موضوع: نماز کے بعد تین تکبیروں کا حکم
تحریر: سید جواد حسین رضوی
سوال) نماز کے اختتام پر سلام کے بعد تین تکبیریں کہی جاتی ہیں، اگر نمازی کوئی تکبیر نہ پڑھے تو کیا اس کی نماز صحیح ہوگی؟
جواب) آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ نماز کے بعد تین تکبیریں جو آجکل شیعوں کا رواج بن چکی ہیں نماز کا حصّہ نہیں بلکہ یہ تعقیبات ہیں۔ اور یہ فقط تین تکبیریں ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی ایک مخصوص حمد و ثنا ہے۔
نماز میں تین سلام پڑھے جاتے ہیں۔ 1) السلام علیک ایّہا النّبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، 2) السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین، 3) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلا سلام مستحب ہے، بلکہ آیت اللہ العظمی سیّد محمد کاظم یزدی کی تصریح کے مطابق تشہّد کا حصّہ ہے۔ دوسرا سلام واجب ہے، اگر دوسرا سلام کوئی کہے تو تیسرا سلام بھی مستحب ہو جاتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ بطور احتیاط یہ دونوں سلام پڑھے جائیں اور بعض کہتے ہیں کہ دوسرا سلام ہی کافی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی بھی سلام کو کہا جائے کافی ہے۔ لہذا تیسرا سلام کہتے ہی انسان نماز کی حالت سے خارج ہو جاتا ہے، اس کے لئے تین تکبیرات کہنا لازمی نہیں۔
شیخ صدوق فرماتے ہیں؛
فَإِذَا سَلَّمْتَ رَفَعْتَ يَدَيْكَ وَ كَبَّرْتَ ثَلَاثاً وَ قُلْتَ- لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ أَعَزَّ جُنْدَهُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
"جب سلام کہو تو تین دفعہ ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہو اور کہو: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ أَعَزَّ جُنْدَهُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: جلد 1 ص320)
یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تین دفعہ تکبیر کے ساتھ ایک مخصوص دعا/ تسبیح/ تہلیل/ حمد و ثنا بھی پڑھنے کا ذکر ہے۔
ابن ادریس حلّی ایک عظیم شیعہ عالم گزرے ہیں۔ اپنی کتاب "السّرائر الحاوی لتحریر الفتاوی" میں لکھتے ہیں؛
و يستحب بعد التسليم و الخروج من الصلاة أن يكبّر و هو جالس ثلاث تكبيرات يرفع بكل واحدة يديه إلى شحمتي أذنيه، ثمّ يرسلهما إلى فخذيه في ترسّل واحد. ثمّ يقول لا إله إلا اللَّه وحده وحده وحده، أنجز وعده، و نصر عبده، و أعزّ جنده، و غلب الأحزاب وحده، فله الملك و له الحمد، يحيي و يميت و يميت و يحيي، و هو حي لا يموت، بيده الخير، و هو على كل شيء قدير.
"سلام کے بعد اور نماز سے خارج ہونے کے بعد مستحب ہے کہ بیٹھ کر تین دفعہ تکبیر کہے، اور ہر مرتبہ اپنے ہاتھ اپنے کانوں تک لے جائے اور پھر ہاتھ نیچے لے آئے اور اپنے رانوں پر رکھے۔ اور پھر پڑھے؛ لا إله إلا اللَّه وحده وحده وحده، أنجز وعده، و نصر عبده، و أعزّ جنده، و غلب الأحزاب وحده، فله الملك و له الحمد، يحيي و يميت و يميت و يحيي، و هو حي لا يموت، بيده الخير، و هو على كل شيء قدير۔"
(السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی: ج1 ص232)
علاّمہ حلّی لکھتے ہیں؛
ثم ما نقل عن أهل البيت بعد التکبير عقيب التسليم ثلاث مرات يرفع فيها يديه إلي شحمتي أذنيه ويضعهما علي فخذي
"جیسا کہ اہل بیت ع سے نقل ہوا ہے کہ تعقیبات میں سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ تکبیر کہے اور ہر دفعہ اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے کناروں تک لے جائے اور پھر دوبارہ اپنے رانوں پر رکھے۔"
(تحریر الاحکام: ج1 ص263)
شیخ بہائی لکھتے ہیں:
چون مصلّے از نماز فارغ شود سنّت است بتعقیب اشتغال نماید و اوّل تعقیب سہ نوبت اللہ اکبر گفتن است و در ہر نوبت دستھا را بنزدیک گوش برساند و بعد از آن بگوید لا الہ الاّ اللہ الھا واحدا ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
"جب نماز نماز سے فارغ ہو جائے تو سنّت ہے کہ تعقیبات میں مشغول ہو جائے۔ اور پہلی تعقیب یہ ہے کہ تین دفعہ اللہ اکبر کہے اور ہر دفعہ اپنے ہاتھوں کو کانوں کے قریب لے جائے۔ اور اس کے بعد کہے لا الہ الا اللہ الھا واحد ۔۔۔۔۔۔ الخ"
(جامع عبّاسی چاپ قدیم: ص50)
ہم نے طوالت کے خوف سے اس پوری دعا کا ذکر نہیں کیا۔ قارئین دعاؤں کی کتب سے رجوع کر سکتے ہیں۔
صاحب جواہر لکھتے ہیں؛
ثم يستحب التعقيب أيضا بما روي من الأذکار والأدعية في خصوص التعقيب وهي کثيرة جدا منها التکبيرات الثلاث رافعا يديه بکل واحدة منها علي هيئة الرفع في غيرها من تکبيرات الصلاة
"پھر تعقیبات مستحب ہیں جن سے مراد وہ اذکار و دعائیں ہیں جو تعقیبات کے ضمن میں مروی ہیں اور یہ تعقیبات بہت زیادہ ہیں۔ جن میں سے تین تکبیریں ہیں، اور ہر تکبیر پر اپنے ہاتھوں کو اسی صورت میں اٹھائے جس طرح نماز کی باقی تکبیروں میں اٹھاتے ہیں۔"
(جواھر الکلام: ج10 ص408)
نتیجہ: مندرجہ بالا کلام سے حاصل ہوا کہ تین دفعہ تکبیر کہنا ہرگز نماز کا حصّہ نہیں جیسا کہ آجکل یہ خیال رائج ہے۔ دوسرا یہ کہ ان تکبیرات کے ساتھ ایک دعا بھی ہے اور یہ دونوں ایک تعقیب کا حصّہ ہیں۔ انسان سلام پڑھتے ہی نماز سے خارج ہو جاتا ہے اور سلام نماز میں مستحب ہے کہ اگر انسان خود نماز پڑھ رہا ہو یا امامت کرا رہا ہو تو ایک دفعہ دائیں طرف چہرے کو تھوڑا پھیر کر سلام کرے، اور اگر ماموم ہے تو دونوں جانب سلام پھیرے۔ اور اگر بائیں طرف کوئی نہیں تو دائیں جانب اکتفا کرے۔ ابن ادریس حلّی لکھتے ہیں کہ دائیں طرف کے سلام کو کبھی ترک نہ کرے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں