اتوار، 28 دسمبر، 2014

اہلسنّت کے مقدسات کی توہین کرنے والے اپنے شیعہ بھائیوں کے قتل میں شریک ہیں


بہت دفعہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ کسی کے بارے میں جان بوجھ کر ایسی باتیں کر جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان کو ضرر پہنچتا ہے، ایسا شخص اس ضرر میں شراکت دار ہوتا ہے اور روز قیامت اس کو بھی ضرور سزا ملے گی۔ اسی طرح وہ لوگ جو اہلسنّت کے مقدسات کی توہین کھلے عام کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز / پوسٹ اور دیگر بیانات کو جواز بنا کر لوگوں کو شیعوں کے خلاف ابھارنے میں استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی وجہ سے کوئی بیگناہ شیعہ قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل میں وہ شخص بھی شریک ہے جس نے اہلسنّت کے مقدسات کی توہین کی اور جس کی وجہ سے اس بیگناہ کے قتل پر ابھارا گیا۔

بلاشبہ یہ درست ہے کہ بہت سے لوگ جو شیعوں کے دشمن ہیں وہ اپنی عناد کی وجہ سے ہیں، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کو جواز بھی بہت سے ناعاقبت اندیش شیعہ فراہم کرتے ہیں۔ بعض لوگ تو ایسے ہیں جو ایک مخصوص مرجع تقلید کی طرف سے حرمت کے فتوی کی وجہ سے ضد و عناد میں بھی ایسی حرکتیں انجام دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے معصوم کی یہ حدیث ہی کافی ہے۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ الْعَلَاءِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ مَعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع یقولُ إِنَّ الْعَبْدَ يُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ مَا يُدْمِي دَماً فَيُدْفَعُ إِلَيْهِ شِبْهُ الْمِحْجَمَةِ أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ فَيُقَالُ لَهُ هَذَا سَهْمُكَ مِنْ دَمِ فُلَانٍ فَيَقُولُ يَا رَبِّ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنَّكَ قَبَضْتَنِي وَ مَا سَفَكْتُ دَماً قَالَ بَلَى سَمِعْتَ مِنْ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ كَذَا وَ كَذَا فَرَوَيْتَهَا عَنْهُ فَنُقِلَتْ عَنْهُ حَتَّى صَارَ إِلَى فُلَانٍ الْجَبَّارِ فَقَتَلَهُ عَلَيْهَا فَهَذَا سَهْمُكَ مِنْ دَمِه

امام باقر(ع): ایک ایسا بندہ جس نے کوئی قتل نہیں کیا ہوگا، جب قیامت کے دن محشور کیا جائے گا تو اس کو خون دیا جائے گا جیسے حجامت کے خون کا ظرف ہوتا ہے اور اس کو کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کے خون میں سے تمہارا حصّہ ہے۔ وہ شخص کہے گا کہ اے خدا تو جانتا ہے کہ تو نے اس حالت میں میری جان قبض کی کہ میں نے کسی کا بھی خون نہیں بہایا تھا۔

اس پر کہا جائے گا کہ ایسا نہیں، تو نے فلان بن فلان سے ایسا ایسا سنا، اور تو نے اس شخص سے وہ بات نقل کی یہاں تک کہ وہ بات فلاں ظالم تک پہنچی، اس نے اس بات کی وجہ سے اس شخص کو قتل کیا۔ لہذا یہ اس کے خون میں سے تمہارا حصّہ ہے۔

(محاسن: ج1 ص104)

اس حدیث کی سند "صحیح" ہے۔ اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ پوری امّت مسلمہ بالعموم اور ملّت تشیّع بالخصوص ایک جان ہے، ہم میں سے کسی کی بات ایسی ہی ہے جیسے پوری ملّت کی ہے۔ لہذا ہم میں سے کسی کی کوئی بات، فعل یا عمل کسی اور مومن کو اذیت پہنچانے کا باعث بنے تو اس میں ہم بھی شریک ہیں۔

اگر اس حدیث سے بھی کسی کی آنکھ نہ کھلے تو سمجھ جائیں کہ وہ دانستہ یا نادانستہ دشمن کا آلۂ کار ہے اور شیطان نے اس کی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

وما علینا الاّ البلاغ

العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


نہج البلاغہ آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی(دام ظلہ) کی نگاہ میں

بسمہ تعالیٰ
جناب مرجع دینی اعلیٰ آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہم متمنی ہیں کہ آپ کتاب نھج البلاغہ کے بارے میں چند کلمات ذکر فرمایئں۔ پروردگار آپ کواسلام و مسلمین کے لیئے تا دیر ذخیرہ بنائے۔
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس کتاب ِ شریف میں مولا نا امیر المومنین (ع) کے کلام میں سے جو کچھ بھی وارد ہوا ہے وہ ۔اللہ اور اسکے نبی مصطفیٰ (ص) کے کلام کے بعد۔بلند ترین کلام شمار ہوتا ہے۔چونکہ اس میں غور و فکر کرنےاور کائنات کی حقیقت اور اس میں تا ءمل کا فطری منھج بیان ہوا ہے ۔ اصولِ اسلام اور اسکے معارف اور حکم ِ زندگی کی وضاحت ہے،اور ایسی سنتوں و سیرتوں کا بیان ہے کہ جن کو بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نفس کے تزکیہ اور اسکی ریاضت کا بھی بیان ہے ۔اس میں مقاصد شریعت اور وہ چیزیں کے جن پر احکام کی بنیاد ہے واضح کردی گئی ہیں۔ اور حکمرانی کے آداب و شرائط و استحقاق کی یاد دہانی بھی ہے اوراللہ تعالیٰ کی ثناء اور اسکے سامنے دست دعاء پہیلانے کے اسلوب کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور اسکے سوا اوربھی بہت کچھ ہے۔
جیسا کہ ایک جہت سے یہ کتاب تاریخ ِاسلامی اور جو حادثات بعد نبی (ص) خاص طور پر خلافت امام (ع) میں واقع ہوئے ان سب کا ایک سچا آینہ ہے اسی طرح اس میں امام ؑ کی سیرت ِحیات ،انکے اخلاق و عادات،انکے علم و فقھ کی جوانب بھی متضمن ہیں۔یہ کتاب کھلی دعوت ہے تمام مسلمانوں کے لیئے تا کہ وہ اپنے امور دینیہ میں کسبِ نور کریں اس کتاب سے سیکھیں اور اپنا تزکیہ کریں ۔اور بالخصوص نوجوانوں کو۔اسکے مطالعہ کے ذریعے ،اس میں تدبر سے اور اسے کسی حد تک حفظ کر کے اس کتاب کا اھتمام کرنا چاہیئے۔ بہت ہی مناسب ہے ان لوگوں کے لیئے جومحبت ِ امام (ع) کا دعوہ رکہتے ہیں اور تمنی کرتے ہیں کہ کاش وہ امام (ع) کے زمانے میں ہوتے تو خود ِ امام (ع) کے موعظے کو سنتے،ان کی ھدایت سے سرفرازہوتے
ان ھی کی نھج پر گامزن ہوتے ۔انہیں چاہیئے کے وہ یہ سب کام اس کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں انجام دیں ۔بیشک جیسا کے امام (ع) نے جنگ جمل میں فرمایا تھا کہ یقینا انکے ساتھ اس جنگ میں وہ لوگ بھی حاضر ہوگئے ہیں کہ جو ابھی مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں موجود ہیں ۔امام (ع) کی مراد وہ لوگ تھےکہ جن کی صدق ِ نیت کو خدا نے جان لیا تھا کہ وہ امام(ع) کے ساتھ ان کے زمانے میں حاضر ہونے اور انکی اقتدا کی تمنیٰ رکھتے ہوں گے۔اور یہی وہ لوگ ہونگے جو ان کے اولیاء کے ساتھ اس دن محشور ہونگےکہ جب ہر انسان کو اس کے امام کے پیچھے محشور کیا جائے گا۔ایسا فقط اسلیئے کہ وہ لوگ جس حق کو پہچانتے ہونگے اس پرعمل کرنے میں شبھات کے بہانے نہ تلاش کرتے ہونگے اور نہ ہی امام (ع) سے تعلق کی خالی کھوکلی تمنیٰ سے اپنی زیب و زینت کرتےہونگے۔مسلم حکمرانوں کو چاہیئے کہ امام(ع) نے ان جیسوں کے لیئے جو ذمہ داری بیان کی ہے اس کی تطبیق کریں ، آثار ِ امام(ع) کی پیروی کریں اپنے اعمال و سلوک میں امام (ع) کے نشان ِ قدم پر چلیں،اور اپنے آپ کو امامؑ کے ولات امر و عمال کی طرح تصور کریں تاکہ خود ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ منھجِ اور اسوہ امام(ع) سے کس قدر وابستہ ہیں۔
ہم اللہ العلی القدیر سے دعاگو ہیں کہ ہم سب کو بدست خود اتباع ھدیٰ و اجتناب ِ ھویٰ کی راہ پر گامزن کردے۔کہ بیشک وہی ولی التوفیق ہے۔
علی الحسینی السیستانی
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ


ہفتہ، 27 دسمبر، 2014

کیا رسول(ص) کو زھر دیا گیا؟


٭کیا رسول(ص) کو زھر دیا گیا؟٭

شیخ مفید (علیہ الرّحمہ) فرماتے ہیں؛

رسول الله صلى الله علیه وآله محمد بن عبد الله، وقبض بالمدینة مسموما یوم الاثنین للیلتین بقیتا من صفر

رسول اللہ(ص) کا وصال پیر والے روز، 28 صفر کو زہر کی وجہ سے مدینہ میں ہوا۔

(المقنعہ: ص456)۔

یہی بات شیخ طوسی نے تہذیب الاحکام میں اور علاّمہ حلّی نے تحریرالاحکام میں کہی ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک یہودی عورت نے رسول اللہ(ص) کی دعوت کے بہانے زہر دینے کی کوشش کی۔ گو کہ رسول(ص) کو خبر ہو گئی اور آپ نے وہ لقمہ پھینک دیا لیکن اس زہر کا اثر رہا۔ اسی لئے بی بی عائشہ کہتی ہیں؛

قالت عَائِشَةُ رضی الله عنها کان النبی صلى الله علیه وسلم یقول فی مَرَضِهِ الذی مَاتَ فیه یا عَائِشَةُ ما أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الذی أَکَلْتُ بِخَیْبَرَ فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِی من ذلک السُّمِّ

عائشہ(ر) کہتی ہیں کہ رسول(ص) اپنے مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی، فرماتے تھے: "میں اب بھی اس کھانے کے درد کو محسوس کر رہا ہوں جو میں نے خیبر میں کھایا تھا، اور اب تک مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے دل کی شریانیں اس زہر کی وجہ سے پھٹ رہی ہیں۔"

صحیح بخاری: ج4 حدیث نمبر 4165


خاکسار: ابوزین الہاشمی



بدھ، 24 دسمبر، 2014

دفاء علمائے حقّہ

آجکل بعض دشمنان تشیّع دل کھول کر علمائے حقّہ کی توہین کرنے میں مشغول ہیں بالخصوص رہبر معظّم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی۔ اس بغض و عناد کی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ علماء ان کی کچھ مخصوص گمراہ کن باتوں کو نہیں مانتے اور مخالفت کرتے ہیں۔



حال ہی میں ایک شخص نے دو روایات کے غلط تراجم اور دیگر احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے امام خامنہ ای پر تنقید کی ہے کہ ان کا ہاتھ شل ہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے گی۔ 



انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے؛



وَ قَالَ الصَّادِقُ ع لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْقَيْدِ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء



امام صادق(ع): "قیدی آزاد لوگوں کی امامت نہ کرے اور فالج زدہ صحیح و سالم لوگوں کی امامت نہ کرائے۔"



من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ح1107



نیز یہ حدیث بھی ان لوگوں نے نقل کی؛



عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص لَا يَؤُمُّ الْمُقَيَّدُ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاءَ وَ لَا صَاحِبُ التَّيَمُّمِ الْمُتَوَضِّينَ وَ لَا يَؤُمُّ الْأَعْمَى فِي الصَّحْرَاءِ إِلَّا أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَة



امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امام علی(ع) نے فرمایا: "قیدی زاداد لوگوں کو، کوئی فالج کا مریض تندرست لوگوں کو اور کوئی تیمّم والا باوضو لوگوں کو، اور اندھا بیابان میں جماعت نہ کرائے مگر یہ کہ اس کو قبلہ رخ کر دیا جائے۔"



کافی: ج3 ص376



ان احادیث کے مصداق پر مدلّل گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کی ہیرا پھیری کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے۔ انہوں نے ترجمہ میں لفظ "مفلوج" کا استعمال کیا ہے، عربی کے مطابق تو اس میں حرج نہیں کیونکہ عربی میں "مفلوج" فالج زدہ کو ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں یہ لفظ کسی معذور کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ شخص فالج کا شکار نہ بھی ہو۔ اگر حدیث کا اصل مصداق دیکھیں تو یہ کسی فالج زدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فالج زدہ شخص افعال نماز ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ سجود میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھ سکتا ہے اور نہ رکوع کر سکتا ہے۔



حدیث میں "صاحب الفالج" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی مطلب کوئی ایسا شخص ہے جو فالج کا مریض ہو۔ فالج کا اٹیک کبھی مکمّل جسم پر ہوتا ہے اور کبھی آدھے جسم پر۔ ان مدلّسین نے بہت خوبصورتی سے "صاحب الفالج" کی جگہ پر "مفلوج" کا لفط استعمال کیا ہے اور لفظ مفلوج کو معذور کے مترادف پیش کیا ہے جبکہ "معذور" "مفلوج" کا مترادف ہرگز نہیں ہے۔



اب یہاں پر لفظ "مفلوج" استعمال کر کے آیت اللہ خامنہ ای پر اٹیک کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای فالج کا شکار نہیں ہیں۔ ان کا ہاتھ ایک بم دھماکے میں تھوڑا شل ہوا، لیکن اس کے باوجود بھی آپ مکمّل طور پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سجدہ میں تمام اعضائے سجدہ زمین پر رکھتے ہیں اور صحتمند شخص کی طرح رکوع بھی کرتے ہیں اور قنوت میں ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بم دھماکے کی وجہ سے قنوت میں ہاتھ مکمّل نہیں اٹھا پاتے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ کسی کی مخالفت میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور جھوٹ اور مکرو فریب سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔



قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق بھی علماء نے یہی کہا ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہو جس کی وجہ سے وہ درست انداز میں نماز کے افعال انجام نہ دے سکے۔



اب ہم ان احادیث کے متن کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔



1) قیدی2) فالج زدہ شخص3) کسی عذر کی وجہ سے تیمّم کرنے والا4) اندھا



لیکن ہم دیگر احادیث میں دیکھتے ہیں کہ ان مخصوص لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ مثلا قیدی یا غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں؛



عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ لَه الصَّلَاةُ خَلْفَ الْعَبْدِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فَقِيهاً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ أَفْقَهُ مِنْهُ الْحَدِيثَ.



زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے غلام کی اقتداء کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ فقیہ ہو اور وہاں اس سے زیادہ بڑا کوئی فقیہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔



کافی: ج3 ص375



َعنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ إِذَا رَضُوا بِهِ وَ كَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآناً قَالَ لَا بَأْسَ بِهِ 



محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق(ع) میں سے کسی سے پوچھا کہ آیا غلام لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔



تہذیب الاحکام: ج3 ص29



پس ان روایات میں جواز بیان ہوا ہے، اور جو حدیث ان مدلّسین نے بیان کی ہے اس میں غلام یا قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے کو کراہت پر حمل کریں گے یعنی ان کے پیچھے نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ ان قیدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے جو زنجیر یا رسّی میں بندھے ہوں جس کی وجہ سے وہ افعال نماز انجام دینے پر قادر نہ ہوں۔



اب ہم تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے امامت پر بات کرتے ہیں۔ مدلّسین کی پیش کردہ روایت کے مطابق تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے، اور یہی ان کا مطلب ہے، لیکن یہ سب احادیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ ان احادیث کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ دینے کے لئے چھپاتے ہیں۔ ہم یہاں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن میں وضو کرنے والوں کا تیمّم کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز ہے؛



عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ أَجْنَبَ ثُمَّ تَيَمَّمَ فَأَمَّنَا وَ نَحْنُ طَهُورٌ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ



عبداللہ بکیر کہتےہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو مجنب ہوا تھا لیکن (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) تیمّم کیا اور پھر ہمیں نماز پڑھائی جبکہ ہم نے وضو کیا ہوا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔



تہذیب الاحکام: ج3 ص167



عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الرَّجُلِ يُجْنِبُ وَ لَيْسَ مَعَهُ مَاءٌ وَ هُوَ إِمَامُ الْقَوْمِ قَالَ نَعَمْ يَتَيَمَّمُ وَ يَؤُمُّهُم



امام صادق(ع) سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو ایک قوم کا پیشنماز ہے اور جنب ہو گیا، مگر اس کے پاس غسل کے لئے پانی نہیں۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ تیمّم کرے اور لوگوں کو نماز پڑھائے۔



تہذیب الاحکام: ج3 ص167



یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ وضو کرنے والوں کے لئے تیمّم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے ہم اس کو کراہت پر محمول کریں گے، یعنی یہ جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ اور علماء کرام نے بھی یہی فرمایا ہے جیسا کہ شیخ حر عاملی اپنی تالیف "وسائل الشیعہ" میں ان روایات کو نقل کیا اور اس باب کا نام رکھا: بَابُ جَوَازِ اقْتِدَاءِ الْمُتَوَضِّئِ بِالْمُتَيَمِّمِ عَلَى كَرَاهِيَة ۔۔۔۔۔ یعنی وضو والوں کا تیمّم والوں کے پیچھے نماز کراہت کے ساتھ پڑھنے کا باب



اب ہم اندھے کے پیچھے نماز پڑھنے کی طرف آتے ہیں۔



امام صادق(ع): اگر اندھا آدمی لوگون کو نماز پڑھائے تومضائقہ نہیں ہے، اگرچہ یہی مقتدی اسے قبلہ رخ کریں۔ (تہذیب الاحکام)



امام باقر و امام صادق(ع): جب مقتدی اندھے آدمی کو پسند کریں اور وہ ان سے زیادہ قاری اور فقیہ ہو تو وہ نماز باجماعت پڑھا سکتا ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ)



پس یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اور مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے وہ کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔



پس مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں قیدی، تیمّم والے، فالج زدہ اور اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا منع نہیں ہے بشرطیکہ وہ نماز کے افعال کو درست انجام دے سکیں، بلکہ وہ روایات مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لئے شیخ حر عاملی نے مدلّسین کی روایات پر باب باندھا ہے؛



بَابُ كَرَاهَةِ إِمَامَةِ الْمُقَيَّدِ الْمُطْلَقِينَ وَ صَاحِبِ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء



یعنی قیدی کا آزاد لوگوں کو اور فالج زدہ کا صحیح و سالم کو امامت کرانے میں کراہت کا باب۔



پس بالفرض ہم رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای کو فالج زدہ بھی مان لیں تو بھی یہ احادیث مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔



معصومین(ع) کے نام پر معصومین(ع) کے اقوال کو تروڑ مروڑ کر آدھی بات پیش کر کے مومنین کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔



خاکسار: ابو زین الہاشمی
 تحریک تحفظ عقائد شیعہ


اولوا الامر سے مراد کون ہں ؟

اولوا الامر سے مراد کون ہیں؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُم>
 سورہٴ نساء ، آیت 59
 ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں“۔
یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اولوا الامر سے مراد کون حضرات ہیں؟

اولوا الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، ذیل میں ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
۱۔ بعض اہل سنت مفسرین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”اولوا الامر “ سے مراد ہر زمانہ اور ہر مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں،اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حکومت کی پیروی کریں اگرچہ وہ مغل حکومت ہی کی کیوں نہ ہو۔
۲۔ صاحب تفسیر المنار اور صاحب تفسیر فی ظلال القرآن وغیرہ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔
۳۔ بعض دیگر علماکے نزدیک اولوا الامر سے معنوی اور فکری حکّام یعنی علمااور دانشورمراد ہیں، ایسے دانشور جو عادل اور قرآن و سنت سے مکمل طور پر آگاہ ہوں۔
۴۔ اہل سنت کے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اولوا الامر سے مراد صرف ابتدائی چار خلفاء ہیں، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اولوا الامر میں شامل نہیں ہے لہٰذا ان کے بعد دوسرے زمانہ میں کوئی اولواالامر نہیں ہوگا۔
۵۔بعض دوسرے مفسرین نے پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب اور ان کے ناصروں کو اولواالامر مانا ہے۔
۶۔ بعض مفسرین نے ایک یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اولوا الامر سے مراد اسلامی لشکرکا سردار ہے۔
۷۔ تمام شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اولوا الامر سے مراد ”ائمہ معصومین علیہم السلام“ ہیں جن کو خدا اور رسول کی طرف سے اسلامی معاشرے میں مادی اور معنوی رہبری کی ذمہ داری عطا کی گئی ہے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اولوا الامر میں شامل نہیں ہے، البتہ جو افراد ان کی طرف سے منصوب کئے جاتے ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کو کوئی عہدہ دیا جاتا ہے تو معین شرائط کے ساتھ ان کی اطاعت بھی لازم ہے، البتہ اولوا الامرکے عنوان سے نہیں بلکہ ان کی اطاعت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ وہ اولوا الامر کے نائب اور نمائندے ہوتے ہیں۔
اب ہم یہاں مذکورہ تفاسیر کے سلسلہ میں تحقیق و تنقید کرتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلی تفسیرکا آیت کے مفہوم اورتعلیمات اسلامی سے کو ئی تعلق نہیںہے ، اور یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت ،خدا اور رسول کے برابر قرار دے دی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی قید و شرط نہ ہو، اسی وجہ سے شیعہ مفسرین کے علاوہ خود اہل سنت کے مفسرین نے اس پہلی تفسیر کو قبول نہیں کیا ہے۔
دوسری تفسیر بھی آیہٴ شریفہ سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ آیت میں اولوا الامر کی اطاعت کو بغیر کسی قید و شرط کے واجب قرار دیا گیا ہے۔
تیسری تفسیر یعنی جس میں عادل اور قرآن و سنت سے واقف علمااور دانشوروں کو اولوا الامر قرار دیا گیا ہے، وہ بھی آیت کے اطلاق سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ علمااو ردانشوروں کی پیروی کی شرط یہ ہے کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لہٰذا اگر وہ کسی خطا کے مرتکب ہوجائیں (کیونکہ وہ معصوم تو ہیں نہیں ان سے خطا ہوسکتی ہے) یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر حق سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کی اطاعت ضروری نہیں ہے، لیکن آیہٴ شریفہ میں اولوا الامر کی اطاعت کو مطلق اور پیغمبر اکرم کی طرح ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ وہ علمااو ردانشور افراد جنھوں نے قرآن و سنت سے احکام حاصل کئے ہیں ان کی اطاعت خداو رسول کی اطاعت ہوگی، اور الگ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چوتھی تفسیر ( جس میں چاروں خلفا ہی کو اولوا الامر قرار دیا گیا) کا مطلب یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان کوئی اولوا الامرنہ ہو، اس کے علاوہ اولوا الامر کو چاروں خلفا سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔
پانچویں اور چھٹی تفسیر یعنی صحابہ اور سرداران لشکر سے مخصوص کرنے میں بھی یہی مشکل ہے، یعنی ان لوگوں سے مخصوص کرنے پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔
بعض علمااہل سنت جیسے مصر کے مشہور و معروف دانشور”شیخ محمد عبدہ“ نے مشہور و معروف مفسر ”فخر الدین رازی“ کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے احتمال ( کہ اولوا الامر سے مراد، عوام الناس کے نمائندے، حاکم وقت، علمااور صاحب منصب افراد ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو)میں چند شرائط کا اضافہ کرتے ہوئے قبول کیا ہے ، ان میں سے ایک شرط یہ بیان کی ہے کہ حاکم وقت مسلمان ہو (جیسا کہ لفظ ”منکُم“ سے نتیجہ نکلتا ہے) اور اس کا حکم قرآن اور سنت کے برخلاف نہ ہو، مزید یہ کہ اس کا حکم اپنے اختیار سے ہو نہ کہ اس نے مجبوری کی حالت میں حکم دیا ہواور یہ کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکم کرے، نیز ایسے مسائل میں حکم کرے جس میں دخالت کا حق رکھتا ہو (نہ عبادت جیسی چیزوں میں کہ جس کا حکم اسلام میں معین ہے) مزید یہ کہ جس مسئلہ میں حکم کررہا ہو اس میں شریعت کی طرف سے کوئی خاص نص موجود نہ ہو ، ان تمام چیزوں کے علاوہ اتفاقی طور پر نظریہ دے(یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک حاکم کچھ کہہ رہا ہے تو دوسرا کچھ)۔
اور چونکہ یہ لوگ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام امت یا امت کے تمام نمائندے خطا اور غلطی نہیں کرسکتے ،یعنی معصوم ہوتے ہیں، اور ان شرائط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا حکم جس میں کوئی قید و شرط نہ ہوپیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کی طرح ہوجاتا ہے، (جس کا نتیجہ ”اجماع“ کو حجت ماننا اور اس کو قبول کرنا ہے)، لیکن اس تفسیر پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں، کیونکہ:
۱۔ اجتماعی مسائل میں بہت ہی کم مقامات پر اتفاق ہوتاہے جس کی بنا پر امت مسلمہ کے اکثر امور میں ہمیشہ ایک بے نظمی با قی رہے گی، اور اگر لوگ کثریت کے نظریہ کو قبول کرنا چاہیں تو اس پر اعتراض یہ ہے کہ اکثریت معصوم نہیں ہے بلکہ پوری امت کا اجماع معصوم ہے، لہٰذا ان میں سے کسی ایک کی بھی اطاعت ضروری نہ ہوگی۔
۲۔ علم اصول میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بغیر امام معصوم کے”تمام امت “ کے معصوم ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، (اگر امام معصوم اجماع میں شامل نہ ہو تو اس اجماع کا کوئی فائدہ نہیں ہے)
۳۔ اس تفسیر کے حامیوں کی ایک شرط یہ تھی کہ ان کا حکم قرآن و سنت کے برخلاف نہ ہو، لیکن قرآن اور سنت کے خلاف ہے یا نہیں اس کو دیکھنے کی ذمہ داری کس پر ہوگی، تو یہ ذمہ داری مجتہد اور قرآن و سنت سے آگاہ علماکی ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجتہدین اور علماکی اجازت کے بغیر اولوا الامر کی اطاعت جائز نہ ہوگی، بلکہ علماکی اطاعت اولوا الامر سے بلند ہوگی، جبکہ یہ نظریہ بھی آیت سے ہم آہنگ نہیںہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے علمااور دانشوروں کو بھی اولوا الامر میں شمار کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تفسیر کی بنا پر علمااور مجتہدین کا مرتبہ ان نمائندوں سے بلند ہوگا نہ کہ ان کے ہم پلہ، کیونکہ علماو دانشورحضرات اولوا الامر کے امور کے نگراں ہیں کہ کہیں ان کے نظریات قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ہیں، لہٰذا وہ ان سے بلند مرتبہ پر فائز ہیں جو کہ مذکورہ تفسیر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
لہٰذامذکورہ تفسیر پر متعدد اعتراض ہوئے ہیں۔
صرف ساتویں تفسیر مذکورہ اعتراضات سے خالی ہے یعنی اولوا الامر سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہے، کیونکہ یہ تفسیر مذکورہ آیت میں موجود ہ وجوبِ اطاعت کے اطلاق سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں، کیونکہ ”عصمت“ ان کو ہر طرح کی خطا و غلطی سے محفوظ رکھتی ہے، اسی لئے امام کا حکم پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کی طرح بغیر کسی قید و شرط کے واجب الاطاعت ہے، اور انھیں آنحضرت (ص) کی اطاعت کی صف میں قرار دیا جانا مناسب ہے، جیسا کہ لفظ ”اطیعوا“ کی تکرار کے بغیر ”رسول“ پر عطف ہوا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض مشہور و معروف علماجیسے فخر الدین رازی نے مذکورہ آیت کے ذیل میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، جیسا کہ موصوف تحریر کرتے ہیں:
”خداوندعالم نے جس کی اطاعت کو قاطعانہ اور بغیر چون و چرا کے لازم اور ضروری قرار دیا ہے اس کا معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر خطا اور غلطی سے معصوم نہ ہو ، اور گنا ہوں کے وقت خدا اس کی اطاعت کو لازم قرار دے اور خطا کی صورت میں بھی اس کی پیروی لازم ہو تو یہ تو خود خداوندعالم کے حکم میں تضاد اور ٹکراؤ ہوگا، کیونکہ ایک طرف تو خداوندعالم نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا ہے اور دوسری طرف ”اولوا الامر “ کی پیروی لازم قرار دی ہے ، لہٰذا یہاں ”امر“ اور ”نہی“ دونوں جمع ہوجائیں گے، (یعنی ایک طرف خدا کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو، دوسری طرف اسی کام سے روک بھی رہا ہے)
ایک طرف خداوندعالم اولوا الامر کی اطاعت کا مطلق طور پر حکم دے رہا ہے، دوسری طرف اگر اولوا الامر معصوم نہ ہو اور خدا اس کی اطاعت کا حکم دے تو یہ حکم صحیح نہیں ہے، اس مقدمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ آیت میں جس اولوا الامر کی طرف اشارہ کیا گیا اس کا معصوم ہونا ضروری ہے۔
اس کے بعد فخر الدین رازی تحریر کرتے ہیں کہ یہ معصوم یا تو تمام امت ہے یا امت کے کچھ افراد ہیں ،دوسرا احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہم امت کے ان بعض افراد کو پہچانیں اور اس تک رسائی ممکن ہو، جبکہ ایسا نہیں ہے،(یعنی وہ معصوم کو ن ہے ہمیں معلوم نہیں ہے) اور جب یہ احتمال ردہوجاتا ہے تو صرف پہلا احتمال باقی رہتا ہے کہ پوری امت معصوم ہے، اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ امت کا اجماع اور اتفاق حجت و قابل قبول ہے، اور یہ بہترین دلیل ہے۔
 حوالہ: تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، صفحہ ۱۴۴، طبع مصر ۱۳۵۷ئھ ش

(قارئین کرام!) جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ فخر رازی مختلف علمی مسائل پر اعتراضات کرنے کے شوقین ہیں یہاں مذکورہ آیت میں اولوا الامر کے معصوم ہونے کو قبول کرتے ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور ائمہ علیہم السلام سے آشنائی نہ رکھنے کے سبب اس احتمال سے چشم پوشی کرلیتے ہیں کہ امت کے معین حضرات اولوا الامر ہیں، اور مجبوراً اولوا الامر کے معنی تمام امت (یا عام مسلمانوں کے نمائندے) مرادلیتے ہیں، جبکہ یہ احتمال قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اولوا الامر اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر ہے اور اسلامی حکومت نیز امت مسلمہ کی مشکلات کے فیصلے اسی کے ذریعہ ہوتے ہیں، جبکہ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ تمام حکومتی عہدہ داروں میں اتفاق ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں کو درپیش اجتماعی ، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی اور اقتصادی مسائل میں سب لو گوں کاہونا غالباً ممکن نہیں ہے، اور اکثریت کی پیروی اولوا الامر کی پیروی شمار نہیں ہوگی،
لہٰذا فخر الدین رازی اور ان کی پیروی کرنے والے معاصرین کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہوگا کہ اولوا الامر کی اطاعت کی جگہ باقی نہ رہے، اور صرف استثنائی صورت اختیار کرلے۔
(قارئین کرام!) ہماری تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ آیہٴ شریفہ صرف ان معصوم حضرات کی رہبری کو ثابت کرتی ہے جوامت کا ایک حصہ ہیں۔ (غور کیجئے )

چند اعتراضات اور ان کے جوابات
مذکورہ تفسیر پر کچھ اعتراضات ہوئے ہیں،جن کو ہم بغیر طرفداری کے بیان کرتے ہیں:
۱۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہوں تو چونکہ لفظ ”اولی“ جمع کا صیغہ ہے، لہٰذا آیت سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیونکہ ہر زمانہ میں امام معصوم صرف ایک ہوتا ہے۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں امام معصوم ایک سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن ہر زمانہ میں ایک ہی امام ہوتا ہے اس کے بعد دوسرا امام،تاآخر، اور ہم جانتے ہیں کہ آیہٴ شریفہ ہر زمانہ کے افراد کو امام کی اطاعت کے لئے حکم دے رہی ہے۔
۲۔ اس معنی کے لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں اولوا الامر موجود نہیں تھے ، تو پھر کس طرح ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا؟
اس اعتراض کا جواب بھی مذکورہ جواب سے واضح اور روشن ہوجاتا ہے کیونکہ آیہٴ شریفہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے، لہٰذا ہر صدی کے مسلمانوں کا وظیفہ معین کرتی ہے، اور دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں خود آنحضرت (ص) اولوا الامر تھے ، کیونکہ اس وقت پیغمبر اکرم (ص) کے پاس دو منصب تھے ایک منصب ”رسالت“ جیسا کہ آیہٴ شریفہ میں ”اٴطَیعُوا الرَّسوُلَ“ آیاہے ، دوسرے ”امت اسلامی کی رہبری اور سرپرستی“ اس آیت میں ”اولوا الامر“ سے یاد کیا گیا ہے، اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں معصوم رہبر اور پیشوا خود آنحضرت تھے ، یعنی منصب رسالت اور احکام اسلام کی تبلیغ کے علاوہ اس منصب پر بھی فائز تھے، اور شاید ”رسول“ اور ”اولوا الامر“ کے درمیان ”اطیعوا“ کی تکر ار نہ ہو نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ منصب ”رسالت“ اور منصب ”اولوا الامر“ دو مختلف منصب ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) میں ایک ساتھ جمع تھے، لیکن امام کے سلسلہ میں جدا مسئلہ ہے اور امام صرف دوسرا منصب رکھتا ہے۔
۳۔ اگر ”اولوا الامر“ سے مراد ائمہ معصومین اور معصوم رہبر ہوں تو درج ذیل آیہٴ شریفہ میں مسلمانوں کے اختلاف کی صورت میں صرف خدا و رسول کی طرف رجو ع کرنے کا حکم کیو ں دیا گیاہے، ارشاد ہوتا ہے: < فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَاٴَحْسَنُ تَاٴْوِیلًا>
سورہ نساء ، آیت ۵۹

”پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اُسے خدا و رسول کی طرف پلٹادو، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو، یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے“۔
جیسا کہ آپ نے ملا حظہ کیا کہ اس آیت میں اولوا الامر کی بات نہیں کی گئی ہے، اور اختلاف دورکرنے کے لئے صرف خدا و رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاگیا ہے، یعنی کتاب خدا ، (قرآن کریم) اور سنت پیغمبر کے ذریعہ اختلاف حل کیا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اولاً یہ اعتراض شیعہ مفسرین پر نہیں ہے بلکہ اگر ذرا غور کریں تو دوسری تفسیروں پر بھی یہی اعتراض وارد ہوتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مذکورہ آیت میں اختلاف اور تنازع سے مراد احکام کا اختلاف ہے، مسلمانوں
کی رہبری اور حکومت کے جزئی مسائل کا اختلاف مراد نہیں ہے ،کیونکہ ان مسائل میں قطعی طور پر اولوا الامر کی اطاعت ہونی چاہئے، (جیسا کہ آیت کے پہلے فقرہ میں بیان ہوا ہے) لہٰذا اختلاف سے مراد اسلام کے عام قوانین اور احکام کا اختلاف مراد ہے جس کا جواز خدااور پیغمبر سے مخصوص ہے، کیونکہ امام صرف احکام کو نافذ کرتا ہے، احکام کو وضع نہیں کرتا، اور نہ ہی اسلام کے کسی قانون کو نسخ کرتا، بلکہ ہمیشہ احکام خدا اور سنت پیغمبر کو نافذ کرتا ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام سے منقول احادیث میں بیان ہوا ہے کہ اگر(کسی راوی کے ذریعہ) ہم سے کوئی بات کتاب خدا اور سنت پیغمبر کے برخلاف سنو تو اس کو ہرگز قبول نہ کرو ،کیونکہ ہمارے لئے قرآن اور سنت پیغمبر کے برخلاف حکم کرنا محال اور ناممکن ہے۔
مختصر یہ کہ احکام اور اسلامی قوانین لوگوں کے اختلاف کو حل کرنے کا پہلا مرجع خدا اور پیغمبر اکرم (ص) ہیں، کیونکہ پیغمبر پر وحی ہوتی ہے، اور اگر امام معصوم کوئی حکم بیان کرتا ہے تو وہ اپنی طرف سے نہیں ، بلکہ قرآن کریم یا پیغمبر اکرم (ص) سے حاصل ہوئے علم کی بناپر ہوتا ہے، لہٰذا اختلاف حل کرنے والوں کی صف میں اولوا الامرکو ذکر نہ کرنے کی وجہ روشن ہوجاتی ہے۔
حوالہ: تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۴۳۵


کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں ؟

کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں ؟
خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیہودہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ہو، تم کہتے ہو کہ خدا کا نہ جسم ہے اور نہ اس کے رہنے کے لئے کوئی جگہ، نہ زمان درکار ہے اور نہ کوئی رنگ و بووغیرہ تو ایسے وجودکو کس طرح درک کیا جاسکتاہے اور کس ذریعہ سے پہچانا جاسکتا ہے؟لہٰذا ہم تو صرف اسی چیز پر ایمان لاسکتے ہیں کہ جس کو اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکیں اور جس چیز کو ہماری عقل درک نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے“۔
جواب :اس اعتراض کے جواب میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی جاسکتی ہے:

۱۔ معرفت خدا کے سلسلہ میں مادیوں کی مخالفت کے اسباب :
ان کا علمی غرور اور ان کا تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دینا ، اور اسی طرح ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ قرار دینا ہے، نیز اس بات کا قائل ہونا کہ طبیعی اور مادی چیزوں کے ذریعہ ہی کسی چیز کو درک کیا جاسکتا ہے، (یہ سخت بھول ہے۔)
کیونکہ ہم اس مقام پر ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سائنس کے سمجھنے اور پرکھنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟!
واضح ہے کہ اس سوال کا جواب مثبت ہے کیونکہ سائنس کے حدود دوسری موجودات کی طرح محدود ہیں ۔
تو پھر کس طرح لامحدود موجود کو طبیعی چیزوں کے ذریعہ درک کیا جاسکتا ہے؟۔
لہٰذا بنیادی طور پر خداوندعالم، اور موجودات ِماورائے طبیعت ،سائنس کی رسائی سے باہر ہیں، اورجو چیزیں ماورائے طبیعت ہوں ان کو سائنس کے آلات کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، ”ماورائے طبیعت “سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس کے ذریعہ ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سے ہر شعبہ کے لئے ایک الگ میزان و مقیاس ہوتا ہے جس سے دوسرے شعبہ میں کام نہیں لیا جاسکتا، نجوم شناسی، فضا شناسی اور جراثیم شناسی میں ریسرچ کے اسباب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔
کبھی بھی ایک مادی ماہر اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایک منجم سے کہا جائے کہ فلاں جرثومہ کو ستارہ شناسی وسائل کے ذریعہ ثابت کرو، اسی طرح ایک جراثیم شناس ماہر سے اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آلات کے ذریعہ ستاروں کے بارے میں خبر دے ، کیونکہ ہر شخص اپنے علم کے لحاظ سے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکتا ہے، اور اپنے دائرے سے باہر نکل کر کسی چیز کے بارے میں ”مثبت“ یا ”منفی“ نظریہ نہیں دے سکتا۔
لہٰذا ہم کس طرح سائنس کو اس بات کا حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے دائرے سے باہر بحث و گفتگو کرے ، حالانکہ اس کے دائرے کی حد عالم طبیعت اور اس کے آثار و خواص ہیں؟!
ایک مادی ماہر کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ”ماورائے طبیعت“ کے سلسلہ میں خاموش ہوں، کیونکہ یہ میرے دائر ے سے باہر کی بات ہے، نہ یہ کہ وہ ماورائے طبیعت کا انکار کرڈالے، یہ حق اس کو نہیں دیا جاسکتا۔
جیسا کہ اصولِ فلسفہٴ حسی کا بانی ” ا گسٹ کانٹ“ اپنی کتاب ”کلماتی در پیرامون فلسفہ حسی“ میں کہتا ہے:”چونکہ ہم موجودات کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں لہٰذا اپنے زمانہ سے پہلے یا اپنے زمانہ کے بعد آنے والی موجودات کا انکار نہیں کرسکتے، جس طرح سے ان کو ثابت بھی نہیں کرسکتے،(غور کیجئے گا(
خلاصہ یہ کہ حسی فلسفہ ، جہل مطلق کے ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نہیں دےتا، لہٰذا حسی فلسفہ کے فرعی علوم کو بھی موجوات کے آغاز اور انجام کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ، یعنی ہم خدا کے علم و حکمت ، او راس کے وجود کا انکار نہ کریں اور اس کے بارے میں نفی و اثبات کے سلسلہ میں بے طرف رہیں ،(نہ انکار کریں اور نہ اثبات) “
ہمارے کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ”ماورائے طبیعت دنیا“ کو سائنس کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نہیں ہوسکتا۔
دنیا بھر کے خداپرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ہے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ہے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نہیں کیا جاسکتا۔
لہٰذا یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گہرائیوں میں میکروسکوپ (Microscope) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بیہودہ اور بےجا ہے۔

۲۔ اس کی نشانیاں
دنیا کی ہر چیز کی پہچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ہی اس کو پہچانا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ہیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ہی پہچانتے ہیں، (غور کیجئے )
کیونکہ کوئی بھی چیز ہمارے فکر و خیال میں داخل نہیں ہوسکتی اور ہمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر: اگر آپ آنکھوں کے ذریعہ کسی جسم کو تشخیص دینا چاہیں اور اس کے وجود کو درک کرنا چاہیں تو شروع میں اس چیز کی طرف دیکھیں گے اس کے بعد نور کی شعائیں اس پر پڑتی ہیں اور آنکھ کی پتلی میں نورانی لہریں ”شبکیہ“ نامی آنکھ کے پردہ پر منعکس ہوتی ہیں تو بینائی اعصاب نور کو حاصل کرکے مغز تک پہنچاتے ہیں او ر پھر انسان اس کو سمجھ لیتا ہے۔
اور اگر لمس کے ذریعہ (یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پہنچاتے ہیں اور انسان اس کو درک کرتا ہے، لہٰذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور کبھی بھی وہ جسم ہمارے مغز میں قرار نہیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ہو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ہو تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں پہچان سکتے۔
مزید یہ کہ کسی چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ہونا کافی ہے، مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم کرنا ہوکہ دس ہزار سال پہلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وہاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ہونا کافی ہے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائیں گی۔
اس بات کے پیش نظر ہر موجود چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے اور یہ کہ ہر چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ہونا کافی ہے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نہیں ہے؟!
آپ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ہیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ہزار سال پہلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ہیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ہمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے کراں نظم ، جیسی چیزیں موجود ہیں کیا اتنے آثار کافی نہیں ہیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ہر جگہ موجود ہیں، پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نہیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نہیں دیکھ سکے، توکیا ہر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاہے؟!

۳۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:
خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے اس کوقبول نہیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ہونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں جن کو دیکھا اوردرک نہیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ہونے والی چیزیں صفر شمار ہوتی ہیں!
نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
۱۔ علم فیزکس کہتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ہیں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں۔
اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ نور کی لہروں کے ذریعہ رنگ پیدا ہوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ہوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ہضم کرلیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے جن کو واپس کرتا ہے وہ وہی رنگ ہوتا ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں، لہٰذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لہروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں، یعنی اگر نور کی لہروں کی شدت فی سیکنڈ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پہنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لہروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے ، اس سے زیادہ لہروں یا کم لہروں میں بہت سے رنگ ہوتے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھ پاتے ۔
۲۔ آواز کی موجیں ۱۶/مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۰۰۰/۲۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ہمارے لئے قابل فہم ہیں اگر اس سے کم یا زیادہ ہوجائے تو ہم اس آواز کو نہیں سن سکتے۔
۳۔ امواجِ نور کی جن لہروں کو ہم درک کرسکتے ہیں انھیں۴۵۸ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ہونا چاہئے اس سے کم یا زیادہ چاہے فضا میں کتنی ہی آوازیں موجود ہوں ہم ان کو درک نہیں کرسکتے۔
۴۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعدادانسان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نہیں جاسکتے ، اور شایداس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ہو۔
۵۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نہیں ہے، حالانکہ دنیاکی ہر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ہوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دانشور وں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نہیں جھٹلایا۔
خلاصہ: منجملہ ان چیزوں کے جو محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی دانشور نے ان کا انکار نہیں کیا ہے زمین کی حرکت ہے یعنی 8کرہٴ زمین گھومتی ہے، اور یہ وہی ”مدو جزر“(پھیلنا اورسکڑنا ) ہے جو اس زمین پر رونما ہوتا ہے، اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے، جس کو نہ کبھی ہم نے دیکھا، اور نہ کبھی اس کااحساس کیا، یہ زمین دن میں دو بار ۳۰cmاوپر آتی ہے
انھیں چیزوں میں سے ہوا بھی ہے جوہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتی ہے اوراس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے لہٰذا اس دباؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جبکہ کوئی بھی انسان یہ تصور نہیں کرتا کہ ہوا اس قدر وزنی ہے، ”گلیلیو“ اور ”پاسکال“ سے پہلے کسی کو ہوا کے وزن کا علم نہیں تھا، اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواہی دے دی پھر بھی ہم اس کا احساس نہیں کرتے
انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے ”اٹر“ ہے کہ بہت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کااعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئے تمام جگہوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ”اٹر“ ایک بے وزن اوربے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ہوئے ہے، لیکن ہم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں

خلاصہ یہ کہ ہمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے لہٰذا ان کے ذریعہ ہم عالَم کو بھی محدود مانیں۔  مذکورہ بالا مطلب کی تصدیق کے لئے ”کامیل فلامارین“ کی کتاب ”اسرار موت“ سے ایک اقتباس آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر تے ہیں:
”لوگ جہالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور انسان یہ نہیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ہی حقائق کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں“! اس کے بعد ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے جن کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے، اوراس کے بعد موٴلف کتا ب ایک ایک کرکے بیان کرتا ہے اور پھر ہر ایک حس کی محدودیت کو ثابت کرتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے:”لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عقل اور سائنس کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ بہت سی حرکات ، ذرات، ہوا ، طاقتیں اور دیگر چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے، اور ان حواس میں سے کسی ایک سے بھی ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اطراف میں بہت سی ایسی چیزیں ہوں جن کا ہم احساس نہیں کرتے ، بہت سے ایسے جاندار ہوں جن کو ہم نہیں دیکھتے، جن کا احساس نہیں کرتے، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ”ہیں“ بلکہ ہم یہ کہیں : ”ممکن ہے کہ ہوں“ کیونکہ گزشتہ باتوں کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو ہمارے لئے کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ بلکہ یہی حواس بعض اوقات تو ہمیں فریب دیتے ہیں ،اور بہت سی چیزوں کو حقیقت کے بر خلاف دکھاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ تمام موجودات کی حقیقت صرف وہی ہے جس کو ہم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرلیں، بلکہ ہمیں اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ بہت سی موجودات ہوں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، جیسا کہ ”جراثیم“ کے کشف سے پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ”لاکھوں جراثیم“ ہر چیزکے چاروں طرف موجود ہوں گے، اور ان جراثیم کے لئے ہر جاندار کی زندگی ایک میدان کی صورت رکھتی ہوگی
نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے یہ ظاہری حواس اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ موجودات کی حقیقت اور ان کی واقعیت کا صحیح پتہ لگاسکیں، مکمل طور پر حقائق کو بیان کرنے والی شئے ہماری عقل اور فکر ہوتی ہے“ (نقل از علی اطلال المذہب المادی، تالیف فرید وجدی ، جلد ۴)

لہٰذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، آپ دیکھئے دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں بھری پڑی ہیں جو غیر محسوس ہیں جن کو ہمارے حواس درک نہیں کرسکتے!
جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پہلے یا ذرہ بینی (چھوٹی چھوٹی چیزوں) کے کشف سے پہلے کسی کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے لحاظ سے مخفی ہوں اور ابھی تک سائنس نے ان کو کشف نہ کیا ہو بلکہ بعد میں کشف ہوں تو ایسی صورت میں ہماری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان شرائط (علم کا محدود ہونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ہونے) کے تحت ہم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نہیں ہیں۔
البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ دعویٰ کرناچاہتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون ، پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کرکے بعض مجہول چیزوں کو کشف کرلے گا، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز و سامان کے ذریعہ ”عالم ماورائے طبیعت“ کو بھی کشف کرلے!
جی نہیں، اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ ”ماورائے طبیعت“ اور ”ماورائے مادہ “ کو مادی وسائل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و سازو سامان کے بس کی بات نہیں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ہونے سے پہلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نہیں تھا اور ہمیں اس بات کا حق نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کوچونکہ ہم نہیں دیکھتے؛ جن چیزوں کو دنیاوی سازو سامان کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ، یاوہ سائنس کے ذریعہ ثابت نہیں ہیں لہٰذا ان کا کوئی وجود نہیں ہے، اسی طرح سے ”ماورائے طبیعت“ کے بارے میں یہ نظریہ نہیں دے سکتے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہٰذا اس غلط راستہ کو چھوڑنا ہوگا اور خدا پرستوں کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ہوگا) .

  حوالہ: آفریدگار جہان، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی بحثوں کا مجموعہ، صفحہ ۲۴۸