرف پرائمری اسکول تک محدود نہ رہے، بلکہ یونیورسٹی کی صورت میں مربوط، مکمل اور اعلی تعلیمی نظام دیا، جبکہ میرزا حسن صرف اسکول تک محدود رہے اور ابتدائی تعلیم پر ان کا فوکس رہا۔
جبکہ دوسری طرف ایک جہت سے میرزا حسن کو سرسید پر فوقیت حاصل ہے، اور وہ اس طرح کہ میرزا حسن ایران میں اس زمانے میں کام کر رہے تھے جب اہل یورپ کو نہایت حقارت اور دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی جدید اسکول نہیں تھا اور ایران کا بادشاہ اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کرتا تھا بلکہ اس کو اپنی مملکت کیلئے خطرہ سمجھتا تھا۔ جبکہ سرسید احمد خان کے پاس برطانوی راج کی صورت میں ایک پشت پناہ تھی اور ان کے دور میں ہندوستان کے طول و عرض میں جدید اسکول و کالج و یونیورسٹیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ سرسید کو انتظامی حوالے سے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، صرف اندرونی طور پر بعض جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ میرزا حسن تن تنہا اس کام کو خدمت سمجھ کر انجام دے رہے تھے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں