جمعرات، 12 فروری، 2015

رسول اللہ(ص) پر ایک اعتراض کا جواب


٭رسول اللہ(ص) پر ایک اعتراض کا جواب٭

سوال) جب حضرت محمد(ص) انسانیت و آدمیت کے عظیم درجہ پر فائز تھے اور وہ بشریت کے ایک عظیم معلّم کی حیثیت رکھتے تھے، نیز سارے انسانوں کے لئے عملی نمونہ تھے تو پھر آپ نے کیوں بڑھاپے میں ایک 9 سالہ لڑکی سے شادی کی؟

جواب) ایک جوان عورت کے لئے بوڑھے آدمی سے شادی کرنے میں اگر کوئی عیب ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ بوڑھے کے ساتھ جنسی آمیزش لذّت بخش نہیں ہوگی، یا یہ کہ چونکہ دونوں کا سن برابر نہیں ہے لہذا عام طور پر بیوی کے بڑھاپے سے پہلے ہی شوہر مر جائے گا اور عورت جوانی میں ہی بیوہ ہو جائے گی۔ لیکن یہ بات بالکل ظاہر اور بہت زیادہ واضح ہے کہ شادی کے صرف یہی دو مقاصد نہیں ہیں، لہذا اس طرح کی شادی کے ممنوع ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مذکورہ مقاصد سے کہیں اہم کچھ دوسرے مقاصد ہوں کہ جس کی وجہ سے شادی کی جائے۔

کئی سال پہلے جب "آئزن ھاور" امریکہ کا صدر تھا، امریکہ میں کثیر تعداد میں شائع ہونے والے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ وہاں کی باکرہ لڑکیوں سے سروے کیا گیا کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟ امریکہ کی اکثر غیر شادی شدہ لڑکیوں نے جواب دیا تھا کہ ہم "آئزن ھاور" سے شادی کے خواہاں ہیں، جبکہ وہ نہ تو جوان تھا اور نہ شکل و صورت کے لحاظ سے اچھا تھا۔

جس کو بھی رسول اللہ(ص) کی زندگی اور شادی کے بارے میں کچھ معلومات ہے وہ یہ جانتا ہے کہ آپ نہ تو شہوت پرست تھے اور نہ ہی آپ کو خوشگزرانی کی عادت تھی، آپ کے سارے امور تعقّل کی بنیاد پر تھے، احساسات کی بنیاد پر نہیں۔ آپ نے یہ شادی اس لئے کی تھی کہ لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ اس طرح کی شادی جائز ہے، نیز آپ کے مشن کو ترقی دینے میں اسے بڑی اہمیت حاصل تھی۔


آیت اللہ العظمی علامہ محمد حسین طباطبائی (رح)

پیشکش: ابو زین الہاشمی



جنات اور بدروح پر ایک تبصرہ

*جنات اور بدروح پر ایک تبصرہ*
جن کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی پر چڑھ جائے نہ ہمیں قرآن و حدیث میں ایسا ملتا ہے، نہ ہمیں کوئی واقعہ ملتا ہے کہ معصومین(ع) کے دور میں کسی پر جن چڑھا ہو۔۔۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔۔۔ نفسیاتی بیماریوں کو ہمارا معاشرہ جن چڑھنا کہتا ہے اور یہ اکثر خواتین پر طاری ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی خواتین کو شدید پابندیوں اور ظلم و ستم برداشت کرنا پڑتا ہے جس سے وہ گوناگوں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں، اور ہمارا معاشرہ سمجھتا ہے کہ جنات کا اثر ہو گیا ہے۔ جنات کی اپنی دنیا ہے ان کے وجود سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے وہ جہالت کے سوا کچھ نہیں
بیشک۔۔۔ عوام کا اپنا ہی ایک دین ہے، جنات کا وجود حق ہے اور ان جنات کی آمد و رفت ہمارے آئمہ(ع) کے پاس رہتی تھی، بلکہ بعض ثقہ حضرات کے مطابق مراجع تقلید کے ہاں بھی جناّت سوالات لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان خرافات میں کوئی صداقت نہیں کہ جناّت اس طرح سے انسانوں پر چڑھ جاتے ہیں، یہ جہالت ہے
کوئی بدروح یا جن کسی سے نہیں چمٹتا، یہ سب جہالت ہے کیونکہ یہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں اور یہ ایک خاص بیماری ہے جن میں انسان عجیب و غریب آوازیں نکالتا ہے اور عجیب باتیں کرتا ہے، جس کو ہم جن چڑھنا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سب لاشعور سے نکل رہی ہوتی ہیں، اور آپ خود بھی دیکھیں کہ یہ بیماریاں ہمارے برّصغیر میں عام ہیں اور اکثر خواتین پر ہی چڑھتی ہیں، جس کی وجہ معاشرے کی سختی ہے جو خواتین پر روا رکھی جاتی ہے۔ ہم نے کسی حدیث میں نہیں پڑھا کہ معصومین(ع) کے دور میں کسی پر جن چڑھا ہو یا انہوں نے جن نکالا ہو یا جن نکالنے کا کوئی ٹوٹکا بتایا ہو۔ جن نکالنے کے طریقے عملیات کی کتب میں وارد ہوئے ہیں تو بعض معززین ان کتب کو پڑھ کر ان نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو اس شخص/ عورت کو مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عملیات ہے۔۔۔ یا اس کی ناک میں دھواں دیتے ہیں تاکہ جن نکل جائے، اس سے وقتی طور پر وہ صحیح ہو بھی سکتا ہے لیکن اصل میں مسئلہ بدستور موجود ہوتا ہے۔ یہ سب معاشرتی رسوم ہیں جن کا شریعت سے تعلق نہیں، گو کہ اعمال اور دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں۔۔۔ لیکن یہ سب جہالت ہے۔
ہندو مت اور دیگر ادیان میں تو بدروحوں کا تذکرہ ہو سکتا ہے، اسلام میں بدروح نام کی کوئی شئے نہیں ہے۔ تمام ارواح موت کے بعد عالم برزخ میں جاتی ہیں چاہے ان کی موت طبیعی طور ہوئی ہو یا کسی نے ان کو قتل کیا ہو یا وہ حادثے کا شکار ہوئی ہوں۔۔۔ ارواح کبھی بھٹک نہیں سکتیں بلکہ اللہ نے ان ارواح کے لئے برزخ خلق کی ہے جہاں وہ موت کے بعد سے قیامت تک رہیں گی۔ ان کے اعمال کے حساب سے ان کو برزخی جنّت یا جہنّم میں رکھا جائے گا۔۔۔۔ بدروح کا بھٹکنا اور یہ سب توہّمات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے-
باقی جنات کا وجود حق ہے، اور اس کی رؤیت بھی خاص حالات میں ممکن ہے، لیکن ان کا رہن سہن کیا ہے اور کہاں رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اس بارے میں مستند احوال تفصیلات کے ساتھ نہیں ہیں۔ ممکن ہے جنّات کو قابو کیا جا سکتا ہو گو کہ ہمیں ایسی کوئی حدیث یا روایت معتبر اسناد و طرق کے ساتھ نہیں ملتی ہیں۔ البتہ جس کو ہم جن چمٹنا کہتے ہیں یہ بالکل بھی ممکن نہیں اور عوام کے خرافات ہیں-
روایات میں ہے کہ بعض جنات اور بعض فرشتے امام حسین(ع) کی خدمت میں آئے اور نصرت کی خواہش کی لیکن امام(ع) نے ان کو اذن نہیں دیا، لیکن معتبر روایات میں ان کے ناموں کی تصریح نہیں کی گئی اور ایسی کوئی بات کہیں نہیں ملتی کہ ان میں سے کوئی جناّت کا بادشاہ تھا۔
زعفر جن کا وجود معتبر کتب میں نہیں ملتا۔

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر باقاعدہ آرٹیکل کی شکل میں نہیں لکھی گئی بلکہ کسی جگہ سوال و جواب و ڈسکشن میں خاکسار کے کمنٹس کو جمع کر کے پوسٹ کی شکل دے دی گئی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ جملوں میں ربط نہ ملے۔
احقر العباد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ




رسول اللہ(ص) سے افضل کوئی نہیں

٭رسول اللہ(ص) سے افضل کوئی نہیں: شیعہ ہونے کا دعوی تبھی قبول ہے جب تک رسول(ص) کی سیرت و سنّت پر عمل نہ کیا جائے٭
امام باقر(ع): يَا جَابِرُ لَا تَذْهَبَنَّ بِكَ الْمَذَاهِبُ حَسْبُ الرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ أُحِبُّ عَلِيّاً صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ أَتَوَلَّاهُ فَلَوْ قَالَ إِنِّي أُحِبُّ رَسُولَ اللَّهِ ص وَ رَسُولُ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ عَلِيٍّ ثُمَّ لَا يَتَّبِعُ سِيرَتَهُ وَ لَا يَعْمَلُ بِسُنَّتِهِ مَا نَفَعَهُ حُبُّهُ إِيَّاهُ شَيْئاً فَاتَّقُوا اللَّهَ وَ اعْمَلُوا لِمَا عِنْدَ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَ اللَّهِ وَ بَيْنَ أَحَدٍ قَرَابَةٌ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللَّهِ وَ أَكْرَمُهُمْ عَلَيْهِ أَتْقَاهُمْ لَهُ وَ أَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِه
امام باقر(ع): اے جابر! مختلف آراء و افکار کی وجہ سے راہ حق سے دور نہ ہونا، کسی شخص کا یہ کہنا کیا کافی ہو سکتا ہے کہ میں علی(ع) سے محبت و تولاّ رکھتا ہوں؟
بلکہ اگر کوئی یہ کہے کہ میں رسول اللہ(ص) سے محبت رکھتا ہوں، جبکہ رسول اللہ(ص) مولا علی(ع) سے بلاشبہ افضل ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی سیرت کی اتباع نہ کرے اور ان کی سنّت پر عمل نہ کرے تو اس محبّت کا اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہذا تم اللہ سے ڈرو اور اللہ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال انجام دو کیونکہ اللہ سے کسی کی بھی رشتہ داری نہیں ہے۔
بندوں میں اللہ کے نزدیک وہی سب سے زیادہ محبوب ہے جو پرہیزگار ہو اور ان (بندوں) میں اطاعت خداوندی میں زیادہ عمل کرنے والا ہو۔
(صفات الشیعہ از شیخ صدوق: ص 12، امالی شیخ طوسی: ص736)
اسناد و اعتبار حدیث: یہ ایک حدیث کا حصّہ ہے جس کو شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے نقل کیا ہے جبکہ شیخ کلینی نے اس حدیث کا کچھ حصّہ نقل کیا ہے۔
شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے اس کو دو دو طرق سے نقل کیا ہے اور شیخ کلینی نے ایک طریق سے۔ شیخ طوسی کا ایک طریق صحیح ہے اور تمام روات ثقہ ہیں۔ لہذا کثرت طرق کی وجہ سے اور مشایخ ثلاثہ کے اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ سے ہم پر اس روایت کے صدور کی نسبت معصوم(ع) سے دے سکتے ہیں۔
فوائد الحدیث: یہ حدیث متن اور وثوق اسنادی و صدوری کے حساب سے بہترین حدیث ہے۔ ایک یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ(ص) تمام امّتوں اور مخلوقات سے افضل ہیں۔ اس سے غالیوں کے "عقیدہ مساوات" کی نفی ہوتی ہے جس کے تحت وہ رسول اللہ(ص) اور مولا علی(ع) کو فضیلت میں برابر کہتے ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ صرف شیعہ ہونے کا زبانی دعوی کافی نہیں ہے، جب تک رسول اللہ(ص) کی سیرت و سنّت پر عمل نہ کیا جائے تب تک شیعہ ہونا نجات کا ضامن نہیں ہے۔ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہی ہے جو متقی ہو اور اللہ کی اطاعت کرتا ہو۔
ان ایام میں جبکہ رسول اللہ(ص) کی ذات کو توہین کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور مسلمان دنیا بھر میں سراپا احتجاج ہیں، لیکن ان کا احتجاج کا طریقہ بالکل بھی درست نہیں۔ اپنے ہی املاک کو نقصان پہنچانا، اپنی ہی جانوں کا ضیاع، اپنا ہی نقصان پہنچانا، بیگناہوں پر حملے کرنا جن کا اس معاملے میں قصور نہیں۔ ان افعال سے ہم اسلام کا ہی چہرہ داغ دار کر رہے ہیں، لہذا آئیں اس موقع پر عہد کرتے ہیں کہ توحید پر راسخ عقیدہ رکھیں گے، رسول اللہ(ص) اور ان کی اہل بیت(ع) سے حقیقی محبّت کریں گے اور رسول اکرم(ص) کی سنّت طیّبہ پر عمل کریں گے، اور یہی حقیقی احتجاج ہے۔
وما علینا الا البلاغ
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


سوال: کیا مولا علی(ع) سے منسوب یہ مشہور قول درست ہے "یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے"؟

سوال: کیا مولا علی(ع) سے منسوب یہ مشہور قول درست ہے "یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے"؟
جواب: یہ قول مولا علی(ع) سے منسوب اور مشہور ہے۔ اصل عربی متن ہے؛
انظر إلى ما قال و لا تنظر إلى من قال
"یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"
یہ حدیث مولا علی(ع) کے اقوال میں سے ایک ہے۔ آپ کے اقوال کی مشہور کتاب غرر الحکم و درر الکلم میں صفحہ 58 پر حدیث نمبر 612 اور صفحہ 438 میں حدیث نمبر 100337 پر موجود ہے۔ غررر الحکم چھٹی صدی ہجری کے ایک شیعہ عالم عبدالواحد تمیمی آمدی کی تصنیف ہے۔
نیز مشہور فقیہ اور محدّث ابن ادریس حلّی نے اپنی مشہور کتاب "السّرائر الحاوی لتحریر الفتاوی" میں تین جگہوں پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔ سب سے پہلے کتاب کے مقدّمے میں صفحہ 41 پر، اس کے بعد پہلی جلد میں تیمّم کے باب اور اس کے احکام میں صفحہ 135 پر، اور پھر تیسری جلد میں مجوس کی وراثت کے باب میں نقل کیا ہے۔
لہذا یہ روایت مستند ہے اور اس کا متن بھی بہترین ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس قول پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ