بدھ، 5 اپریل، 2017

کیا شرعی طور پر شتر مرغ حلال ہے؟

*شتر مرغ٭
سوال) کیا شرعی طور پر شتر مرغ حلال ہے؟ پرندوں کی پہچان کیسے کی جائے کہ وہ حلال ہیں یا حرام؟
جواب) ہر وہ پرندہ جو شاہین، عقاب، باز اور شکرے کی طرح چیرنے پھاڑنے والا اور پنجے دار ہو حرام ہے اور ظاہر یہ ہے کہ ہر وہ پرندہ جو اڑتے وقت پروں کو مارتا کم اور بے حرکت زیادہ رکھتا ہے نیز پنجنے دار ہے، حرام ہوتا ہے۔ اور ہر وہ پرندہ جو اڑتے وقت پروں کو مارتا زیادہ اور بے حرکت کم رکھتا ہے، وہ حلال ہے، اسی فرق کی بنا پر حرام گوشت پرندوں کو حلال گوشت پرندوں میں سے ان کی پرواز کی کیفیت دیکھ کر پہچانا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی پرندے کی پرواز کی کیفیت معلوم نہ ہو تو اگر وہ پرندہ پوٹا، سنگدانہ اور پاوں کی پشت پر کانٹا رکھتا ہو تو وہ حلال ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک علامت بھی موجود نہ ہو تو وہ حرام ہے۔ کوّے کی تمام اقسام حتی کہ زاغ (پہاڑی کوے) سے بھی اجتناب کیا جائے اور جن پرندوں کا ذکر ہوچکا ہے ان کے علاوہ دوسرے تمام پرندے مثلاً مرغ، کبوت اور چڑیاں یہاں تک کہ شتر مرغ اور مور بھی حلال ہیں۔ لیکن بعض پرندوں جسیے ہدہد اور ابابیل کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔
پس شترمرغ حلال ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک بشمول ایران میں شتر مرغ کی باقاعدہ فارمنگ ہوتی ہے اور اس کا گوشت بکتا ہے۔ پاکستان میں بھی محدود پیمانے پر اس کا گوشت بکنے لگا ہے۔
العبد: جواد


سوال) ہمارے کس امام نے حج نہیں کیا؟ کہتے ہیں کہ امام حسن عسکری(ع) حج کی سعادت انجام نہ دے سکے تھے، یہ بات کس حد تک درست ہے؟

سوال) ہمارے کس امام نے حج نہیں کیا؟ کہتے ہیں کہ امام حسن عسکری(ع) حج کی سعادت انجام نہ دے سکے تھے، یہ بات کس حد تک درست ہے؟
جواب) عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ آئمہ ع میں سے صرف امام عسکری(ع) حج انجام نہ دے سکے، بعض ایرانی و عرب امام عسکری ع کی نیابت میں عمرہ اور حج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس دعوی کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ درست ہے کہ امام عسکری(ع) کو عباسی خلفاء نے سامراء میں نگرانی میں رکھا تھا لیکن بظاہر آپ قیدی نہیں تھے اور عباسی عمّال بظاہر احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔ امام عسکری ع سے بعض روایتیں بھی ملتی ہیں جو ان کے مکہ میں حضور کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بالفرض آپ سامراء سے نہیں نکل سکتے تھے تو وہ کسی کو حج کیلئے نائب بھی مقرر کر سکتے تھے، جو ان کی نیابت میں حج ادا کرتا۔
لہذا امام عسکری ع کے حج پر جانے یا نہ جانے کی ہمارے پاس کوئی روایت نہیں، لیکن ایسا بعید لگتا ہے کہ آپ نے حج نہ کیا ہو، قرین قیاس یہ ہے کہ آپ (ع) نے بھی حج کیا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟

٭کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟٭
انبیاء کو ہمیشہ ان افراد میں سے چنا گیا جن کی لوگ بات سنیں اور تسلیم کریں۔ انبیاء کبھی غلاموں میں بھی نہیں آئے تو اس کا مطلب نہیں کہ غلام انسان نہیں، یا اللہ کی نگاہ میں غلام کی حیثیت نہیں۔ عورتیں ہمیشہ سے ایسے معاشروں میں رہی ہیں جہاں ان کی حیثیت ہمیشہ سے مقہور و مجبور رہی ہے۔ اگر عورت نبی بنتی تو لوگ اس کی بالکل نہ سنتے، اس کی باتوں میں وہ اثر نہ ہوتا جو ایک مرد کی بات میں ہوتا۔ وہی شخص چنا جاتا ہے جس کی بات میں اثر ہو۔ رسول اللہ(ص) سمیت اکثر انبیاء بااثر خاندانوں میں پیدا ہوئے۔ اگر غلام یا کمتر افراد نبی بنتے تو ان کو معاشرہ ویسے ہی رد کر دیتا۔ عورتوں کا بھی یہی مسئلہ ہے، کہ عورت اکثر مقہور رہی ہے۔ لہذا مردوں کو ہی نبی بنایا گيا کیونکہ نبوت کا مقصد پیغام خداوندی کا ابلاغ ہے۔ البتہ عقلی لحاظ سے ناممکن نہیں کہ جن معاشروں میں عورت کا مقام ہو وہاں ان کو نبوت بھی ملتی۔
قرآن میں 26 یا 27 پیغمبروں کے نام آئے ہیں، جبکہ حقیقت میں پیغمبروں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بنا بر مشہور ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں، لیکن بعید نہیں کہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو۔ صرف 26 انبیاء کے نام آنے کا مطلب نہیں کہ باقی انبیاء کا وجود نہیں، گو کہ بعض آيات سے بظاہر لگتا ہے کہ انبیاء صرف مردوں میں آئے، لیکن ان میں خاتون نبی کی نفی بالکل بھی نہیں ہے۔ ذکر نہ ہونے کا مطلب نہیں کہ ان اصناف میں انبیاء کا ہونا ممکن نہیں۔
میں اس امکان کو رد نہیں کرتا کہ خواتین بھی نبی بنی ہوں گی کیونکہ نبوت کا تعلق ولایت سے ہے، اور ولایت کا تعلق کامل انسان ہونے سے ہے، جب عورت بھی مردوں کی طرح کامل انسان بن سکتی ہے تو نبوت و وحی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن میں مریم اور موسی(ع) کی بہنوں پر وحی کا ذکر ہے، جو اس بات کی غمّاز ہے کہ وحی کے سلسلے میں مرد اور عورت میں فرق نہیں۔ ہاں البتہ نبوت کے وہ مناصب جس میں رہبری اور قتال و جہاد لازمی ہے، یقینا عورت نبیہ ان سے مستثنی ہوگی۔
یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود میں بنی اسرائیل کی سات خاتون انبیاء کا ذکر ہے، بائبل کی کتاب لوقا میں بھی غالبا حضرت عیسی ع کی ولادت کے وقت بعض خاتون انبیاء کا ذکر ہے۔ ان میں جناب مریم کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں جناب مریم کی عظمت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسی عظمت تو شاید کسی مرد نبی کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ قرآن کے لحن سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب مریم ع نبی سے کم بھی نہیں تھیں، اور نبوت بمعنی حقائق کو درک کرنا اور دیگر لوگوں تک ابلاغ کرنا عین ممکن ہے
آیت اللہ جوادی آملی نے "زن در آینہ جلال و جمال" میں اس امکان کو رد نہیں کیا کہ عورت بھی نبیہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے نبوت کی دو اقسام بیان کی ہیں، نبوت انبائی و نبوت اجرائی۔ ان کے مطابق نبوت انبائی عورت کو مل سکتی ہے۔
اہلسنت علماء میں قرطبی اور ابن حزم نے خواتین میں بھی نبوت کو قبول کیا، ان کے نزدیک حضرت حوّا، سارہ، حضرت موسی کی والدہ، ہاجرہ، مریم اور آسیہ نبیہ تھیں۔ اس قول کی نسبت ابوالحسن اشعری کی طرف بھی دی جاتی ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


شیطان کو مہلت

٭شیطان کو مہلت٭
سوال) اللہ تعالی نے شیطان کو کب تک مہلت دی ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ اللہ نے قیامت تک کیلئے مہلت نہیں دی؟
جواب) سورہ حجر کی آیات 33 الی 37 میں ارشاد ہوتا ہے؛
قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ
اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے
وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ
اور تجھ پر تاروز قیامت لعنت ہو گئی.
قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے
قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ
فرمایا: تومہلت ملنے والوں میں سے ہے
إِلَى يَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ
معین وقت کے دن تک
آیات کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اللہ تعالی سے قیامت کے دن تک مہلت مانگ رہا ہے، لیکن اللہ اس کو ایک معین وقت تک مہلت دے رہا ہے۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معین وقت سے مراد کیا ہے؟ کیا وہی قیامت کا دن مراد ہے یا پھر کوئی اور معین وقت ہے؟
علامہ طباطبائی اور آیت اللہ مکارم شیرازی دونوں فرماتے ہیں کہ آيت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کی بات اس حد تک قبول کی گئی کہ اس کو مہلت مل گئی، لیکن وقت کے معاملے میں اس کی اجابت نہیں کی گئی، یعنی قیامت تک کے لئے مہلت نہیں بلکہ اس سے قبل تک کے لئے۔ ان مفسرین کے حساب سے "یوم وقت معلوم" قیامت کے علاوہ کوئی وقت ہے جو غالبا قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوگا۔
اس سلسلے میں مفسرین نے تین احتمالات کا ذکر کیا ہے؛
1) شیطان نے یوم حشر تک کی مہلت مانگی یعنی جب لوگ محشور کئے جائیں گے۔ لیکن اللہ نے اتنی مہلت نہ دی، البتہ اس کو دنیا کے اختتام تک کی مہلت ہے۔ یعنی جب سورج چاند بجھ جائیں گے اور کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔ بظاہر یہ رائے کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔
2) بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ شیطان کو اسرافیل کے صور پھونکنے تک مہلت دی ہے۔ اسرافیل دو دفعہ صور پھونکے گا، پہلی دفعہ دنیا بھر کے تمام موجودات مر جائیں گے، اور دوسری دفعہ تمام موجودات پھر سے زندہ ہوں گے۔ بظاہر یہ رائے کسی حد تک پہلی رائے سے قریب ہے۔
3) بعض روایات میں ہے کہ امام زمانہ عج کے ظہور تک شیطان کو مہلت دی گئی ہے۔ بعض روایات کے مطابق اللہ تعالی ملک الموت کو حکم دے گا کہ شیطان کی روح قبض کرے۔ تفسیر برھان اور تفسیر نور الثقلین میں اس مضمون کی روایات ہیں۔ البتہ یہ روایات ضعیف ہیں۔
4) کچھ روایات کے مطابق ظہور کے بعد خود امام زمانہ (عج) شیطان ملعون کو قتل کریں گے۔ یہ روایات بھی ضعیف ہیں۔ کچھ کے مطابق ابلیس کو زمانۂ رجعت میں قتل کیا جائے گا، لیکن یہ روایات پہلے طبقے سے زیادہ ناقابل اعتبار ہیں، سند کا اشکال اپنی جگہ، نیز گناہ و جزا کا تصور تو ظہور کے بعد بھی تا روز قیامت رہے گا۔
ان تمام آراء کو پڑھنے کے بعد معلوم یہی ہوتا ہے کہ شیطان کو مہلت دنیا کے اختتام تک دی گئی ہے۔ جس وقت صور اسرافیل پھونکا جائے گا اور تمام موجودات مر جائیں گے، شیطان بھی نیست و نابود ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ شیطان بھی ایک جن ہے، اور اس کے اعوان و انصار اور ساتھیوں میں جنات ہی ہیں، اور یہ سب شیاطین ہیں۔ تمام جن و انس حضرت اسرافیل کے صور پھونکنے پر مر جائیں گے، لہذا فقط ایک شیطان کی ہم بات نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں شیاطین کی بات کرنی چاھئے جو سب کے سب جنات ہی ہیں۔
اور اگر ہم "یوم وقت معلوم" کو یوم حشر بھی مان لیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ سب ایک ساتھ ہی ہوگا۔ پہلے قیامت آئے گی اور اس کے بعد حشر کا میدان ہو گا۔ چونکہ یہ ہمزمان ہیں اس لئے دونوں کو ایک وقت تصور کیا جا سکتا ہے۔ اور جب ہم خود قرآن سے "وقت معلوم" جاننا چاہتے ہیں تو اس بات کا جواب ہمیں قرآن ہی دے رہا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے؛
قُلْ اِنَّ الاَوَّلینَ وَ الآخِرینَ لَمَجْمُوعُونَ اِلى میقاتِ یَوْم مَعْلُوم
کہدیجئے: اگلے اور پچھلے یقینا سب، ایک مقررہ دن مقررہ وقت پرجمع کیے جائیں گے (سورہ واقعہ: 49 و 50)
پس قرآن سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یوم معلوم سے مراد قیامت کا دن ہے۔ لہذا پہلی اور دوسری رائے درست ہے، جس طرح بھی اس کو مانیں مفہوم ادا ہو جائے گا۔ البتہ باقی آراء ضعیف اخبار احاد پر مشتمل ہیں جن پر واضح قرآنی آیت کے مقابلے میں اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


یسوع مسیح کی معجزاتی تصویر

٭یسوع مسیح کی معجزاتی تصویر٭
عرصۂ دراز سے مسیحی برادران حضرت عیسی مسیح(ع) کے بارے میں مشتاق رہے ہیں کہ بشری لباس میں آنجناب کیسے دکھتے تھے۔ بدقسمتی سے بائبل میں کہیں پر بھی ان کے حلیے کا دقیق تذکرہ نہیں ملتا۔ اس اشتیاق کی جڑیں قدیم ایام سے جا ملتی ہے۔ مسیحیت کی پیدائش مشرق وسطی میں ہوئی، اور وہیں سے ارتقائی منازل طے کر کے دنیا کے مختلف خطوں بالخصوص یورپ میں پہنچی۔ ابتدائی عیسائیوں کا تعلق موجودہ زمانے کے شام و عراق و فلسطین وغیرہ سے تھا۔
اسی سرزمین سے حضرت عیسی(ع) کی ایک دلچسپ معجزاتی تصویر کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ شام میں ایک سلطنت ادیسہ کے نام سے تھی جس کا دارالحکومت ادیسہ کے ہی نام سے موجودہ شام کے بارڈر کے قریب ترکی میں ہے۔ آجکل اس شہر کا نام "ارفا" ہے۔ یہاں کے باسیوں کی زبان آرامی تھی، جو اس زمانے میں مشرق وسطی میں رائج زبان تھی۔ ان کے لہجے کو سیریائی کہا جاتا ہے۔ غالبا انہی کی وجہ سے آج ملک شام کا نام سوریا بھی ہے۔
یسوع مسیج کی معجزاتی تصویر کی کہانی اسی شہر سے شروع ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس ملک پر حضرت عیسی (ع) کے زمانے میں ابگار *Abgar* نامی بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ شدید بیمار ہوا، ابگار کو اطلاع ملی کہ یسوع مسیح لوگوں کو شفایاب کر دیتا ہے۔ اس نے اپنے کچھ خاص مصاحبوں کو یروشلم بھیجا تاکہ حضرت عیسی سے ادیسہ آنے کی درخواست کریں، بادشاہ کو شفایاب کریں اور لوگوں کو مسیحیت کی تبلیغ کریں۔ جب یہ وفد حضرت عیسی ع کے پاس پہنچا اور ان تک درخواست پہنچائی تو آپ نے ادیسہ جانے سے انکار کیا اور کہا کہ ان کیلئے بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی ذمہ داری ہے، لیکن وعدہ کیا کہ جلد وہ خود یا ان کے حواریوں میں سے کسی کو ادیسہ بھیجیں گے۔
تاریخ میں یہ واقعہ سب سے پہلے چوتھی صدی عیسوی میں ریکارڈ ہوا۔ قیصیریہ کے بشپ یوسبیس *Eusebius* نے چرچ کی تاریخ مرتب کی جس میں پہلی صدی سے لے کر چوتھی صدی تک مسیحیت کی تاریخ تھی۔ یہ تاریخی کتاب اب بھی مخطوطات کی شکل میں موجود ہے۔ اس کتاب میں مؤلف نے ادیسہ کے بادشاہ ابگار کے خط کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس میں کسی بھی تصویر کا ذکر نہیں ہے۔
اس کے بعد پانچویں صدی عیسوی کے بالکل ابتدا میں ہمیں ایک اور شامی عیسائی تحریر میں ابگار کی کہانی تفصیل سے ملتی ہے۔ لیکن اس دفعہ کہانی میں یہ اضافہ ہوتا ہے کہ بادشاہ ابگار نے اپنے شاہی پینٹر کو وفد کے ساتھ بھیجا جس نے یروشلم میں حضرت عیسی کی تصویر بنائی اور یہ تصویر اپنے ساتھ واپس ادیسہ لے آیا۔ ہانچویں صدی عیسوی کی اس تحریر میں ایک ایسی تصویر کا ذکر ہے جس کو دیکھ کر لوگوں کو دلی سکون ہوتا ہے۔ یہ تصویر اتنی کرامتی تصور کی گئی کہ اس نے کئی دفعہ ادیسہ شہر کو ایرانیوں کے حملوں سے بچایا جو اس وقت آتش پرست یعنی زرتشتی تھے۔
اس تصویر کی کہانی میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملا جب کچھ عرصے بعد یہ باور کیا جانے لگا کہ حضرت یسوع مسیح چونکہ خدا کے بیٹے ہیں (مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق)، لہذا ان کے چہرے کو کوئی عام انسان نہیں بنا سکتا۔ اس کہانی میں اضافہ یہ ہوا کہ جب شاہی پینٹر نے حضرت عیسی کی تصویر بنانی چاھی تو حضرت عیسی ع کا عجیب نور مانع ہوا اور وہ کوشش کے باوجود تصویر بنانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جب حضرت عیسی نے یہ صورتحال دیکھی تو اس سے کپڑا لے لیا اور اپنے چہرے پر مل لیا، جس سے ان کے چہرہ اقدس کی چھاپ کپڑے پر آگئی۔ وفد یہ تصویر لے کر بادشاہ کے پاس واپس آیا جس نے بہت عزت و احترام کے ساتھ اس تصویر کا استقبال کیا اور بہت ہی عالیشان جگہ پر رکھا۔ یہ کرامتی تصویر اتنی مشہور تھی کہ لوگ یسوع مسیح کی تصویر دیکھ کر ہی شفایاب ہو جاتے تھے۔ یسوع مسیح کا نور ان کی تصویر میں عیاں تھا۔
ادیسہ کی تصویر کا یہ واقعہ مسیحی دنیا میں بہت مقبول ہوا، دنیا کے مختلف چرچوں میں اس واقعے کی تصویر کشی کی گئی۔ مصر اس وقت تک مکمّل مسیحی تھا، وہاں کلیساؤں کے باقیات میں منظر کشی آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ صحرائے سینا کے چرچ میں ایک تصویر دیوار پر اب بھی موجود ہے جس میں بادشاہ ابگار کو دکھایا گیا ہے جب اس کے سامنے یسوع مسیح کی تصویر پیش کی گئی اور وہ بہت احترام سے تصویر کو چوم رہا ہے جو ایک کپڑے کے ٹکڑے پر منعکس ہے۔
اس کہانی میں ایک ٹوسٹ مزید آیا جب آگے چل کر اس میں یہ اضافہ ہوا کہ وفد جب یروشلم سے واپس آ رہا تھا تو راستے میں کسی جگہ اس وفد کو رکنا پڑا۔ چور اچکوں کے ڈر سے وفد کے افراد نے تصویر کو دیوار کے بیچ میں چھپا دیا۔ اگلے دن وہ روانہ ہو گئے لیکن اس علاقے کے باسیوں نے دیکھا کہ اس تصویر کی کاپی دیوار کی اینٹ پر منقوش ہو گئی ہے۔ اس کو حضرت یسوع مسیح کا ایک معجزہ سمجھا گیا۔
کہتے ہیں کہ ادیسہ پر جب ایرانی ساسانیوں کا قبضہ ہوا تو یہ تصویر قسطنطنیہ پہنچی جو اس وقت رومی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ شہنشاہ نے احترام کے ساتھ اس تصویر کا استقبال کیا۔ 1204 عیسوی میں جب صلیبی جنگیں شروع ہوئیں اور یورپیوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تو یہ تصویر ناپید ہو گئی۔ اس کے بعد اس تصویر کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں ہے۔
ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ تصویر کی کہانی پانچویں صدی عیسوی میں گھڑی گئی۔ ایک عام خط سے الوہی تصویر تک کا سفر طے ہوا۔ یہ تصور کیا گیا کہ یسوع مسیح کی تصویر عام شخص بنا ہی نہیں سکتا۔ اس کہانی کے اختراع کی وجہ یہی بنی کہ ادیسہ میں مسیحی اقلیت میں تھے، ان کو اپنے مذہب کو سربلند رکھنے کیلئے اس کہانی کی ضرورت پیش آئی اور اس تصویر کے ذریعے انہوں نے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نویں صدی عیسوی کے مصری عیسائی عالم ابو قرّہ نے عربی تصانیف میں اس تصویر کو مسیحیت کے حقانیت کے طور پر پیش کیا۔ تیرھویں صدی عیسوی کے عرب عیسائی عالم ابوالمکارم نے بھی اس تصویر کے معجزاتی اثرات کا ذکر کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کہانی جب آرمینیا اور جارجیا پہنچی تو اس میں مزید تبدیلیاں ہوئیں۔ آرمینیائی روایات کے مطابق یہ ادیسہ کا بادشاہ نہیں تھا بلکہ آرمینیا کا بادشاہ تھا جس نے یروشلم میں یسوع مسیح کو خط لکھا تھا۔ جارجیا والوں نے دعوی کیا کہ یہ تصویر ان کے ملک میں رہی ہے۔ یہ دونوں قفقاز کی عیسائی ریاستیں ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ مشرق وسطی اور قفقاز کی عیسائیت یورپ کی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں سے بہت مختلف ہے۔ ان کو نسطوری یا مشرقی آرتھوڈوکس عیسائی کہا جاتا ہے۔
تحقیق و تحریر: سید جواد حسین رضوی


کیا شطرنج کھیلنا حرام ہے

٭کیا شطرنج کھیلنا حرام ہے٭
اسلام کے بعض احکام ثابت ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کی علّتیں ہیں اور یہ علّتیں زمان و مکان کے لحاظ سے عوض بھی ہوتی ہیں۔ جیسے نہج البلاغہ میں ہے کہ مولا علی علیہ السلام پر جب کسی نے اعتراض کیا کہ رسول ص نے تو داڑھی کو رنگنے کا حکم دیا تھا تاکہ یہود سے مشابہت نہ ہو لیکن آپ(ع) داڑھی نہیں رنگتے۔ تو اس پر مولا علی(ع) نے جواب دیا چونکہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی، اس لئے داڑھی کو رنگنے کا حکم ہوا (تاکہ لڑائی کے وقت دشمنوں پر ہیبت طاری ہو)۔ جبکہ اب مسلمان اکثریت میں ہیں لہذا اس کی ضرورت نہیں رہی۔ مولا علی ع داڑھی کو رنگتے نہیں تھے یعنی خضاب نہیں کرتے تھے۔
اس واقعے سے نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ جن احکامات کی علتیں بیان ہوئی ہیں وہ زمان و مکان کے تابع ہیں۔ اگر وہ علتیں موجود ہیں تو ان کا حکم ہوگا، اگر موجود نہیں تو اس کا حکم برعکس ہوگا۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں کہ آئمہ علیھم السلام نے سیاہ لباس کی سختی سے مذمت فرمائی بلکہ کئی جگہوں پر اس کو جہنمیوں کا لباس کہا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں عباسیوں نے سیاہ رنگ کو اپنا شعار بنایا تھا، لہذا اہل جور و ستم سے شباہت کو روکنے کیلئے سیاہ لباس سے منع کیا کيا۔ لیکن آج یہ موضوع نہیں ہے، سیاہ لباس ہرگز اہل جور و ظلم کی نشانی نہیں، پس آجکل سیاہ لباس حرام نہیں۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں کہ احادیث میں مسواک سے دانت صاف کرنے کا حکم آیا ہے، بعض قنوطیت پسند اس سنت کو ابھی بھی ڈنڈی میں مضمر سمجھتے ہیں، لیکن آج دانت صاف کرنے کے جدید طریقے رائج ہیں، پس جس طرح سے بھی دانت صاف کئے جائیں، سنت کے لئے کافی ہے۔ بالفاظ دیگر سنّت دانت صاف کرنا ہے، ڈنڈی استعمال کرنا نہیں ہے۔
اسی طرح اسلام کو کسی کھیل سے ذاتی طور پر دشمنی نہیں، جب تک اس کھیل میں کوئی خلاف شرع چیز نہ ہو۔۔۔ جیسے کہ وہ ریسلنگ جس میں عضو کے ٹوٹے جانے کا خطرہ ہو یا کسی اور کے اعضاء و جوارح کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو تو حرام ہے۔ اسی طرح شطرنج سے ممانعت کی علت اس کے آلت قمار میں سے ہونا تھا، جب موضوع نہیں رہے گا تو اس کی ممانعت بھی نہیں رہے گی۔
احادیث میں شطرنج کی مذمت ہے، لیکن اس کیلئے ہمیں اس زمانے میں شطرنج کے کھیل کو دیکھنا ہوگا۔ شطرنج کو معصومین علیھم السلام کے دور میں جوا کھیلنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ چونکہ جوا حرام ہے اور اس میں شامل ہر آلے سے کھیلنا حرام ہے چاہے شرط لگائی جائے یا نہ لگائی جائے۔ آلات قمار سے کھیلنے کی ممانعت کی علت یہ ہے کہ جوے جیسے گناہ کبیرہ کا راستہ روکا جا سکے، اس وجہ سے شطرنج کی بھی شدید ممانعت آئی ہے۔
آجکل کے زمانے میں یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ شطرنج کہیں پر بھی جوے کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ جب موضوع نہیں تو حکم بھی منتفی ہو جاتا ہے۔ جیسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں اس بات کو واضح کیا۔ بلکہ شطرنج کو دماعی گیم کے طور پر لیا جاتا ہے، عالمی سطح پر اس کے مقابلے ہوتے ہیں۔ نیز دماغ کی بند گرہوں کو کھولنے اور ذہانت کو بڑھانے کیلئے شطرنج کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ لہذا آجکل نہ صرف اس کی قباحت ختم ہو گئی بلکہ اس میں مفید عناصر بھی پیدا ہو گئے ہیں۔
اس کے برعکس تاش کے پتوں سے اب جوا کھیلنا عام ہے لہذا اب تاش کے پتّے آلات قمار میں شمار ہو سکتے ہیں، حالانکہ معصومین ع کے ادوار میں تاش کے پتوں کا استعمال نہیں تھا، اس لئے ہمیں اس پر حدیث بھی نہیں ملتی، لیکن اصل علّت موجود ہے جس کو شارع نے ناپسند کیا ہے۔
اسی وجہ سے معاصر مراجع کی ایک تعداد شطرنج کو حرام نہیں سمجھتی، جیسے آیات عظام مکارم شیرازی و خامنہ ای و مرحوم لنکرانی۔ جبکہ آیت اللہ سیستانی اس کو روایات کی بنا پر حرام کہتے ہیں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


خواتین کا جماعت میں نماز ادا کرنا

*خواتین کا جماعت میں نماز ادا کرنا *
سوال:کیا خواتین جماعت میں نماز ادا کر سکتی ہیں؟ احادیث و سیرت معصومین علیھم السلام کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب: ہمیں سیرت معصومین(ع) میں متعدد مقامات پر خواتین کے بارے میں ملتا ہے کہ مساجد میں نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں اور کبھی ان کو کسی معصوم نے نہیں روکا۔ سب سے اہم رسول اللہ(ص)کی سیرت ہے، آپ کے زمانے میں خواتین باقاعدہ جماعت میں شرکت کرتی تھیں اور کئی جگہوں پر ملتا ہے کہ یہ خواتین ان سے سوالات بھی کرتی تھیں۔ مسجد نبوی میں الگ سے دروازہ تھا جس کو "باب النساء" کہتے تھے جہاں خواتین کی آمد و رفت ہوتی تھی، یہ نام بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین بلاروک ٹوک آیا کرتی تھیں۔
ہمیں مولا علی(ع) سے ایک حدیث ملتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں؛ َ قَالَ عَلِيٌّ ع كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ مَعَ النَّبِيِّ ص وَ كُنَّ يُؤْمَرْنَ أَنْ لَا يَرْفَعْنَ رُءُوسَهُنَّ قَبْلَ الرِّجَالِ لِضِيقِ الْأُزُر
خواتین اپنی نمازوں کو رسول اللہ(ص) کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں اور ان کو حکم تھا کہ مردوں سے پہلے سر نہ اٹھائیں کیونکہ مردوں کے کپڑے (ازار) جھوٹے ہوئے کرتے تھے۔ (قرب الاسناد؛ص18، من لا یحضرہ الفقیہ؛ ج1 ص396، وسائل الشیعہ؛ج8 ص343)
اس سے ملتی جلتی روایت علل الشرائع میں بھی موجود ہے۔
ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جب رسول اللہ(ص) کو کسی نوزاد بچے کی رونے کی آواز آتی تھی تو نماز کو مختصر کر دیتے تھے تاکہ اس کی ماں کو اور بچے کو تکلیف نہ ہو۔
امام صادق(ع) اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں؛ َ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَسْمَعُ صَوْتَ الصَّبِيِّ يَبْكِي وَ هُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيُخَفِّفُ الصَّلَاةَ فَتَصِيرُ إِلَيْهِ أُمُّه
یعنی جب رسول اللہ(ص) کسی بچے کی رونے کی آواز سنتے تھے تو نماز کو مختصر کر دیتے تھے تاکہ اس کی ماں پریشان نہ ہو۔ (علل الشرائع؛ج2 ص344، وسائل الشیعہ؛ ج8 ص341)
یہ سب اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ(ص) کے دور میں خواتین باقاعدہ جماعت میں شرکت کرتی تھیں اور انہوں نے کبھی منع نہیں فرمایا۔ اس کے علاوہ تمام مومنین پر مسجد میں نماز پڑھنے کا استحباب بھی شامل ہے جن میں تمام مرد و عورت پر مسجد میں نماز پڑھنے کی تاکید ہے۔ مثلا؛
لْمَسْجِدُ بَیْتُ کُلِّ مُؤْمنٍ یعنی رسول اللہ(ص) نے فرمایا؛ مسجد ہر مومن کا گھر ہے، نیز فرمایا؛ إنّ الْمَساجِدَ بُیُوتُ الْمُتّقینَ یعنی مساجد متقین کے گھر ہیں (مستدرک الوسائل؛ ج3 ص359)
ہاں البتہ کچھ روایتوں میں ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ خواتین کے لئے بہترین یہ ہے کہ اپنے گھر پر پڑھے بلکہ گھر میں بھی سب سے چھپی ہوئی جگہ پر پڑھے۔
مثلا امام صادق(ع) فرماتے ہیں؛ خَیْرُ مَساجِدِ نِسائِکُمْ الْبُیوتُ یعنی خواتین کے لئے بہترین مساجد ان کے گھر ہیں (وسائل الشیعہ؛ ج5 ص236)
یہ دونوں اقسام کی روایتیں باہم معارض نظر آتی ہیں جبکہ ایسا ہے نہیں، دونوں کے درمیان ہم جمع کریں گے۔ یعنی اگر حجاب کی شرائط مکمل ہوں تو خواتین کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا بہتر ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اپنے گھر پر پڑھنا ان کے لئے افضل ہوگا۔ مسجد جاتے ہوئے فساد کا خطرہ ہو تو افضل یہی ہے کہ گھر پر نماز پڑھی جائے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
خاکسار: سید جواد حسین رضوی


کیا امت محمدی ہو بہو سابقہ امتوں کی پیروی کرے گی

٭کیا امت محمدی ہو بہو سابقہ امتوں کی پیروی کرے گی٭
بعض احادیث میں ملتا ہے کہ امت محمدی اپنے افعال میں ہو بہو سابقہ امتوں کی پیروی کرے گی۔ اس کو ماننے کی صورت میں بہت سے اشکالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں سرفہرست مسئلہ تحریف قرآن ہے۔ جیسا کہ آج سب پر روشن ہیں کہ اہل کتاب کے ہاں جو کتب انبیاء سے منسوب رائج ہیں ان میں سے اکثر اوروں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں، جس پر انشاء اللہ کسی اور موقع پر تفصیل سے لکھیں گے۔ کم سے کم یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ یہ کتب تحریف شدہ ہیں۔ لہذا جیسے یہ امتیں اپنی کتابوں میں تحریف کی مرتکب ہوئیں ویسے ہی امت محمدی بھی قرآن میں تحریف کر چکی ہے۔
آئیے ان روایات کو ذرا دیکھتے ہیں، کیا یہ قابل اعتبار ہیں؟
اس مضمون کی روایات شیعہ سنی کتب میں موجود ہیں، شیعہ متون میں بھی ہے لیکن یہ اہلسنت منابع سے ہمارے ہاں آیا ہے۔ شیخ صدوق غیاث بن ابراهیم سے، وہ امام جعفر صادق سے اور وہ اپنے جدِامجد سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:
ما کان فی الامم السالفه فانه یکون فی هذه الامّه مثله حذو النعل بالنعل والقذه بالقذه
یعنی جو کچھ گذشتہ امتوں کو درپیش آیا ہے،وہی کچھ اس امت کو بھی ہوبہو پیش آئے گا-
(کمال الدین و تمام النعمہ، ص576)
یہ روایات بعض اخباری جیسے صاحبِ فصل الخطاب میرزا حسین نوری طبرسی کےلئے موردِ توجہ بنا ہے، ان روایات سے استناد کا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ گذشتہ آسمانی کتب جیسے انجیل و تورات تحریف شدہ ہیں،پس قرآن بھی تحریف شدہ ہے۔
آیت الله العظمی ابوالقاسم خوئی قدس سرّه نے اپنی گرانقدر کتاب "البیان"میں اس روایت پر تنقید کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
"سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ روایات خبرِ واحد ہیں لہٰذا مفیدِ علم و یقین نہیں ہیں اور ان کے تواتر کا دعوی نیز عبث ہے۔ ان روایات کا حدیث کے مشہور منابع جیسے کتبِ اربعہ میں بھی ذکر نہیں ہوا ہے۔ ثانیاََ اگر یہ روایتیں درست بھی ہوں تو یہ قرآن میں کمی کے علاوہ اضافے کا بھی اثبات کررہی ہیں کیونکہ تورات و انجیل میں اضافہ بھی ہوا ہے؛ حالانکہ قرآن کی آیات میں اضافہ ہونا غلط ہے اور کوئی بھی ایسا عقیدہ نہیں رکھتا (کیونکہ جو افراد تحریف کے قائل ہیں وہ کمی کو مانتے ہیں اضافے کو نہیں، راقم)
ثالثاََ بہت سے ایسے واقعات بھی گذشتہ امتوں میں ہوئے ہیں جو کہ اس امت میں پیش نہیں آئے۔ مثلاََ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اور ان کا بیابان میں چالیس سال سرگرداں رہنا، فرعون اور اس کے لشکر کا غرق ہونا، سلیمان کی جن و انس پر سلطنت، حضرت عیسی کا آسمان پر جانا، حضرت ہارون وصیِ موسی کا موسی(ع) کی زندگی میں وفات پاجانا، حضرت موسی کا نو معجزات دکھانا، حضرت عیسی کا بغیر باپ کے پیدا ہونا، گذشتہ امتوں کو مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنانا۔"
علامہ سید مرتضی عسکری نے اپنی کتاب "خمسون مائة صحابی مختلق" میں ان روایات کو موضوع (مجعول) شمار کیا ہے۔ لہذا اس مضمون کی روایات درایت کے لحاظ سے درست نہیں ہیں اور ان کے موضوع (جعلی ہونے) کا احتمال قوی ہے، چنانچہ ان روایات کے ظاہر کو تسلیم نہیں کرنا چاھئے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
خاکسار: سید جواد حسین رضوی
نوٹ: یہ حصّہ موضوع (جعلی) احادیث پر مشتمل ہماری فارسی تحریر سے اقتباس ہے، اردو مترجم آقائے ناشناس کا بہت شکریہ۔


گرو ھرکرشن صاحب



٭گرو ھرکرشن صاحب٭
سکھوں کے آٹھویں گرو ھر کرشن صاحب، جو پانچ سال کی عمر میں گرو کے مقام پر فائز ہوئے، آٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور کمترین مدت کیلئے گرو رہے۔
ان کو "بال گرو" بھی کہا جاتا ہے یعنی "بچہ گرو"۔ ان کے والد اور ساتویں گرو ہر رائے نے وفات سے پہلے اپنے بڑے بیٹے رام رائے کے بجائے چھوٹے بیٹے ھرکرشن کو گرو کیلئے چنا، وجہ یہ بتائی کہ ھرکرشن دل سے بہت نرم ہیں جو ایک گرو کا خاصہ ہے۔
اتنی چھوٹی عمر میں گرو بننے پر غیر سکھوں نے اعتراضات شروع کر دیے۔ کہتے ہیں کہ ایک پنڈت نے ان کو چیلنج کیا کہ اتنا چھوٹا گرو کیسے بنا؟ اگر یہ صحیح گرو ہے تو بھگوت گیتا کا صحیح صحیح ترجمہ کر دکھائے، جو اس زمانے تک سنسکرت میں تھی۔ گرو نے قبول کیا اور اپنے ساتھ ایک ان پڑھ شخص گنگو کو لے گئے۔ کہتے ہیں کہ گرو نے مجمع میں گنگو کے سر پر چھڑی سے اشارہ کیا اور یہ ان پڑھ شخص بھگوت گینا سنا کر صحیح صحیح ترجمہ کر کے بتانے لگا۔ اس کرامت والی جگہ پر ایک عظیم الشان گرودوارہ بھی موجود ہے جس کو پنجوکھڑہ صاحب کہا جاتا ہے اور موجودہ ریاست ہریانہ کے شہر "انبالہ" کے قریب ہے۔
گرو جی دہلی میں مقیم ہوئے اور جب وہاں چیچک کی وبا پھیلی تو گرو نرم مزاجی کے باعث بیماروں کا علاج اور تیمارداری کرتے رہے، اس وجہ سے چیچک نے ان کو بھی جا لیا۔ لیکن سکھ دھرم کا عقیدہ ہے کہ گروجی انسانوں کی یہ تکلیف نہ دیکھ سکے اور اپنی جان خداوند عالم کے سپرد کر دی۔
دم واپسیں اپنے پیروکاروں کے سامنے جانشینی کا تعین کیا، نقاہت کی وجہ سے تین دفعہ ہاتھ اٹھا سکے اور کہا "بابا بکالہ"، یعنی ان کا جانشین بابا بکالہ نامی جگہ پر ہے۔ ان کے بعد گرو تیغ بہادر نویں گرو بنے۔
الاحقر: سید جواد حسین رضوی


منگل، 28 مارچ، 2017

کیا آیت اللہ خامنہ ای سید خراسانی ہیں؟

٭کیا آیت اللہ خامنہ ای سید خراسانی ہیں؟٭
آجکل یہ روش بہت عام ہے کہ ایرانی بلاگز جو کسی شخص کو اپنے مزاج کے مطابق نظر آئے، فورا ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیتے ہیں۔ شاید فارسی یا عربی میں لکھی ہوئی ہر تحریر کو مقدس شمار کیا جاتا ہے یا شاید کوئی اور وجہ ہو، بہرحال اس طرح کے بلاگز کے ترجمے کے وقت کسی بھی تحقیق یا تصدیق کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور بس ترجمہ کر کے جنگل میں آگ کے مصداق سوشل میڈیا پر لائکس و شیئر کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ ایران و عرب میں سب مقدّس نہیں رہتے، مختلف خیال و نظریات کے لوگ وہاں پر بھی بستے ہیں، یہ افراد اپنے مدعا کے اثبات کیلئے جھوٹ اور سچ سب مکس کر کے بیان کرتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ عرصہ پہلے شہید کربلا عابس بن شبیب (رض) کی قمہ زنی کی پوسٹ وائرل ہوئیں۔ تھوڑا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ کسی ایرانی مولائی بلاگ پر یہ واقعہ نقل ہوا، اور پاکستانی خوش عقیدہ افراد نے فورا اس کا ترجمہ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔ جب ہم نے اصل کتب سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ فارسی ترجمے میں تدلیس کی گئی، ورنہ اصل عبارت میں خونی ماتم کا کوئی ذکر نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ اس پوسٹ کو پرچار کرنے میں سوشل میڈیا کے بعض زعماء پیش پیش تھے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ وائرل بنا کر پھیلایا جا رہا ہے جس میں امام خمینی سے آیت اللہ خامنہ ای پر قاتلانہ حملہ چھپایا جاتا ہے، جب بعد میں ان کو سید خامنہ ای کا ہاتھ نظر آتا ہے تو پوچھتے ہیں کیا ہوا، بتایا جاتا ہے بم دھماکہ ہوا تھا۔ اس پر آپ شکر ادا کرتے ہیں، پھر بلاگ لکھنے والا رسول اللہ(ص) سے ایک روایت لکھتا ہے کہ سید خراسانی کے نام سے ایک شخص آئے گا جس کا نام علی ہوگا (شکر ہے کہ روایت میں علی خامنہ ای نہیں لکھا)، اس کا دایاں ہاتھ شل ہوگا، اور وہ حکومت حاصل کر کے صاحب امر کے حوالے کرے گا۔
جب یہ واقعہ خوش باور افراد کے ہاتھ لگا تو دھڑا دھڑ اس کا ترجمہ کر کے پھیلا کر اپنے تئیں ولایت فقیہ کی خدمت کرنے لگے۔ جب اس پوسٹ میں موجود بحارالانوار کے حوالے کو چیک کیا گيا تو مذکورہ ایڈریس پر ایسی کوئی روایت ہی نہیں ملی۔ البتہ سید خراسانی کے حوالے سے روایات موجود ہیں، لیکن بلاگ میں پیش کیا گيا متن درست نہیں۔ سید خراسانی کون ہیں اور کب آئیں گے، اس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
کچھ عرصہ پہلے جب کچھ ویب سائٹس نے ادعا کیا تھا کہ آقاي خامنہ ای سید خراسانی ہیں، احمدی نژاد شعیب بن صالح ہے، جن کا ذکر روایات میں ہے، اور حسن نصر اللہ سید یمانی ہیں۔ اس مدعا کو بہت زور و شور سے پھیلایا گيا، بعض کا دعوی ہے کہ یہ دشمنوں کی سازش تھی۔ بہرحال ان تمام باتوں سے مراجع اور جملہ محققین نے بیزاری کا اظہار کیا. روایات میں ہمیں ظہور کے وقت کو متعین کرنے سے منع کیا گیا ہے، لہذا اس طرح کی کاوشوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
اگر آقای خامنہ ای سید خراسانی ہیں، حالانکہ ان کا آبائی تعلق آذربائجان صوبے سے ہے، لیکن خراسان میں پلے بڑھے، تو حسن نصر اللہ "سید یمانی" کیسے ہوئے؟ اگر بالفرض مان لیں کہ ان کے اجداد یمنی تھے، تو اسٹینڈرڈ آبائی نسبت ہے یا موجودہ نسبت؟ اگر موجودہ نسبت ہے تو حسن نصر اللہ سید یمانی نہیں، اگر آبائی نسبت اسٹیندرڈ ہے تو آقای خامنہ ای سید خراسانی نہیں۔ اور احمدی نژاد کو شیعب بن صالح کہنا اس سے بھی زیادہ بھونڈی بات ہے۔
لہذا ان باتوں میں کان نہ دھریں اور نہ ایسی باتوں کو پھیلایا جائے۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کا تعلق زمانہ ظہور میں آنے والی شخصیات سے ہو یا نہ ہو، اللہ کے نیک بندے ہیں اور دین اسلام کا احیاء کرنے والوں میں سے ہیں، اللہ ان کو صحت و سلامتی و تندرستی عطا کرے۔ آج بعض افراد آیت اللہ خامنہ ای کیلئے وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو ایک زمانے میں آئمہ ع کیلئے بعض لوگ کرتے تھے۔ یعنی اپنے عقائد کے ادعا کیلئے ان ہستیوں سے کچھ بھی منسوب کر دیا جائے، اور اس کو دین کی خدمت گردانا جائے۔
اللہ ہم سب کو افراط و تفریط سے بچائے رکھے۔
الاحقر: سید جواد حسین رضوی


احادیث میں گائے کا گوشت

٭احادیث میں گائے کا گوشت٭
سوال) کیا یہ بات درست ہے کہ احادیث میں گائے کے گوشت کو بیماری لیکن اس کے دودھ کو دوا کہا گیا ہے؟ کیا اس صورت میں گائے کے گوشت کا استعمال نہیں کرنا چاھئے؟
جواب) جی بعض روایات میں ایسا وارد ہوا ہے۔ البتہ ان روایات کا مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ سب لوگوں کیلئے گائے کا گوشت بیماری ہے۔ گائے کے گوشت کے فوائد بھی روایات میں ہیں جیسا کہ امام صادق(ع) کا ارشاد گرامی ہے؛
مَرَقُ لَحْمِ الْبَقَرِ یَذْهَبُ بِالْبَیَاضِ (کافی ج6 ص311)
یعنی گائے کا آبگوشت برص کی بیماری میں مفید ہے۔
لہذا گائے کو بیماری کہنے والی روایات خاص حالات میں ہیں۔ جیسے گائے کا گوشت ہاضمے میں سخت ہے اور ان افراد کیلئے مضر ہے جن کا جسمانی کام کم ہے، لیکن ان افراد کیلئے مفید ہے جو سخت جسمانی کام کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں بعض بیماریوں جیسے "یورک ایسڈ" کی زیادتی میں بھی سرخ گوشت خاص طور پر گائے گا گوشت مضر ہے۔ لہذا حالات پر منحصر ہے، بہرکیف کثرت سے استعمال نہیں کرنا چاھئے۔ کوشش ہونی چاھئے کہ ہماری غذا متوازن ہو اور گوشت کی مختلف اقسام، ڈیری اشیاء اور سبزی جات میں ایک توازن برقرار رہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثرات

٭انگریزی زبان کے بڑھتے ہوئے اثرات٭
مندرجہ ذیل الفاظ ایک ڈسکشن کے دوران لکھے گئے جہاں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بات ہو رہی تھی۔
صدیوں سے مختلف معاشروں پر تبدیلیوں کے اثرات ہوتے رہے ہیں، بعض اثرات ایسے ہیں جن سے بچنا مشکل ہوتا ہے، وقتی طور پر بچ سکتے ہیں لیکن لانگ ٹرم میں ممکن نہیں ہوتا۔ مثلا ایران میں انقلاب کے بعد انگریزی کی تدریس کم کر دی گئی، صرف ایک زبان کی حد تک بڑی کلاسوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی، لیکن پچھلے کچھ سالوں سے اس پر بہت اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
یہ سلسلہ تاریخ میں تسلسل سے جاری و ساری رہا ہے، مثلا جب عرب بااثر تھے اور مختلف علوم و فنون میں ان کا ڈنکا بجتا تھا تو عربی زبان کی تدریس لازمی سمجھی جاتی تھی۔ قرون وسطی میں پورے پورپ بشمول انگلینڈ میں عربی کے بغیر کسی کو اسکالر یا عالم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ عربی کے الفاظ بہت سے یورپی زبانوں میں داخل ہو گئے۔ خود فارسی کو آپ دیکھیں، آج فارسی کے ذخیرہ الفاظ میں آدھے سے زائد عربی کے الفاظ ملتے ہیں۔ یہ اثرات فتح ایران کے بعد شروع ہوئے جب علمی و فنی زبان عربی ٹھہری۔ لہذا جب بھی کوئی قوم ترقی کرتی ہے یا وہ سپر پاور بن کر دیگر اقوام پر اثر ڈالتی ہے تو اس قوم کی زبان کے اثرات دیگر زبانوں پر خودبخود ہوتے ہیں۔
میں تو اس سے بھی بڑھ کر ایک حقیقت بتاتا چلوں کہ عربی زبان کے اثرات کی وجہ سے بہت سے علاقوں کی زبانوں نے دم توڑ دیا اور وہاں عربی بولی جانے لگی۔ مثلا مصر میں اسلام سے پہلے قبطی رہتے تھے اور ان کی اپنی زبان تھی، جب مسلمان وہاں داخل ہوئے تو اپنے ساتھ عربی لے گئے، رفتہ رفتہ عربی نے ان کی زبان پر اثر انداز ہونا شروع کیا، اسی طرح سے عربی کے الفاظ ان کی زبان کا حصّہ بنتے گئے۔ رفتہ رفتہ ان کی اپنی زبان بالکل ختم ہو گئی اور آج پورا مصر عربی میں بات کرتا ہے۔
اسی طرح شمالی افریقہ کے ممالک جیسے لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ کے افراد بربری تھے اور بربری زبان بولتے تھے، لیکن آج یہ تمام بربری عربی میں بات کرتے ہیں۔ سوڈان کو "نوبہ" کہا جاتا تھا، ان کی اپنی زبان تھی لیکن آج یہ تمام سیاہ فام نبطی عربی میں بات کرتے ہیں۔
بحیرہ میڈیٹیرین کے مغربی سواحل جیسے شام، فلسطین اور لبنان وغیرہ کی قدیم لوکل زبانیں تھیں، مسلمانوں کی فتوحات اور ان علاقوں کے مسلمان ہونے کے بعد ان کی زبان میں تغیر آتا گيا اور آج یہ سب نسلی طور پر عرب نہیں لیکن عربی بولتے ہیں، اور عرب ہی کہلاتے ہیں۔ خود ہندوستان کو ہی دیکھ لیں، یہاں مسلمانوں کی آمد کے بعد بہت سماجی و لسانی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ لسانی طور پر فارسی کا اثرو رسوخ بہت گہرا رہا جو مغلوں کی درباری زبان تھی۔ ہندوستان کی تعلیمی و دفتری و عدالتی زبان فارسی ٹھہری، اور فارسی نے مقامی زبان پر اتنا اثر کیا کہ اردو نامی الگ زبان وجود میں آئی۔
ان تمام مثالوں سے یہ تاریخی حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ جو اقوام ثقافت و تعلیم میں مضبوط ہو جائیں تو ان کا اثر دوسروں پر طبیعی ہے۔ برصغیر تو پھر بھی انگریزوں کی کالونی رہی ہے، جاپان و چین جیسے ممالک میں، جہاں استعمار اس طرح سے داخل نہیں ہو سکا، مغرب سے شدید متاثر ہے۔
آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زبان پر اغیار کا اثر نہ ہو، بلکہ آپ ہی دوسروں پر اثرات ڈالیں تو اتنی ترقی کریں کہ قدرت کا طبیعی قانون نافذ ہو جائے اور آپ کی زبان و ثقافت دوسروں پر اثر انداز ہو سکے۔ ورنہ آپ کوشش کر کے اس اثر کو کچھ عرصہ کیلئے روک تو سکتے ہیں، ہمیشہ کیلئے نہیں۔
لہذا اس تبدیلی کو قبول کریں اور اپنے بچوں کو بیرونی زبانوں میں اعلی تعلیم دلوائیں، لیکن ساتھ ساتھ مقامی زبان و کلچر سے بھی آشنا رکھیں۔
سید جواد حسین رضوی


کیا ناد علی معصوم کا کلام ہے؟

کیا ناد علی معصوم کا کلام ہے؟


سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟

٭سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟٭
سوال) سورہ حجر میں سبع مثانی سے کیا مراد ہے؟
جواب) سورہ حجر کی آيت نمبر 87 میں ارشادی باری تعالی ہے؛
ولَقَد ءاتَينكَ سَبعـًا مِنَ المَثانى والقُرءانَ العَظيم
اور ہم نے تمہیں سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا۔
سبعا من المثانی کی تعبیر کے بارے میں درج ذیل نظریات مفسرین کے درمیان پائے جاتے ہیں؛
1) اس سے مراد سورہ حمد ہے
2) اس سے مراد قرآن کی ابتدائی سات لمبی سورتیں ہیں
3) اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جو بعض حروف مقطعات جیسے حا میم وغیرہ سے شروع ہوتی ہیں۔

جس نظریہ کی تائید ہمیں آئمہ علیھم السلام سے ملتی ہے وہ پہلی رائے ہے۔ امام صادق ع اس آيت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ حمد ہے جو ہر نماز میں دو دفعہ پڑھی جاتی ہے۔ علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اور آيت اللہ مکارم شیرازی نے تفسیر نمونہ میں اسی رائے کو درست قرار دیا کیونکہ ظاہر آيات و قرائن بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور معصومین ع سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
جو دوسری رائے ہے اس کے اپنے دلائل ہیں، ایک دلیل یہ ہے کہ اوائل کی لمبی سورتوں میں تمام غیبی امور من جملہ واقعات و حوادث تاریخی زیادہ بیان ہوئے ہیں، اور چونکہ ان مفسرین کے مطابق قرآن دو دفعہ نازل ہوا ہے لہذا سبعا من المثانی سے مراد ابتدائی سات لمبی سورتیں ہیں۔
لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ پہلی رائے زیادہ ارجح و مطابق با حقیقت ہے۔ اس میں اس پر بھی بحث ہے کہ "من" سے مراد من تبعیض ہے یا من تبیین ۔۔۔۔۔ دونوں صورتوں میں پہلی رائے پر فرق نہیں پڑتا، سید فضل اللہ لکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن سارا کا سارا مثانی ہے، لہذا اس قرآن میں سے کچھ آیتیں جو سورہ حمد کی سات آیتیں ہیں، مراد ہیں، یعنی یہ "من" تبعیض ہے۔ سورہ زمر کی آيت 23 میں بھی قرآن کو مثانی کہا گيا ہے۔
کتاباً مُتَشابِهاً مَثانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُم‏
مخفی نہ رہے کہ بعض کے نزدیک سورہ فاتحہ قرآن سے ہٹ کر نازل ہوئی ہیں، لہذا یہاں سورہ فاتحہ اور باقی قرآن کا الگ الگ ذکر کرنے کی یہی وجہ ہو سکتی ہے۔ نیز یہ احتمال بھی قوی ہے کہ سورہ فاتحہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کیلئے بھی الگ سے ذکر کیا گيا ہے۔
سید جواد حسین رضوی


عقیقہ کے چند مسائل


سات حرفوں پر قرآن کے نزول کی صحت



٭سات حرفوں پر قرآن کے نزول کی صحت٭
سوال) صحاح ستہ میں بعض احادیث کے مطابق قرآن سات حروف میں نازل ہوا، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اس وقت متعدد قراتیں دنیا میں رائج ہیں، کونسی قرات درست ہے؟ مکتب امامیہ کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب) صحاح ستہ میں سات حرفوں یا قراتوں پر قرآن کے نزول کی جو روایات آئی ہیں ان سے آئمہ اہلبیت(ع) نے شدت سے اختلاف کیا۔ جیسے کافی میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَقَالَ كَذَبُوا أَعْدَاءُ اللَّهِ وَ لَكِنَّهُ نَزَلَ عَلَى حَرْفٍ وَاحِدٍ مِنْ عِنْدِ الْوَاحِد
فضل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں، قرآن خداوند واحد کی طرف سے ایک حرف پر نازل ہوا۔ (کافی ج2 ص630)
ہمیں "کافی" کی اسی جلد اور اسی صفحے پر یہ روایت بھی ملتی ہے جس کے مطابق قراتوں کا یہ اختلاف راویوں کی وجہ سے پیدا ہوا، غرض ایسا نہیں کہ اللہ کی طرف سے ہی سات حرفوں پر نازل ؛
الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ جَمِيلِ بْنِ دَرَّاجٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ إِنَّ الْقُرْآنَ وَاحِدٌ نَزَلَ مِنْ عِنْدِ وَاحِدٍ وَ لَكِنَّ الِاخْتِلَافَ يَجِي‏ءُ مِنْ قِبَلِ الرُّوَاة
امام باقر(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن ایک ہی ہے جو خداوند واحد کی طرف سے نازل ہوا لیکن اس کی قراتوں میں اختلاف روات کی وجہ سے پیدا ہوا۔
اس حدیث کی بھی سند صحیح ہے۔ لہذا امامیہ کے نزدیک یہ متفقہ بات ہے کہ قرآن صرف ایک حرف پر نازل ہوا، اور اس کی صرف ایک ہی قرات ہے جس پر اللہ تعالی کی طرف سے قرآن نازل ہوا۔ اسی لئے ہم اس رائے کو نہیں مانتے جس کے مطابق سات حرفوں پر قرآن کے نزول کا ذکر ہے، اس طرح کے اختلاف سے تحریف قرآن کے عقیدے کو تقویت ملتی ہے۔
نیز یہ جو قراتوں کا اختلاف ملتا ہے یہ قرآن کے راویوں کے درمیان اختلاف ہے، چنانچہ ہمیں سات مشہور قراتیں ملتی ہیں جو اوائل اسلام کے بعض قاریوں سے مروی ہیں جن کو قراء سبعہ کہا جاتا ہے۔ قراء سبعہ یا سات قراء ان قاریوں کو کہا جاتا ہے جن سے قرآن کریم کی قراءت کے سلسلہ میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں، ان روایتوں میں بعض جگہوں پر کلمات، اعراب (زبر، زیر، پیش) وغیرہ کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ علوم قرآن کی متداول کتابوں میں ان قراء کے نام اس طرح درج ہیں: عبد اللہ بن عامر، ابن کثیر المکی، عاصم بن بہدلہ کوفی، ابو عمرو بصری، حمزہ کوفی، نافع مدنی اور کسائی کوفی۔
اہلسنت کے نزدیک یہ سات قراتیں تواتر سے ثابت ہیں، اور ان کے نزدیک ان میں سے کسی بھی قرات پر تلاوت جائز ہے۔ یہ قراتیں کسی حد تک جغرافیائی خطوں پر بھی منحصر ہے، برصغیر ایران و ترکی وغیرہ میں عاصم کی قرات رائج ہے۔
جبکہ ہمارے نزدیک عاصم کی قرات ہی سب سے زیادہ معتبر ہے جو حفص سے مروی ہے، شیعہ علماء نے اس قرات پر زیادہ اعتبار کیا ہے بلکہ ابن شھر آشوب، قاضی نور اللہ شوشتری و سید خوئی نے البیان میں تصریح کی ہے کہ عاصم خود بھی شیعہ تھا۔ نیز عاصم کی قرات متواتر ہے اور عالم اسلام میں سب سے زیادہ رائج ہے، اور ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ عاصم کی قرات کا سلسلہ حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی


شرابخوری کی سزا

٭ شرابخوری کی سزا٭
سوال) اسلام میں شرابخور کیلئے کیا سزا بیان ہوئی ہے؟ کیا بیئر Beer پینے کی بھی وہی سزا ہے جو شراب Wine پینے کی ہے؟
جواب) شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ میں "مسکر" یعنی شرابخوار کے حد والے باب میں احادیث جمع کی ہیں، جن میں سے کچھ سند کے لحاظ سے صحیح کے درجے پر ہیں۔ ان میں سے ایک صحیح حدیث کے مطابق ابو بصیر نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ شرابخور کی حد کیا ہے۔ تو آپ(ع) نے جواب دیا کہ رسول اللہ(ص) کے دور میں شرابخور کو ابتدا میں ہاتھوں اور جوتوں سے مارا کرتے تھے، جب شرابخوری کثرت سے بڑھ گئی اور شرابخور آپ(ص) کے پاس زیادہ لائے جانے لگے تو ان کو زیادہ مارا پیٹا جانے لگا، یہاں تک کہ شرابخوری حد سے زیادہ پہنچی تو یہ ضربیں 80 تک جا پہنچیں۔
خلیفۂ دوّم حضرت عمر کے دور میں ایک شخص کو شرابخوری کے جرم میں پکڑ کر لایا گیا، لیکن حضرت عمر کو اس حوالے سے تردّد تھا کہ کتنی ضربیں لگائی جائیں، اس پر حضرت علی ع نے فرمایا کہ اس شرابی کو 80 کوڑے کی سزا ہوگی کیونکہ شرابخوار جب مست ہوتا ہے تو فضولیات بکتا ہے، اور اس پر ایک مفتری (تہمت لگانے والے) کی حد جاری ہوگی جو قرآن میں 80 کوڑے بیان ہوئی ہے۔
شیعہ سنّی فقہاء شرابخوری کیلئے اسّی کوڑے کی سزا کے قائل ہوئے ہیں، بشرطیکہ دو عادل گواہ اس شخص کو باقاعدہ شراب پیتے دیکھیں۔ بنا بر مشہور مست کرنے والے فقاع (آب جو) یعنی بیئر (Beer) کی بھی یہی سزا ہے۔ اس سزا کی علت یہ ہے کہ شرابی مست ہونے کے بعد ہوش و ہواس میں نہیں رہتا اور ایسے شخص کا نشے میں گھومنا معاشرے میں دیگر افراد کیلئے نقصان یا سردرد کا باعث بھی ہو سکتا ہے، اس کے آئے دن مظاہرے آپ کو مغربی ممالک میں بکثرت نظر آئیں گے۔ لہذا اسلام نے شراب پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس کی سزا بھی قدرے سخت بیان کی ہے تاکہ ان مسائل کا سدباب ہو سکے۔
البتہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ شرابخواری کی سزا میں اضافہ زمانے کی ضرورت کے حساب سے کیا گیا۔ شروع میں فقط مار پیٹ پر اکتفا کیا جاتا تھا، جب شرابخواری بڑھی تو ان ضربوں کو بڑھا کر 80 تک کر دیا گيا۔ لہذا یہ حکومت اور عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس جرم کے روک تھام کیلئے کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔ جیسے ایران کی عدالت نے مبینہ توہین رسالت کے مرتکب کو اسلامی کتب پڑھنے اور دو سال تک دینی علوم حاصل کرنے کی سزا سنائی، غالبا عدالت یہ جان گئی تھی کہ اس توہین کا ارتکاب فقط اسلامی عقائد و احکامات سے عدم واقفیت کی بنا پر ہوا۔
بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ تادیب ہو جائیں اور اس مذموم حرکت سے بچ کر رہیں۔
والسلام علیکم
سید جواد حسین رضوی


آل محمد(ص) کا مرتبہ مولا علی(ع) کی زبانی

<آل محمد(ص) کا مرتبہ مولا علی(ع) کی زبانی>
امام علی(ع): هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَاءُ اءَمّرِهِ وَ عَيْبَهُ عِلْمِهِ وَ مَوئِلُ حُكْمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ، وَ جِبالُ دِينِه ، بِهِمْ اءَقامَ انْحِناءَ ظَهْرِهِ وَ اءَذْهَبَ ارْتِعادَ فَرائِصِهِ
زَرَعُوا الْفُجُورَ، وَ سَقَوْهُ الْغُرُورَ، وَ حَصَدُوا الثُّبُورَ، لا يُقاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مَنْ هذِهِ الامَّهِ اءَحَدٌ وَ لا يُسوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ اءَبَدا، هُمْ اءَساسُالدِّينِ، وَ عِمادُ الْيَقينِ، إ لَيْهِمْ يَفِى ءُ الْغالِى ، وَ بِهِمْ يِلْحَقُ التّالِى وَ لَهُمْ خَصائِصُ حَقِّ الْوِلايَهِ، وَ فِيهِمْ الْوَصِيَّهُ وَ الْوِراثَهُ، الآنَ اذْ رَجَعَ الْحَقُّ الى اءهلِهِ وَ نُقِلَ الى مُنتَقَلِهِ
مولا علی(ع): یہ لوگ ( یعنی آل محمد) سرّ خداوندی ہیں اور دینی امور کا ملجا ہیں۔ یہی اللہ کے علم کا مرکز ہیں اور اللہ کے حکم کی پناہ گاہ ہیں۔ کتابوں نے انہی کے پاس پناہ لی ہے اور دین کے کوہ گراں یہی ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کے ذریعے اس (دین) کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے۔
یاد رکھو کہ اس امّت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی لوگوں کو ان (اہل بیت) کے برابر قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ان پر ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
آل محمد(ص) دین کی اساس اور یقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر انہیں کی طرف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ ان کے پاس ولایت کے حق کی خصوصیات ہیں اور انہی کے درمیان نبی پاک(ص) کی وصیّت اور ان کی وراثت ہے"۔
نہج البلاغہ: خطبہ 2
خاکسار: سید خواد حسین رضوی


سجدہ کے لئے افضل ترین جگہ مٹی ہے۔ اس کی تین حکمتیں ہیں

سجدہ کے لئے افضل ترین جگہ مٹی ہے۔ اس کی تین حکمتیں ہیں؛
1) پانی کے بعد اللہ تعالی نے مٹی کو پاک قرار دیا ہے۔ مٹی وہ چیز ہے جو پانی کی عدم موجودگی میں وضو کا نعم البدل ہو جاتی ہے اور تیمم فرض ہو جاتا ہے۔
2) مٹی پر سجدہ کرنا انسان کی عجز و انکسارکی کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیاوی اشیاء جیسے کپڑہ وغیرہ سجدے کے اصل معانی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جب انسان اپنی اشرف ترین شئے یعنی پیشانی کو مٹی پر رکھتا ہے تو اس سے بڑھ کر انکساری کا ذریعہ نہیں۔
3) انسان کی خلقت مٹی سے ہوئی اور مٹی پر پہلا سجدہ اس بات کی نشانی ہے کہ ہم مٹی سے خلق ہوئے، اس کے بعد سر اٹھا کر دوبارہ مٹی پر سجدہ کرتے ہیں جو اس بات کی نشانی ہے کہ ہم نے پلٹ کر اسی مٹی میں جانا ہے۔ پس مٹی پر سجدہ انسان کو اپنی خاک سے تخلیق اور دوبارہ خاک سے رجوع کو ظاہر کرتا ہے، اور فقط دو سجدوں میں ہی "اناّ للہ وانا الیہ راجعون" کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔
سید جواد حسین رضوی


انشورنس کا حکم فقہ جعفریہ کی روشنی میں

٭انشورنس کا حکم فقہ جعفریہ کی روشنی میں٭
سوال) کیا فقہ جعفریہ میں انشورنس جائز ہے؟ بعض اہلسنت علماء اس سے منع کرتے ہیں، اس کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب) انشورنس ایک عقد یعنی Contract ہے جس میں انشورنس دینے والا کچھ روپوں کے عوض نقصان کا ضامن ہو جاتا ہے۔ انشورنس کو اردو اور فارسی میں "بیمہ" کہتے ہیں۔ انشورنس کی دو اقسام ہیں، جنرل انشورنس جس میں مشینوں، جائداد اور گاڑیوں کے انشورنس ہوتے ہیں۔ اس میں مدت ختم ہونے پر کچھ نہیں ملتا، بلکہ پریمیم کے عوض ایک مقررہ مدت تک جو کہ عموما ایک سال پر مشتمل ہوتی ہے، انشورنس کمپنی نقصانات کو پورا کرنے کی ضامن بن جاتی ہے۔
دوسری قسم لائف انشورنس ہے جس میں عموما سالانہ پریمیئم کے عوض ایک مقررہ مدت تک انسان کی موت کی صورت میں یا اس کے اپاہج ہونے کی صورت میں ایک بڑی رقم ورثاء کو دی جاتی ہے۔ اگر یہ مدت بخیر و خوبی گزر جائے تو انشورنس کمپنی انشورنس کی رقم کے ساتھ اس عرصے تک کا منافع بھی ادا کرتی ہے۔
اہلسنت علماء اس انشورنس کے عقد کے بارے میں ہمیشہ مختلف الخیال رہے ہیں۔ عقد بیمہ پر جو اعتراضات وارد کئے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں؛
1) خود عقد بیمہ کا تصور صدر اسلام میں نہیں ملتا
2) اس میں غرر کا فیکٹر ہوتا ہے جو شرع میں جائز نہیں، غرر کسی چیز کی قیمت یا مبیع *Subject Matter* میں بے یقینی کی کیفیت کو کہتے ہیں۔ چونکہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ نقصان ہوگا بھی یا نہیں، اور نقصان کی صورت میں کتنا نقصان ہوگا، یہ معلوم نہیں ہوتا، ان کے نزدیک یہ غرر کا عنوان ہے۔ اور غرر سے رسول اللہ(ص) نے منع فرمایا ہے "ونھی النبی عن البیع الغرر"
3) قمار کا مسئلہ بھی پیش آتا ہے خصوصا جنرل انشورنس میں۔ انسان پریمئم ادا کرتا ہے جس کے عوض انشورنس کپمنی کسی بھی نقصان یا خسارت کے وارد ہونے کی صورت میں پورا کرتا ہے۔ لیکن نقصان نہ ہونے کی صورت میں انشورنس کرنے والے کو اس کی پریمئم کی رقم واپس ادا نہیں ہوتی۔ بالفاظ دیگر ایک رقم ادا ہوتی ہے جو واپس نہیں ہوتی، لیکن اس کے عوض انسان ایک غیر معینہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جو قمار کی صورت ہے۔
4) چوتھا فیکٹر سود کا ہے، خصوصا لائف انشورنس میں جتنا پریمئم ادا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ مدت مقرر ہونے پر انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے۔
ان باتوں کی وجہ سے اہلسنت علماء کی ایک بڑی تعداد انشورنس کو جائز نہیں سمجھتی۔ اس کے عوض انہوں نے تکافل کے نام سے اسلامی انشورنس کی بنیاد رکھی ہے جس میں عقد معاوضہ (بیمہ) کو عقد تبرّع میں بدلا گیا ہے۔ چونکہ عقد تبرّع میں غرر اور قمار جائز ہے، لہذا اس قباحت کو اس طرح دور کیا گيا ہے۔ اور سود کے فیکٹر کو مضاربت کے ذریعے پورا کیا گيا ہے، جو یقینا اچھی کاوش ہے لیکن بظاہر ملمّع کاری معلوم ہوتی ہے۔
شیعہ مراجع نے ابتدا سے ہی عقد بیمہ کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک ضروری نہیں کہ کسی عقد کا وجود ابتدائے اسلام میں ملے، ہر جدید چیز جائز ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس میں خلاف شرع کوئی بات نہ ہو۔ لہذا کسی عقد کے صدر اسلام میں نہ ملنے سے وہ عقد ناجائز نہیں ہو جاتا۔ شیعہ مراجع فرماتے ہیں کہ پریمئم کو "ھبۂ معوّضہ" کے عنوان سے ادا کیا جائے، یعنی ایسا گفٹ جس کے عوض آپ بھی فائدہ حاصل کریں۔ اس ھبۂ معوّضہ کے بدلے انشورنس کمپنی خسارتوں کو پورا کرنے کی ضامن ہو جائے، اس طرح سے ابتدائی تین مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
شہید مطہری نے 1970 کی دہائی میں حسینیۂ ارشاد میں سود کے مسائل پر جو لیکچرز دیے تھے وہ "ربا" کے عنوان سے فارسی میں طبع شدہ دستیاب ہیں، آپ نے ان لیکچرز میں سود کے مسئلے، جدید بینکاری اور مختلف نئے عقود پر سیر حاصل بات کی ہے۔ آپ نے جب انشورنس پر بات کی تو مندرجہ بالا اصول اخذ کرنے کے بعد پہلے تین فیکٹرز سے انشورنس کو مبرّا قرار دیا۔ جو چیز قابل اشکال ہے وہ اس میں ربا کا فیکٹر ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو جنرل انشورنس میں قباحت نظر نہیں آتی لیکن لائف انشورنس میں ربا کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اگر انشورنس کمپنی یہ عہد کرے کہ وہ پریمئم کے پیسوں کو شرعی طور پر حلال جگہوں میں سرمایہ کاری کر کے اس کا منافع مضاربت کے عنوان سے ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں دیکھا جائے تو اس کا التزام پاکستان میں فقط تکافل کمپنیاں یا انشورنس کمپنیوں کی تکافل ونڈوز کرتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ عرض ہوا کہ اہلسنت علماء نے انشورنس میں بزعم خویش قباحتوں کو دیکھتے ہوئے تکافل (اسلامی انشورنس) کی بنیاد رکھی تھی۔ باقی انشورنس کمپنیاں اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کرتیں اور اس کا التزام بھی نہیں کرتیں۔ ایران کی تمام انشورنس کمپنیاں اس حوالے سے شرعی اصولوں پر کاربند ہیں لہذا ان کا بیمہ بلا اشکال ہے۔ اکثر مراجع کی توضیح میں بیمہ کے حوالے سے ایران کی انشورنس کمپنیوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
البتہ مراجع اس عنوان سے کہ عقد میں ھبہ کے عنوان سے اصل رقم سے زائد دینے کا ذکر ہو تو اس کی بھی اجازت دیتے ہیں، کیونکہ ایک عرصے تک طرفین انشورنس کے عقد میں منسلک رہے تو اس مدت کے بعد کمپنی ھبہ یا گفٹ کے عنوان سے انشورنس کرنے والے کو زائد رقم دے تو انشورنس کروانے والا اس رقم کو قبول کر سکتا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
سید جواد حسین رضوی