موضوع: وحی و کلام خداوندی کی ماہیت
تحریر: سید جواد حسین رضوی
سوال) وحی کی ماہیت کے بارے میں کچھ بتائیے۔ کیا اللہ تعالی کا کلام آواز کی صورت میں ہے جبکہ آواز کا تعلق مادیات سے ہے؟ اگر نہیں تو حضرت موسی ع کو درخت سے آواز کیسے آئی؟
جواب) امام علی(ع) کا کلام اس سلسلے میں واضح ہے، فرماتے ہیں؛
"وہ جس چیز کو ایجاد کرنا چاہتا ہے اس کو "کن" کہ دیتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔ نہ کوئی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے اور نہ کوئی ندا سنائی دیتی ہے۔ اس کا کلام درحقیقت اس کا فعل ہے جس کو اس نے ایجاد کیا ہے اور واس کے پہلے سے ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ورنہ وہ بھی قدیم اور دوسرا خدا ہو جاتا۔" (نہج البلاغہ: خطبہ 186)
یہاں یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کا کلام الفاظ کی صورت میں نہیں اور نہ آواز کی صورت میں ہے۔ جیسا کہ حضرت موسی ع کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وحی تجلّی کی صورت میں ہے جس کی تاب عقل کامل کے سوا کوئی نہیں لا سکتا۔ جیسا کہ قرآن کی آیت ہے؛
لَوْ أَنْزَلْنا هذَا الْقُرْآنَ عَلي جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خاشِعاً مُتَصَدِّعاً مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
اگر یہ قرآن پہاڑ پر نازل ہوتا تو پہاڑ اس کی تاب نہ لا سکتا، کیونکہ یہ تجلّی خداوندی ہے۔ اس کی تاب وہی ذات کر سکتی ہے جو اس تجلی کی ٹرانسمیشن کو قبول کر سکے۔ لہذا وحی بھیجنے والے کے لئے یہ تجلّی ہے، الفاظ نہیں، جیسا کہ مولا علی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں لوگوں کے لئے تجلّی کیا اس طرح سے کہ وہ اس کو نہ دیکھ سکیں (نہج البلاغہ: خطبہ 147)
وحی کو درک کرنے والے کے لئے وحی معارف و حقائق کی صورت میں آشکار ہوتا ہے، یعنی مقام تنزّل میں وحی مفہوم ہے جس کو نبی اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
کلام اللہ کی بعض آيتیں بعض کی تفسیر کرتی ہیں، لہذا ذاتی قیاس کو راہ نہ دیں، یہ دیکھیں کہ خود قرآن کیا کہتا ہے؟ کسی شخص سے اللہ کیسے کلام کر سکتا ہے؟ اس کا جواب آپ کو قرآن ہی دیتا ہے؛
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہام (کے ذریعے) سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے القا کرے۔ بےشک وہ عالی رتبہ (اور) حکمت والا ہے۔ (سورہ شوری: 51)
اس آيت کی رو سے تین طریقوں سے اللہ اپنے بندوں سے کلام کر سکتا ہے؛
1) الہام و وحی کے ذریعے سے، یعنی اس کے دل میں اللہ تعالی بات ڈال دے
2) حجاب کے پیچھے، یعنی اللہ تعالی اپنے اسرار کو اس بندے کیلئے کھول دے اور وہ مفاھیم درک کرے جو اللہ تعالی اس کو بتانا چاھتا ہے
3) فرشتے کے ذریعے سے
2) حجاب کے پیچھے، یعنی اللہ تعالی اپنے اسرار کو اس بندے کیلئے کھول دے اور وہ مفاھیم درک کرے جو اللہ تعالی اس کو بتانا چاھتا ہے
3) فرشتے کے ذریعے سے
پس حضرت موسی ع نے بھی جو کلام کیا وہ انہی تین طریقوں کے ذریعے تھے، ان تین طریقوں کے علاوہ کوئی چیز ممکن نہیں۔ اور یہ جو بعض افراد گمان کر رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے کسی آواز یا لہجے کے ذریعے سے اپنے انبیاء سے بات کی تو وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی آواز پیدا نہیں کرنا، کیونکہ وہ جسم نہیں رکھتا، لہذا اس کو اپنی بات پہنچانے کیلئے آواز کی ضرورت نہیں۔
بنابریں اللہ کا کلام الفاظ کی صورت میں نہیں، بلکہ فعل کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کی خدائی جس طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے وہی اس کے الفاظ ہیں، چنانچہ پوری دنیا میں ہر چیز کلمۃ اللہ ہے۔ جیسا کہ مولا علی ع نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں؛
"جب وہ کسی شئے کو بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کن کہتا ہے، اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔ لیکن نہ کوئی آواز پیدا ہوتی ہے، اور نہ کوئی ندا کانوں سے ٹکراتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی کا کلام اس کا فعل ہے۔"
پس جب آواز ہی پیدا نہیں ہوتی تو الفاظ کا یا لہجے کا وجود ہی نہیں۔ حضرت موسی ع سے اللہ نے اسی طرح کلام کیا جیسے باقی انبیاء سے کرتا ہے۔ اور آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے براہ راست قلب موسی ع سے کلام کیا، یعنی معنی و مفھوم کو ان کے قلب پر الہام و القا کیا۔
وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا
اور اللہ نے موسی سے واضح (براہ راست) کلام کیا۔
علامہ طباطبائی نے اس آیت کی ذیل میں تفسیر المیزان میں لکھا ہے، آپ فرماتے ہیں؛
"اطلاق لفظ کلام خدا بر قرآن کریم کہ فعلی خاصی از خداست، اطلاق حقیقی یا مجازی است و این اطلاق بہ ھر گونہ کہ باشد در قرآن کریم آمدہ، از آن جملہ فرمودہ "یا موسی انی اصطفیتک علی الناس برسلاتی وبکلامی" و نیز فرمودہ "وکلّم اللہ موسی تکلیما" و وحی ہم کہ انبیاء از خدای تعالی می گیرند از مصادیق کلام است۔"
پھر آگے چل کر ایک اور جگہ پر حضرت موسی کی وحی کی طرف دوبارہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
"این قسم تکلم (از ورای حجاب) مانند تکلم خدای تعالی با موسی در کوہ طور است کہ دربارہ اش فرمدہ "فلما اتاھا نودی من شاطئ اللواد الایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرہ" نیز از ھمین قسم است وحی ھایی کہ در عالم رؤیا بہ انبیاء شدہ است۔"
ان کی اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جب کلام خدا کہتے ہیں تو اس سے مراد اللہ کا فعل خاص ہی ہے۔ اس کلام کی سنخیت کسی بھی تکلم بشری و حسی سے نہیں ملتی۔
اور پھر امام علی ع کا اپنا کلام نہج البلاغہ میں ہے کہ اللہ کا کلام ویسا نہیں کہ کوئی آواز کانوں میں ٹکرائے، اور اگر میں اشتباہ نہ کروں تو اغلب امامیہ کا عقیدہ یہی ہے۔
اختلاف اس میں نہیں ہے کہ اللہ کسی آواز کو پیدا کر سکتا ہے یا نہیں، اختلاف اس میں ہے کہ اللہ تعالی کلام کیلئے صوت کا محتاج ہے یا نہیں؟ دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اللہ کا کلام فعلی ہے یا لفظی؟ ہمارا ماننا یہ ہے کہ اللہ کا کلام فعلی ہے، کوئی آواز نہیں آتی بلکہ رسول(ص) جو وحی کو لینے والا ہوتا ہے وہ قلب کے ذریعے مفاھیم کو درک کرتا ہے۔ تفسیر المیزان کو تو آپ نے یکسر مسترد کر دیا ورنہ تفسیر المیزان کا امتیاز ہی یہی ہے کہ اس میں صرف آیات کی تفسیر ہی نہیں بلکہ وحی کے بارے میں تفصیلی بحث ہے جو کم نظیر ہے۔
امام رضا (ع) سے جب پوچھا گيا کہ موسی ع نے کیا انسانی زبان جیسے عبرانی و سریانی وغیرہ میں کلام کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ خدا پاک و پاکیزہ ہے اس چیز سے جس کی تم بات کرتے ہو، خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ اللہ اپنی مخلوق جیسا ہو جائے یا ان کی طرح کلام کرے۔ (بحارالانوار ج4 ص152)
پس وحی یا کلام کی سنخیت مخلوق کے کلام جیسی نہیں ہے۔ اب جس آواز کی آپ بات کر رہے ہیں جو درخت سے آئی اور کوہ طور کی طرف سے آئی، وہ ندا ایسی نہیں جس کو ہم کلام خداوندی قرار دیں۔ بلکہ وہ وحی یا تکلم سے پہلے اللہ کی طرف سے موسی ع کو متوجہ کرنے کیلئے تھا۔ اسی طرف آیت اللہ جوادی آملی نے تفسیر تسنیم میں اشارہ کیا ہے؛
"حضرت موسی(ع) در وادی طور گرچہ ندایی از درخت شنید، چنان نبوده که درخت سخن بگوید زیرا حضرت موسی ع وحی را از ہمہ جهات می شنید "
یعنی حضرت موسی ع کوہ طور پر اگرچہ درخت سے کسی ندا کو سنا، لیکن ایسا نہیں تھا کہ درخت نے کچھ کہا، کیونکہ حضرت موسی ع تمام جھات سے وحی کو اخذ کر رہے تھے۔ وحی ہمیشہ قلب پر القا ہوتا ہے چاہے فرشتے کے ذریعے ہو یا حجاب کے پیچھے سے۔ صوتی امواج کی ضرورت اللہ کو نہیں ورنہ اللہ کی تجسیم کا قائل ہونا پڑے گا۔
یعنی کلام خدا کی سنخیت کلام بشری سے مختلف ہے، اگر ہم مان لیں کہ اللہ نے بھی صوتی لحاظ سے بات کی، اور یہ صوت و آواز موسی ع کے کانوں سے ٹکرائی اور موسی ع نے ایسے ہی سنا جیسے کسی اور مخلوق کا کلام سنتے ہیں تو اللہ کا کلام مخلوق کے کلام سے مشابہ ہو گیا، جو اس کی ذات اقدس کے عین منافی ہے۔ پس طور سے آواز کا آنا موسی ع کو متوجہ کرنے کیلئے تھا یعنی موسی علیہ السلام کو متوجہ کرنے کے لیے آواز پیدا کر دی گئی، جب وہ وہاں تنہائی میں چلے گئے تو پھر قلب موسی ع کے ساتھ اللہ نے براہ راست گفتگو کی۔ اور درخت کے معاملے میں بھی درخت کو حجاب بنا کر اس کے ذریعے سے گفتگو ہوئی۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں