منگل، 22 مئی، 2018

تراویح ۔۔۔۔۔ فقہ جعفریہ کی روشنی میں


--- ٭ تراویح ۔۔۔۔۔ فقہ جعفریہ کی روشنی میں ٭ ---
تحریر: سید جواد حسین رضوی
پچھلے دنوں ایک پوسٹ میں ہم نے یہ ثابت کیا تھا کہ ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں مخصوص نافلہ نمازیں ہیں جن کی تاکید رسول اللہ(ص) اور آئمہ معصومین(ع) کیا کرتے تھے۔ لیکن امّت نے ان نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی شروعات کر دی جس کو "تراویح" کہتے ہیں۔ یہ بدعت رسول اللہ(ص) کی زندگی میں ہی شروع ہونے والی تھی لیکن انہوں نے اس کا تدارک کرنے کے لئے مسجد میں ان نافلہ نمازوں کو پڑھنا ترک کر دیا۔ چنانچہ یہ معتبر حدیث ملاحظہ ہو؛
سَأَلَ زُرَارَةُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ الْفُضَيْلُ أَبَا جَعْفَرٍ الْبَاقِرَ وَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقَ ع عَنِ الصَّلَاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ نَافِلَةً بِاللَّيْلِ جَمَاعَةً فَقَالا إِنَّ النَّبِيَّ ص كَانَ إِذَا صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ انْصَرَفَ إِلَى مَنْزِلِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَقُومُ فَيُصَلِّي فَخَرَجَ فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِيُصَلِّيَ كَمَا كَانَ يُصَلِّي فَاصْطَفَّ النَّاسُ خَلْفَهُ فَهَرَبَ مِنْهُمْ إِلَى بَيْتِهِ وَ تَرَكَهُمْ فَفَعَلُوا ذَلِكَ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَقَامَ ص فِي الْيَوْمِ الثَّالِث عَلَى مِنْبَرِهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مِنَ النَّافِلَةِ فِي جَمَاعَةٍ بِدْعَةٌ وَ صَلَاةَ الضُّحَى بِدْعَةٌ أَلَا فَلَا تَجْتَمِعُوا لَيْلًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِصَلَاةِ اللَّيْلِ وَ لَا تُصَلُّوا صَلَاةَ الضُّحَى فَإِنَّ تِلْكَ مَعْصِيَةٌ أَلَا فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلَّ ضَلَالَةٍ سَبِيلُهَا إِلَى النَّارِ ثُمَّ نَزَلَ ص وَ هُوَ يَقُولُ قَلِيلٌ فِي سُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ فِي بِدْعَة
زرارہ، محمد بن مسلم و فضیل جیسے جلیل القدر اصحاب نے امام باقر(ع) و امام صادق(ع) سے رمضان کے مہینے میں رات کے نافلہ کو جماعت سے پڑھنے کے متعلق پوچھا تو امام(ع) نے جواب دیا کہ رسول پاک(ص) جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو اپنے گھر چلے جاتے۔ پھر رات کے آخری حصّے میں مسجد واپس آتے جہاں نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ چنانچہ جب شھر رمضان کی پہلی رات آئی تو حسب معمول (نافلہ) پڑھنے کے لئے مسجد تشریف لائے، اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو لوگوں نے ان کے پیچھے صفیں باندھ لیں۔ آپ(ص) ان کے سامنے ان کو ترک کر کے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے ایسا مسلسل تین راتوں میں کیا۔ تیسرے دن آپ(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: "اے لوگوں رمضان کی راتوں میں نافلہ کو جماعت سے پڑھنا بدعت ہے، اور چاشت کی نماز بھی بدعت ہے۔ آگاہ رہو کہ رمضان کے مہینے میں رات کی نافلہ نمازیں پڑھنے کے لئے اجتماع مت کرو، اور چاشت کی نماز بھی نہ پڑھو، کیونکہ یہ گناہ ہے۔ یاد رکھو کہ ہر بدعت گمراھی ہے اور ہر گمراھی کا ٹھکانہ جہنّم ہے۔"
پھر آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اترے: "وہ قلیل عبادت جو سنّت پر عمل کرتے ہوئے کی جائے اس کثیر عبادت سے افضل ہے جو بدعت پر عمل کرتے ہوئے کی جائے۔"
(من لا يحضره الفقيه: ج2، ص: 137، حدیث 1964)
ایک اور روایت میں اس واقعے کو نقل کرنے سے پہلے امام صادق(ع) فرماتے ہیں؛
صَومُ شَهرِ رَمَضانَ فَريضَةٌ ، وَالقِيامُ في جَماعَةٍ في لَيلِهِ بِدعَةٌ ، وما صَلاّها رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله ولَو كانَ خَيراً ما تَرَكَها
امام صادق(ع): "رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہیں اور اس کی راتوں میں جماعت کے لئے کھڑے ہونا بدعت ہے، رسول اللہ(ص) نے یہ نمازیں (جماعت میں) کبھی نہیں پڑھیں اور اگر یہ ٹھیک ہوتا تو آپ اس کو متروک قرار نہ دیتے۔"
(دعائم الاسلام: ج1 ص213، بحارالانوار: ج97 ص 381)
یہی واقعہ جس کو امام جعفر صادق(ع) نے نقل کیا ہے، اہل سنّت کی صحاح میں بھی نقل ہوا ہے۔ صحیح مسلم و بخاری و دیگر کتب معتبرہ میں ابو ھریرہ سے روایت ہے؛
كانَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يُرَغِّبُ في قِيامِ رَمَضانَ مِن غَيرِ أن يَأمُرَهُم فيهِ بِعَزيمَةٍ ، فَيَقولُ : «مَن قامَ رَمَضانَ إيماناً وَاحتِساباً غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهِ» . فَتُوُفِّيَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله وَالأَمرُ عَلى ذلِكَ ، ثُمَّ كانَ الأَمرُ عَلى ذلِكَ في خِلافَةِ أبي بَكرٍ وصَدراً مِن خِلافَةِ عُمَرَ عَلى ذلِكَ
یعنی رسول اللہ(ص) ماہ رمضان میں عبادت کی ترغیب کرتے تھے اور فرماتے تھے "جو شخص بھی رمضان کے مہینے میں ایمان کی بدولت اللہ کے لئے (عبادت) کے لئے قیام کرے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں"۔ پھر آپ(ص) کا وصال ہوا اور اسی طرح سے یہ امر جاری رہا (یعنی نافلہ کو فرادی پڑھنا)، ابو بکر کی خلافت میں بھی ایسا ہی رہا اور خلیفۂ دوّم عمر کے دور میں بھی۔
(صحيح مسلم : ۱/۵۲۳/۱۷۴ ، صحيح البخاري : ۲ / ۷۰۷ / ۱۹۰۵، الموطّأ : ۱/۱۱۳/۲ ، السنن الكبرى : ۲ / ۶۹۳ / ۴۵۹۹ وص ۶۹۴ / ۴۶۰۲)
گویا رسول اللہ(ص) کی سنّت تھی کہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو خود پڑھتے تھے اور جماعت سے منع فرمایا ہے۔ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی رسم خلیفۂ دوّم حضرت عمر بن خطاب نے شروع کی۔
خَرَجتُ مَعَ عُمَرَ بنِ الخَطّابِ لَيلَةً في رَمَضانَ إلَى المَسجِدِ ، فَإِذَا النّاسُ أوزاعٌ مُتَفَرِّقونَ ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفسِهِ ، ويُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلّي بِصَلاتِهِ الرَّهطُ ، فَقالَ عُمَرُ : إنّي أرى لَو جَمَعتُ هؤُلاءِ عَلى قارِىً?واحِدٍ لَكانَ أمثَلَ ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُم عَلى اُبَيِّ بنِ كَعبٍ ، ثُمَّ خَرَجتُ مَعَهُ لَيلَةً اُخرى وَالنّاسُ يُصَلّونَ بِصَلاةِ قارِئِهِم۔ قالَ عُمَرُ : نِعمَ البِدعَةُ هذِهِ!
راوی کہتا ہے کہ عمر بن الخطاب کے ساتھ رمضان کی کسی رات مسجد میں آیا، لوگوں کو ہم نے متفرّق دیکھا، ہر شخص خود نماز پڑھ رہا تھا، یا ایک قلیل جماعت کسی ایک شخص کے پیچھے نماز پڑھ رہی تھی۔ عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہوں تو میری نگاہ میں بہتر ہے۔ پھر انہوں نے فیصلہ کیا اور سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کھڑا کر دیا۔ اگلی رات کو میں دوبارہ ان کے ساتھ باہر نکلا، لوگ ایک قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ خلیفۂ دوّم عمر نے کہا کہ "یہ کتنی بہترین بدعت ہے۔"
(صحيح البخاري : ۲ / ۷۰۷ / ۱۹۰۶ ، الموطّأ : ۱ / ۱۱۴ / ۳ ، السنن الكبرى : ۲ / ۶۹۴ / ۴۶۰۳ وح .۴۶۰۴)
خلیفۂ دوّم نے اس سلسلے کو شروع کیا اور اہل سنّت آج تک ان کی اس سنّت پر عمل کرتے ہیں جبکہ شیعیانِ علی رسول اللہ(ص) کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ان نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
بعد میں مولا علی(ع) نے اپنی ظاہری خلافت میں اس بدعت کے خلاف اقدام کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اپنی جہالت پر باقی رہے۔ اس ضمن میں ہم مندرجہ ذیل معتبر حدیث پیش کرتے ہیں؛
عَنْ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ سَأَلْتُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع الْكُوفَةَ أَمَرَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع أَنْ يُنَادِيَ فِي النَّاسِ لَا صَلَاةَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي الْمَسَاجِدِ جَمَاعَةً فَنَادَى فِي النَّاسِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ع بِمَا أَمَرَهُ بِهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ مَقَالَةَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ صَاحُوا وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاهْ فَلَمَّا رَجَعَ الْحَسَنُ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ لَهُ مَا هَذَا الصَّوْتُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ النَّاسُ يَصِيحُونَ وَا عُمَرَاهْ وَا عُمَرَاهْ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع قُلْ لَهُمْ صَلُّوا
امام صادق(ع) سے رمضان کی نافلہ نمازوں کے مساجد میں پڑھے جانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ(ع) نے فرمایا: "جب امیر المؤمنین(ع) نے کوفہ میں قدم رکھا تو آپ نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کروائیں کہ رمضان کے مہینے میں جماعت کے ساتھ (نافلہ) نماز نہیں ہے۔ امام حسن(ع) نے منادی کروائی جیسا کہ امیر المؤمنین(ع) کا حکم تھا۔ جب لوگوں نے امام حسن(ع) کی ندا سنی تو فریاد کرنے لگے: وا عمراہ، وا عمراہ ۔۔۔ یعنی ھائے عمر، ھائے عمر ۔۔۔۔۔
امام حسن(ع) واپس امام علی(ع) کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ تو امام حسن(ع) نے جواب دیا کہ اے امیرالمؤمنین(ع) لوگ ھائے عمر، ھائے عمر کی صدا بلند کر رہے ہیں۔ تو امام علی(ع) نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ پھر تم لوگ جیسے چاہے نماز پڑھو۔
(تهذيب الأحكام: ج3، ص: 70، وسائل الشیعہ: ج8 بَابُ عَدَمِ جَوَازِ الْجَمَاعَةِ فِي صَلَاةِ النَّوَافِلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَا فِي غَيْرِهِ عَدَا مَا اسْتُثْنِي)
اس حدیث کی سند معتبر ہے اور علم درایت کے حساب سے مؤثق حدیث کہلائی جائے گی۔ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام علی(ع) نے اس بدعت کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اپنی پرانی ڈگر پر قائم رہنا چاہتے تھے اور ایک سخت فتنہ برپا ہونے کا خطرہ تھا جس کی وجہ سے امام علی(ع) نے لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔
اس کے بعد ہمیں باقی آئمہ اھل بیت(ع) سے بھی ملتا ہے کہ انہوں نے تراویح کو بدعت کہا۔ یہاں تک مشہور سنّی فقیہ امام شوکانی نے بھی لکھا کہ اہل بیت(ع) کے نزدیک تراویح بدعت بھی۔ امام رضا(ع) سے ہمیں یہ حدیث ملتی ہے؛
الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شُعْبَةَ فِي تُحَفِ الْعُقُولِ عَنِ الرِّضَا ع فِي حَدِيثٍ قَالَ: وَ لَا تَجُوزُ التَّرَاوِيحُ فِي جَمَاعَة
امام رضا(ع): تراویح کو جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
(تحف العقول: 419، وسائل الشیعہ: ج8 بَابُ عَدَمِ جَوَازِ الْجَمَاعَةِ فِي صَلَاةِ النَّوَافِلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَا فِي غَيْرِهِ عَدَا مَا اسْتُثْنِي)
ہم پہلے بھی تحریر کر چکے ہیں کہ امّت اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہوئی ہے، ایک طرف تو اہل سنّت ہیں جنہوں نے رمضان کی نافلہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بدعت شروع کی اور اس پر قائم و دائم ہیں، اور دوسری طرف شیعہ ہیں جنہوں نے رمضان کی نافلہ نمازوں کو پڑھنا ہی ترک کیا اور روزہ صرف دن بھر بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام رہ گیا۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں سنّتوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہر طرح کے بدعتوں سے دور رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
وما علینا الاّ البلاغ


کیا آقائے خامنہ ای کے پیچھے نماز جائز ہے؟


موضوع: کیا آقائے خامنہ ای کے پیچھے نماز جائز ہے؟
تحریر: سید جواد حسین رضوی
‫آجکل بعض دشمنان تشیّع دل کھول کر علمائے حقّہ کی توہین کرنے میں مشغول ہیں بالخصوص رہبر معظّم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی۔ اس بغض و عناد کی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ علماء ان کی کچھ مخصوص گمراہ کن باتوں کو نہیں مانتے اور مخالفت کرتے ہیں۔
حال ہی میں ایک شخص نے دو روایات کے غلط تراجم اور دیگر احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے امام خامنہ ای پر تنقید کی ہے کہ ان کا ہاتھ شل ہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے گی۔
انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے؛
وَ قَالَ الصَّادِقُ ع لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْقَيْدِ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء
امام صادق(ع): "قیدی آزاد لوگوں کی امامت نہ کرے اور فالج زدہ صحیح و سالم لوگوں کی امامت نہ کرائے۔"
من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ح1107
نیز یہ حدیث بھی ان لوگوں نے نقل کی؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص لَا يَؤُمُّ الْمُقَيَّدُ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاءَ وَ لَا صَاحِبُ التَّيَمُّمِ الْمُتَوَضِّينَ وَ لَا يَؤُمُّ الْأَعْمَى فِي الصَّحْرَاءِ إِلَّا أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَة
امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امام علی(ع) نے فرمایا: "قیدی زاداد لوگوں کو، کوئی فالج کا مریض تندرست لوگوں کو اور کوئی تیمّم والا باوضو لوگوں کو، اور اندھا بیابان میں جماعت نہ کرائے مگر یہ کہ اس کو قبلہ رخ کر دیا جائے۔"
کافی: ج3 ص376
ان احادیث کے مصداق پر مدلّل گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کی ہیرا پھیری کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے۔ انہوں نے ترجمہ میں لفظ "مفلوج" کا استعمال کیا ہے، عربی کے مطابق تو اس میں حرج نہیں کیونکہ عربی میں "مفلوج" فالج زدہ کو ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں یہ لفظ کسی معذور کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ شخص فالج کا شکار نہ بھی ہو۔ اگر حدیث کا اصل مصداق دیکھیں تو یہ کسی فالج زدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فالج زدہ شخص افعال نماز ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ سجود میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھ سکتا ہے اور نہ رکوع کر سکتا ہے۔
حدیث میں "صاحب الفالج" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی مطلب کوئی ایسا شخص ہے جو فالج کا مریض ہو۔ فالج کا اٹیک کبھی مکمّل جسم پر ہوتا ہے اور کبھی آدھے جسم پر۔ ان مدلّسین نے بہت خوبصورتی سے "صاحب الفالج" کی جگہ پر "مفلوج" کا لفط استعمال کیا ہے اور لفظ مفلوج کو معذور کے مترادف پیش کیا ہے جبکہ "معذور" "مفلوج" کا مترادف ہرگز نہیں ہے۔
اب یہاں پر لفظ "مفلوج" استعمال کر کے آیت اللہ خامنہ ای پر اٹیک کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای فالج کا شکار نہیں ہیں۔ ان کا ہاتھ ایک بم دھماکے میں تھوڑا شل ہوا، لیکن اس کے باوجود بھی آپ مکمّل طور پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سجدہ میں تمام اعضائے سجدہ زمین پر رکھتے ہیں اور صحتمند شخص کی طرح رکوع بھی کرتے ہیں اور قنوت میں ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بم دھماکے کی وجہ سے قنوت میں ہاتھ مکمّل نہیں اٹھا پاتے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ کسی کی مخالفت میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور جھوٹ اور مکرو فریب سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق بھی علماء نے یہی کہا ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہو جس کی وجہ سے وہ درست انداز میں نماز کے افعال انجام نہ دے سکے۔
اب ہم ان احادیث کے متن کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
1) قیدی
2) فالج زدہ شخص
3) کسی عذر کی وجہ سے تیمّم کرنے والا
4) اندھا
لیکن ہم دیگر احادیث میں دیکھتے ہیں کہ ان مخصوص لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ مثلا قیدی یا غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں؛
عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ لَه الصَّلَاةُ خَلْفَ الْعَبْدِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فَقِيهاً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ أَفْقَهُ مِنْهُ الْحَدِيثَ.
زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے غلام کی اقتداء کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ فقیہ ہو اور وہاں اس سے زیادہ بڑا کوئی فقیہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔
کافی: ج3 ص375
َعنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ إِذَا رَضُوا بِهِ وَ كَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآناً قَالَ لَا بَأْسَ بِهِ
محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق(ع) میں سے کسی سے پوچھا کہ آیا غلام لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔
تہذیب الاحکام: ج3 ص29
پس ان روایات میں جواز بیان ہوا ہے، اور جو حدیث ان مدلّسین نے بیان کی ہے اس میں غلام یا قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے کو کراہت پر حمل کریں گے یعنی ان کے پیچھے نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ ان قیدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے جو زنجیر یا رسّی میں بندھے ہوں جس کی وجہ سے وہ افعال نماز انجام دینے پر قادر نہ ہوں۔
اب ہم تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے امامت پر بات کرتے ہیں۔ مدلّسین کی پیش کردہ روایت کے مطابق تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے، اور یہی ان کا مطلب ہے، لیکن یہ سب احادیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ ان احادیث کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ دینے کے لئے چھپاتے ہیں۔ ہم یہاں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن میں وضو کرنے والوں کا تیمّم کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز ہے؛
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ أَجْنَبَ ثُمَّ تَيَمَّمَ فَأَمَّنَا وَ نَحْنُ طَهُورٌ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ
عبداللہ بکیر کہتےہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو مجنب ہوا تھا لیکن (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) تیمّم کیا اور پھر ہمیں نماز پڑھائی جبکہ ہم نے وضو کیا ہوا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔
تہذیب الاحکام: ج3 ص167
عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الرَّجُلِ يُجْنِبُ وَ لَيْسَ مَعَهُ مَاءٌ وَ هُوَ إِمَامُ الْقَوْمِ قَالَ نَعَمْ يَتَيَمَّمُ وَ يَؤُمُّهُم
امام صادق(ع) سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو ایک قوم کا پیشنماز ہے اور جنب ہو گیا، مگر اس کے پاس غسل کے لئے پانی نہیں۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ تیمّم کرے اور لوگوں کو نماز پڑھائے۔
تہذیب الاحکام: ج3 ص167
یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ وضو کرنے والوں کے لئے تیمّم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے ہم اس کو کراہت پر محمول کریں گے، یعنی یہ جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ اور علماء کرام نے بھی یہی فرمایا ہے جیسا کہ شیخ حر عاملی اپنی تالیف "وسائل الشیعہ" میں ان روایات کو نقل کیا اور اس باب کا نام رکھا: بَابُ جَوَازِ اقْتِدَاءِ الْمُتَوَضِّئِ بِالْمُتَيَمِّمِ عَلَى كَرَاهِيَة ۔۔۔۔۔ یعنی وضو والوں کا تیمّم والوں کے پیچھے نماز کراہت کے ساتھ پڑھنے کا باب
اب ہم اندھے کے پیچھے نماز پڑھنے کی طرف آتے ہیں۔
امام صادق(ع): اگر اندھا آدمی لوگون کو نماز پڑھائے تومضائقہ نہیں ہے، اگرچہ یہی مقتدی اسے قبلہ رخ کریں۔ (تہذیب الاحکام)
امام باقر و امام صادق(ع): جب مقتدی اندھے آدمی کو پسند کریں اور وہ ان سے زیادہ قاری اور فقیہ ہو تو وہ نماز باجماعت پڑھا سکتا ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ)
پس یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اور مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے وہ کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔
پس مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں قیدی، تیمّم والے، فالج زدہ اور اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا منع نہیں ہے بشرطیکہ وہ نماز کے افعال کو درست انجام دے سکیں، بلکہ وہ روایات مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لئے شیخ حر عاملی نے مدلّسین کی روایات پر باب باندھا ہے؛
بَابُ كَرَاهَةِ إِمَامَةِ الْمُقَيَّدِ الْمُطْلَقِينَ وَ صَاحِبِ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء
یعنی قیدی کا آزاد لوگوں کو اور فالج زدہ کا صحیح و سالم کو امامت کرانے میں کراہت کا باب۔
پس بالفرض ہم رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای کو فالج زدہ بھی مان لیں تو بھی یہ احادیث مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔
معصومین(ع) کے نام پر معصومین(ع) کے اقوال کو تروڑ مروڑ کر آدھی بات پیش کر کے مومنین کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔
والسّلام علی من اتبع الھدی


سورج سے گرم شدہ پانی سے وضو کرنے کی کراہت


-- ٭ سورج سے گرم شدہ پانی سے وضو کرنے کی کراہت ٭ ---
تحریر: سید جواد حسین رضوی
احادیث میں اس پانی سے وضو کرنے کی کراہت بیان ہوئی ہے جو سورج کی تمازت کی وجہ سے گرم ہوا ہو۔ یہ شرعی حکم اپنی جگہ لیکن آج سائنس کی ترقی کے ساتھ اس کی علّت اور اس کی حکمتیں بھی واضح ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے دین اسلام پر ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ ان سائنسی علوم کی ترقّی سے انسان کی فہم میں اضافہ ہوا ہے، اور اگر صحیح معنوں میں اسلامی معارف میں اب غور و فکر کیا جائے تو یہ فکر انسان کو دنیوی و اخروی سعادت کی جانب لے جائے گا۔
ذیل میں کچھ روایات حاضر خدمت ہیں؛
1) مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْعُبَيْدِيِّ عَنْ دُرُسْتَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلَى عَائِشَةَ- وَ قَدْ وَضَعَتْ قُمْقُمَتَهَا فِي الشَّمْسِ فَقَالَ يَا حُمَيْرَاءُ مَا هَذَا قَالَتْ أَغْسِلُ رَأْسِي وَ جَسَدِي قَالَ لَا تَعُودِي فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَص
ابراھیم بن عبدالحمید امام کاظم(ع) سے روایت کرتے ہیں، فرمایا: "رسول اللہ(ص) ایک دفعہ جناب عائشہ کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا انہوں نے تانبے کا برتن (جس میں پانی تھا) دھوب میں رکھا ہوا ہے۔ فرمایا: اے حمیرا یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا دھوپ میں پانی گرم کر رہی ہوں جس سے اپنا سر اور بدن دھؤں گی۔ آپ(ص) نے فرمایا ایسا کبھی نہ کرنا، کیونکہ یہ پانی برص کا باعث ہوتا ہے"۔
اس حدیث کو شیخ طوسی نے تہذیب الاحکام: ج1 ص366 اور الاستبصار: ج1 ص30 پر لکھا ہے۔ نیز شیخ صدوق نے اس حدیث کے متن پر اپنی فقہی کتاب "المقنع" میں فتوی دیا ہے، اور علل الشرائع میں اسی سند کے ساتھ پہلی جلد میں باب نمبر 194 میں یہ حدیث نقل کی ہے۔
اس حدیث کی سند میں درست بن ابی منصور کے سوا سب ثقہ ہیں، درست بن ابی منصور کی توثیق وارد نہیں نیز وہ واقفی تھا۔
2) مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحُسَيْنِ الْفَارِسِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْمَاءُ الَّذِي تُسَخِّنُهُ الشَّمْسُ لَا تَتَوَضَّئُوا بِهِ وَ لَا تَغْتَسِلُوا بِهِ وَ لَا تَعْجِنُوا بِهِ فَإِنَّهُ يُورِثُ الْبَرَص
امام جعفر صادق(ع) سے مروی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "وہ پانی جسے سورج گرم کر دے، اس سے نہ وضو کرو اور نہ غسل، اور نہ ہی اس سے آٹا گوندھو کیونکہ یہ برص کی بیماری کا موجب ہوتا ہے۔" (کافی ج3 ص18)
اس روایت میں حسن بن ابی الحسین الفارسی مجہول ہیں۔ جبکہ یہی روایت شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں بالجزم نقل کی ہے جو امام خمینی سمیت متعدد جید علماء کے نزدیک معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں شیخ صدوق نے علل الشرائع کے باب نمبر 194 میں اس روایت کو محمد بن حسن الصفار کے ذریعے ابراھیم بن ہاشم سے نقل کیا، جنہوں نے آگے نوفلی و سکونی سے۔ سکونی کی اس سند پر علماء فقہی ابواب میں اعتبار کرتے ہیں، گو کہ سکونی سنّی (عامی) تھا۔ پس یہ روایت معتبر ہے۔
ان روایات کی وجہ سے فقہائے کرام سورج سے گرم شدہ پانی سے وضو کرنے کی کراہت کے قائل ہیں۔ شیخ صدوق علیہ الرّحمہ اس سلسلے میں حرمت کے بھی قائل رہے ہیں یعنی ان کے نزدیک حرام ہے کہ ایسے پانی سے وضو کیا جائے۔ ان کے موقف کی تائید شیخ بہائی رح نے بھی کی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ایسا قدم اٹھانا ممنوع ہے جس سے انسان موذی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے، لہذا یہ فقہاء حرمت کے قائل تھے۔ لیکن مشہور اور قوی یہی ہے کہ ایسے پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے۔
اس کی علّت آجکل کے زمانے میں سمجھنا مشکل نہیں ہے، سورج سے گرم شدہ پانی جراثیموں کے پھلنے پھولنے کیلئے بہترین ہے۔ بائیولوجی کے لحاظ سے ایسے پانی میں فنگس، امیبا اور بیکٹیریا کی افزائش بہترین انداز میں ہوتی ہے۔ اس پانی کے استعمال سے یہ خطرناک جراثیم جسم میں جا سکتے ہیں اور گوناگوں بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے کراچی میں ایک بیماری بہت عام ہے جس کو "نیگلیریا" کہتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی جان لیوا مرض ہے، اور اس کا کوئی مریض پاکستان میں آج تک بچ نہیں سکا۔ یہ مرض ایسے امیبا (جراثیم) کی وجہ سے ہوتا ہے جو سورج کی تمازت سے گرم شدہ پانی میں پھلتا پھولتا ہے، یہ اگر انسانی جسم میں داخل ہو جائے تو ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ دماغ کو کھا کر ختم کر دیتا ہے۔ اس بیماری کی علامتوں میں شدید سردرد، کمزوری، تیز بخار اور قے کا آنا شامل ہے۔
جب اس طرح کے کسی پانی سے وضو کیا جائے گا تو نیگلیریا کے ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہونے کے چانسز میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ناک میں پانی ڈال کر صاف کرنا وضو کے مستحبات میں سے ہے جس کو لوگ واجب سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ وضو کے کیسز میں اس پانی کے ذریعے نیگلیریا کے دماغ میں داخل ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں، اسی لئے پچھلے کئی سالوں سے کراچی اور زیریں سندھ میں نیگلیریا سے اموات کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور حکمت بھی ہے، وضو کیلئے ٹھنڈے پانی کی تاکید ہے۔ جب انسان ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے تو یہ جسم میں خون کا دورانیہ بڑھاتا ہے۔ ٹھنڈے پانی سے ہمارے ان اعضاء کا درجۂ حرارت کم ہوتا ہے اور اس عضو کے قریبی حصّوں سے خون کی ترسیل ان اعضاء کی طرف بڑھ جاتی ہے تاکہ یہ اعضاء بھی جسم کے طبیعی ٹمپریچر کی طرف لوٹ جائیں۔
غرض وضو سے جہاں ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے وہاں خالص اللہ کی اطاعت میں خاص ترتیب سے جسم دھونے اور مسح کرنے سے روحانی طہارت بھی حاصل ہوتی ہے۔ نیز یہ بے شمار طبی فوائد کا باعث بھی ہے، جو ایک مسلمان کیلئے مثبت نکات ہیں۔ اسلام کے تمام احکام بہترین حکمتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، انشاء اللہ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقانیت مزید آشکار ہوتی جائے گی، لیکن ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں پر قفل نہیں اور عقل و تدبّر کرنے والے ہیں۔
والسلام علی من اتبع الھدی


شب معراج کے حوالے سے کچھ شبہات کا ازالہ

شب معراج کے حوالے سے کچھ شبہات کا ازالہ


عراق کا یزیدی فرقہ

موضوع: عراق کا یزیدی فرقہ
تحریر: سید جواد حسین رضوی
یزیدی مذہب کافی پرانا فرقہ ہے۔ اس فرقے کی جڑیں قدیم ایرانی مذاہب سے جا ملتی ہیں۔ عقائد کے لحاظ سے قدیم زرتشت، مانی و مزدک کے مذاہب سے خاصا متاثر ہے، نیز نسطوری عیسائیوں اور صوفی مسلمانوں کے بھی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں، یہاں تک کہ حیرت انگیز طور پر ہندوؤں کے اثرات بھی نمایاں ہیں جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ چنانچہ یہ مختلف ادیان و مذاہب کا ایک مجموعہ ہے۔
نام سے عموما یہ تاثر ذہن میں ابھرتا ہے کہ یزیدی فرقے کا تعلق یزید بن معاویہ سے ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس مذہب کا اصل نام "ایزدی" ہے۔ ایزد قدیم فارس میں خدا کا نام تھا، اسی نسبت کی وجہ سے ان کو ایزدی کہا جاتا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر یزیدی میں تبدیل ہو گیا۔
ان کو اسلام سے روشناس کروانے والے پانچویں صدی ہجری کے ایک صوفی شیخ عدی بن مسافر تھے۔ یعنی موجودہ شکل میں یزیدی فرقے کی تشکیل شیخ عدی کے دور میں ہوئی۔ اس وقت ان کو یزیدی نہیں کہا جاتا تھا بلکہ شیخ عدی کی وجہ سے "عدویہ"کہا جاتا تھا، اور یہ ایک صوفی فرقہ تصوّر ہوتا تھا۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عدی کی وفات کے بعد ان کے عقائد میں بتدریج تبدیلی آتی گئی اور سابقہ عقائد کی طرف لوٹ گئے۔ جن علاقوں میں آج یزیدیوں کی آبادی ہے، وہاں آس پاس کے عیسائی اور مسلمان ان کو شیطان پرست کہہ کر پکارتے ہیں، گو کہ یہ نام یزیدیوں کو پسند نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس مذہب کا شیطان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔
یزیدیوں کے عقائد کے مطابق اس کائنات کو خلق کرنے والا ایک خدا ہے، جس کا کام کائنات کو خلق کرنا تھا اس کے بعد اس کا کردار اس دنیا میں نہیں۔ اس کے بعد اس خدا نے جس مخلوق کو خلق کیا وہ "ملک طاؤوس" تھا گویا ملک طاؤوس کو ان کے مطابق مخلوق اوّل قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے بعد باقی مزید چھ فرشتے بھی آگ سے خلق کئے۔ کائنات کے امور یہ سات فرشتے چلا رہے ہیں جن میں سب سے مقرّب "ملک طاؤوس" ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ملک طاؤوس ذات خداوندی کا ایک حصّہ ہے، نیز وہ خداوند اور مخلوقات کے درمیان واسطۂ فیض ہیں۔ یہ ایک توحید شناس فرشتہ تھا جس کو اللہ نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اپنی توحید پرستی کی وجہ سے سجدے سے انکار کیا۔ اس کی پاداش میں اللہ نے اس کو جہنم میں ڈالا جہاں وہ سات سو سالوں تک گریہ و توبہ کرتا رہا۔ بالآخر اللہ نے اس کی توبہ قبول کی اور اس کو وہی بلند و بالا مقام عطا کیا۔ یہ عقیدہ نیا نہیں ہے بلکہ مختلف صوفی بزرگوں نے ابلیس کی توحید پرستی کی تعریف کی۔ حسین بن منصور حلاج اور امام ‏غزالی کے بھائی کی طرف اس قول کی نسبت دی جاتی ہے کہ توحید سیکھنی ہے تو ابلیس سے سیکھنی چاھئے۔ یہی عقیدہ تصوّف کے توسط سے یزیدیوں میں بھی در آیا۔
یزیدیوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ آدم(ع) نے ایک حور کے ساتھ شادی کی جس سے آجکل کے یزیدی پیدا ہوئے، اور حوّا کے ساتھ شادی کے نتیجے میں باقی انسانیت۔ یہی وجہ ہے کہ یزیدی اپنے آپ کو سب سے اعلی سمجھتے ہیں اور دیگر انسانوں کو اپنے اندر قبول نہیں کرتے اور نہ اپنے علاوہ کسی سے شادی کرنے کے قائل ہیں۔
یزیدیوں کا ملک طاؤوس اور چھ دیگر مقرّب فرشتوں کا عقیدہ قدیم زرتشتیوں سے جا ملتا ہے۔ زرتشتی بھی قائل ہیں کہ ذات خداوندی کے بعد ایک مقدس ذات "اسپنتامینو" کو بنایا گیا جس کے بعد چھ "امشاسپندان" بھی ہیں۔ البتہ یاد رہے کہ یزیدیوں کے ہاں شیطان کا وہ تصور نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ ان کے مطابق یہ اللہ کے مقرّب فرشتوں میں سے ہے جو اب بھی کائنات کے امور چلا رہا ہے اور خداوند متعال اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔ یزیدیوں کے ہاں سورج کی بھی بڑی اہمیت ہے، چنانچہ ان کی عبادتگاہوں میں سورج کی تصاویر کو خاص اہمیت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی طرح پانچ وقت عبادت کرتے ہیں جن میں سے چار دفعہ سورج کی سمت رخ کرتے ہیں اور دن میں ایک دفعہ اپنے مرشد شیخ عدی بن مسافر کی قبر کی طرف رخ کرتے ہیں جو عراقی کردستان کے ایک درّے "لالش" میں واقع ہے۔
استطاعت کی صورت میں اس قبر کی طرف سال میں ایک دفعہ زیارت کرنے کی خاص اہمیت ہے، نیز سال میں ایک دفعہ گرمیوں کے مہینوں میں خاص طور پر آتے ہیں۔ اس مقبرے کی مٹی کو بھی اپنے ساتھ ہر وقت رکھتے ہیں، سمعانی کتاب الانساب میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ ایک خاص مٹی کھاتے ہیں جو شیخ عدی بن مسافر کے مقبرے سے حاصل کی جاتی ہے، اس کو آٹے کے ساتھ ملا کر خمیر کرتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے کھاتے رہتے ہیں، اس کو "برات" کہا جاتا ہے۔
صوفیوں کی طرح ان کے ہاں بھی سماع، ذکر اور پیری مریدی ہے۔ علاوہ ازیں مختلف صوفی بزرگوں جیسے شیخ عبدالقادر جیلانی کا احترام بھی کرتے ہیں۔ نیز عقائد میں تناسخ یعنی جنم کے قائل ہیں، اور کئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جیسے لوبیا و سلاد وغیرہ۔ مرغا کھانے کو بھی جائز نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے بقول ملک طاؤوس مرغے کی شکل میں ہے۔ مونچھوں کے کتروانے کو جائز نہیں سمجھتے لیکن اصلاح کرنے میں حرج نہیں۔ ان کے جو بزرگ یا شیوخ ہیں ان کے لئے داڑھی بھی لازمی ہے۔
یزیدیوں کی سب سے بڑی تعداد عراق میں ہے جہاں کردستان اور موصل میں زیادہ تر رہتے ہیں۔ ایک اچھی آبادی ترکی اور شام میں بھی ہے۔ اور چھوٹی سی تعداد آرمینیا، جارجیا اور روس میں بھی رہتی ہے۔ بہت سے یزیدی یورپی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ جرمنی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی پوری دنیا میں 5 لاکھ سے 8 لاکھ تعداد بتائی جاتی ہے۔ تقریبا تمام یزیدی کرد ہیں اور کردی زبان بولتے ہیں، البتہ ایک چھوٹی سی تعداد عرب یزیدیوں کی بھی ہے۔
عالمی میڈیا میں یزیدی فرقے کا نام سب سے پہلے 2007 میں ابھرا جب ایک لڑکی کے سنگسار کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ یزیدی قبائل نے ایک لڑکی کو بری طرح زد و کوب کر کے ہلاک کیا جس کا جرم فقط یہی تھا کہ وہ ایک سنّی عرب کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔ دونوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن خاندان کے بڑوں نے لڑکی کو پکڑ لیا اور سرعام چوک پر آدھے گھنٹے کے تشدد کے دوران ہلاک کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی، عالمی میڈیا میں یہ عمل مسلمانوں کے نام سے پیش کیا گیا۔ مغالطہ اس لئے بھی ہوا کہ واقعہ چونکہ عراق کا تھا، اور فورا مسلمانوں کا نام ذہن میں ابھرتا ہے، اس لئے اسلام مخالف عناصر نے مسلمانوں کے خلاف اس ویڈیو کو استعمال کیا۔ ہم نے اس وقت بھی مختلف سوشل نیٹ ورک پر اس سازش کا جواب دیا۔
حالیہ دنوں میں ان کا نام پھر سے سامنے آنے لگا جب داعش نامی دہشتگرد تنظیم نے یزیدیوں کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی۔ ہم یزیدیوں کے عقائد سے بیزاری کرتے ہیں لیکن بطور انسان ان کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے، لیکن داعش نے ان سے یہ حق بھی چھین لیا تھا۔ لیکن بحمداللہ داعش کو عراق میں شکست فاش ہو چکی ہے اور یزیدی پھر سے آرام و سکون کی زندگی گزارنے لگے ہیں۔
یزیدی مذہب و آئین کے عالمی منظر نامے پر آنے کے بعد ان کی ہندوؤں کے ساتھ عجیب شباہت بھی دیکھنے میں آئی، اور اس حوالے سے اب کافی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ سب سے پہلی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یزیدی اپنے دیوتا ملک طاؤوس کی نسبت مور سے دیتے ہیں۔ عربی میں مور کو طاؤوس کہا جاتا ہے حالانکہ مشرق وسطی میں مور نہیں ہوتے ہیں، بلکہ برصغیر میں پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ملک طاؤوس کی عجیب شباہت جنوبی ہندوستان کے دیوتا "موروگن" سے ہے جو دیوتا شو اور دیوی پاروتی کا بیٹا تھا۔ موروگن کی نسبت بھی قوی طور پر طاؤوس یعنی مور سے دی جاتی ہے، متعدد ہندو مندروں میں جن کا تعلق جنوبی ہندوستان سے ہے "موروگن" کو مور پر بیٹھا دکھایا جاتا ہے۔ اس موروگن سے سانپوں کا تعلق بھی بتایا جاتا ہے، اور حیرت انگیز طور پر عراقی کردستان "لالش" میں یزیدیوں کے معبد کے دروازے پر سانپ کی شبیہ موجود ہے۔
ایک اور عجیب شباہت یہ ہے کہ یزیدی خواتین اسی طرح آگ کی آرتیاں اٹھا کر عبادت کرتی ہیں جیسے ہندو کرتے ہیں، ان آرتیوں کو یزیدی سنجک کہتے ہیں۔ عموما ان آرتیوں پر مور کا چھوٹا مجسمہ ہوتا ہے بعینہ ویسے ہی جیسے جنوبی ہند میں ہوتا ہے۔ اسی طرح عبادت کے بعد یزیدیوں کا شیخ عقیدت مندوں کی پیشانی پر تلک لگاتا ہے جس کو تیسری آنکھ کہا جاتا ہے۔ یزیدی دن میں تین یا چار دفعہ سورج کی طرف رخ کر کے عبادت کرتے ہیں جس کو ہندو دھرم میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یزیدیوں کے معبد کی شکلیں مخروطی ہوتی ہیں جیسے ہندو مندر ہوتے ہیں۔ اور سب سے تعجب انگیز یہ ہے کہ لالش میں یزیدی معبد میں دیوار پر موجود ایک تصویر میں کسی خاتون کو ساڑھی پہنے ہاتھ میں آرتی لئے دکھایا گيا ہے۔
ہندوؤں کے ساتھ یہ شباہت حقیقت میں کافی عجیب ہے۔ اس تشابہ کی وجہ سے مختلف ہندو مفکرین یزیدیوں کو مشرق وسطی میں ہندوستانی باقیات قرار دے رہے ہیں۔ یزیدی روایات جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں ان میں چار ہزار سال قبل مسیح میں ایک طوفان کا ذکر ہے جس کے بعد متعدد یزیدی ہندوستان کی طرف کوچ کر گئے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قدیم زمانے میں عراق کے بابلیوں اور آشوریوں کا ہندوستان سے گہرا تعلق رہا ہے۔ بہت سے مفکّرین نے یزیدیوں کے مذہب کا تعلق قدیم ایرانی مذہب "متھرا ازم" سے جوڑا ہے جو زرتشتی مذہب سے بھی بہت پہلے کا ہے۔ یہ مذہب سورج دیوتا کی پوجا کرتا تھا اور اس مذہب کی حیثیت آریائی ابتدائی مذہب سے ہے۔ ممکن ہے کہ یزیدی اس وقت سے اب تک چلے آ رہے ہوں جنہوں نے بعد میں آنے والے مذاہب کے اثرات کو قبول کیا ہو۔ بہرکیف یزیدی مذہب کو اس حوالے سے داد دینی چاہئے کہ صدیوں سے بے انتہا دباؤ میں رہنے کے باوجود اپنے مذہب کو باقی اور جاری و ساری رکھا، جس کی وجہ ان کے اندر وہ لچک ہے جس کی وجہ سے آنے والے مذاہب کے اثرات کو اپنے اندر جذب کرتے گئے۔ تاریخ میں سخت اور کٹھن حالات بھی رہے جو اب تک داعش جیسی عفریت کی صورت میں جاری تھا، لیکن اس مذہب نے اپنی بقا کی صدیوں پر محیط جنگ کامیابی سے لڑی۔
والسّلام علیکم


سیاہ لباس کا حکم


موضوع: سیاہ لباس کا حکم
تحریر: سید جواد حسین رضوی
ہماری کتب میں سیاہ لباس کی ممانعت پر کافی روایات ہیں۔ لیکن ان کی سند پر نظر دوڑائی جائے تو سب کی سب ضعیف ہیں، اسی لئے مراجع نے ان کو کراہت پر محمول کیا ہے۔ آقای جواد تبریزی کے مطابق سند کے ضعف کی وجہ سے کراہت بھی نہیں۔ بہت سے شیعہ علماء نے عزاداری میں اس امر کو مستثنی کیا ہے، اور بعض کے نزدیک عزاداری میں سیاہ لباس کا استعمال چونکہ غم کے مظاہر میں سے ہے تو اس کا استحباب اس کی کراہت سے زیادہ ہے۔
اس فقہی اختلاف سے قطع نظر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تواریخ میں عباسیوں نے سیاہ رنگ کو اپنا شعار قرار دیا تھا۔ ان کے جھنڈے کا رنگ سیاہ تھا اور ساتھ ہی سیاہ لباس پہننے پر سرکاری توجہ حاصل رہی، ان کے خلفاء و امراء سیاہ لباس زیب تن کرتے تھے۔ بعید نہیں کہ روایات میں یہ ممانعت ان عباسی خلفاء سے مشابہت و متابعت کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے ہو جیسا کہ حذیفہ بن منصور کی روایت میں ذکر ہے کہ جب امام جعفر صادق(ع) کو عباسی خلیفہ منصور نے بلایا تو آپ نے سیاہ لباس کو جہنمیوں کا لباس کہا۔ اس روایت کو شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں مرسل اور علل الشرائع میں مسند نقل کیا۔ امام جعفر صادق(ع) ایک اور جگہ فرماتے ہیں؛
قال: أوحى الله عزوجل إلى نبي من أنبيائه قل للمؤمنين لا تلبسوا لباس اعدائي ولا تطعموا طعام أعدائي ولا تسلكوا مسالك أعدائي فتكونوا أعدائي كما هم أعدائی
امام صادق ع سے منقول ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء میں سے ایک نبی کو وحی کی کہ وہ مؤمنین سے کہے کہ وہ میرے دشمن کے لباس جیسا نہ پہنیں، ان سے مخصوص کھانے نہ کھائیں، اور میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو مبادا کہیں وہ میرے دشمن نہ ہوجائیں جیسے وہ میرے دشمن ہیں۔
علل الشرائع جلد 2 ص 348
اس موضوع پر روایات فراوان ہیں کہ اہل جور و ظلم کے ساتھ متابعت نہ کی جائے تو بعید نہیں کہ سیاہ لباس کی مخالفت اسی وجہ سے ہو کہ عباسی خلفاء کا یہ شعار رہا ہے۔ یہ بات اہلسنت میں بھی بہت معروف رہی ہے، جیسا کہ ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل کے بارے میں لکھتے ہیں؛
وقد كره أحمد رضي الله عنه لبس السواد في الوقت الذي كان شعار الولاة والجند
احمد بن حنبل نے کالے کپڑے کو مکروہ قرار دیا جب یہ حکمرانوں اور فوج کا شعار ہو۔
شرح العمدة لشيخ الإسلام ابن تيمية ص 385
اب جبکہ یہ ثابت ہے کہ خلفائے جور کا شعار سیاہ لباس رہا اور اس کی ممانعت ان کی متابعت کی وجہ سے ہوئی تاکہ گریز پسندی کا راستہ اختیار کیا جائے تو پھر آج یہ موضوع بھی ختم ہو چکا ہے۔ عباسیوں کے بعد کبھی ظالم حکمرانوں کا شعار سیاہ لباس نہیں رہا، لہذا ہمارے زمانے میں اس کی کراہت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا چاہے عزاداری میں ہو یا عزاداری کے علاوہ ہو۔ موجودہ صدی کے عظیم فقیہ آیت اللہ سید علی سیستانی فرماتے ہیں "لم تثبت الكراهة حتى في غير تلك الايام" یعنی اس کی کراہت ان (عزاداری کے) ایام کے علاوہ بھی ثابت نہیں ہے (کنز الفتاوی)۔
علاوہ ازیں یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سیاہ عمامہ اور سیاہ چادر (کملی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ نیز خواتین کے لئے سیاہ چادر بہترین 
حجاب ہے لہذا اس کی کلّی مخالفت درست نہیں ہے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ


نوروز اسلامی عید نہین


نماز کے بعد تین تکبیروں کا حکم


موضوع: نماز کے بعد تین تکبیروں کا حکم
تحریر: سید جواد حسین رضوی
سوال) نماز کے اختتام پر سلام کے بعد تین تکبیریں کہی جاتی ہیں، اگر نمازی کوئی تکبیر نہ پڑھے تو کیا اس کی نماز صحیح ہوگی؟
جواب) آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ نماز کے بعد تین تکبیریں جو آجکل شیعوں کا رواج بن چکی ہیں نماز کا حصّہ نہیں بلکہ یہ تعقیبات ہیں۔ اور یہ فقط تین تکبیریں ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی ایک مخصوص حمد و ثنا ہے۔
نماز میں تین سلام پڑھے جاتے ہیں۔ 1) السلام علیک ایّہا النّبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، 2) السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین، 3) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلا سلام مستحب ہے، بلکہ آیت اللہ العظمی سیّد محمد کاظم یزدی کی تصریح کے مطابق تشہّد کا حصّہ ہے۔ دوسرا سلام واجب ہے، اگر دوسرا سلام کوئی کہے تو تیسرا سلام بھی مستحب ہو جاتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ بطور احتیاط یہ دونوں سلام پڑھے جائیں اور بعض کہتے ہیں کہ دوسرا سلام ہی کافی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی بھی سلام کو کہا جائے کافی ہے۔ لہذا تیسرا سلام کہتے ہی انسان نماز کی حالت سے خارج ہو جاتا ہے، اس کے لئے تین تکبیرات کہنا لازمی نہیں۔
شیخ صدوق فرماتے ہیں؛
فَإِذَا سَلَّمْتَ رَفَعْتَ يَدَيْكَ وَ كَبَّرْتَ ثَلَاثاً وَ قُلْتَ- لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ أَعَزَّ جُنْدَهُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير
"جب سلام کہو تو تین دفعہ ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہو اور کہو: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ أَعَزَّ جُنْدَهُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير۔"
(من لا یحضرہ الفقیہ: جلد 1 ص320)
یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تین دفعہ تکبیر کے ساتھ ایک مخصوص دعا/ تسبیح/ تہلیل/ حمد و ثنا بھی پڑھنے کا ذکر ہے۔
ابن ادریس حلّی ایک عظیم شیعہ عالم گزرے ہیں۔ اپنی کتاب "السّرائر الحاوی لتحریر الفتاوی" میں لکھتے ہیں؛
و يستحب بعد التسليم و الخروج من الصلاة أن يكبّر و هو جالس ثلاث تكبيرات يرفع بكل واحدة يديه إلى شحمتي أذنيه، ثمّ يرسلهما إلى فخذيه في ترسّل واحد. ثمّ يقول لا إله إلا اللَّه وحده وحده وحده، أنجز وعده، و نصر عبده، و أعزّ جنده، و غلب الأحزاب وحده، فله الملك و له الحمد، يحيي و يميت و يميت و يحيي، و هو حي لا يموت، بيده الخير، و هو على كل شيء قدير.
"سلام کے بعد اور نماز سے خارج ہونے کے بعد مستحب ہے کہ بیٹھ کر تین دفعہ تکبیر کہے، اور ہر مرتبہ اپنے ہاتھ اپنے کانوں تک لے جائے اور پھر ہاتھ نیچے لے آئے اور اپنے رانوں پر رکھے۔ اور پھر پڑھے؛ لا إله إلا اللَّه وحده وحده وحده، أنجز وعده، و نصر عبده، و أعزّ جنده، و غلب الأحزاب وحده، فله الملك و له الحمد، يحيي و يميت و يميت و يحيي، و هو حي لا يموت، بيده الخير، و هو على كل شيء قدير۔"
(السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی: ج1 ص232)
علاّمہ حلّی لکھتے ہیں؛
ثم ما نقل عن أهل البيت بعد التکبير عقيب التسليم ثلاث مرات يرفع فيها يديه إلي شحمتي أذنيه ويضعهما علي فخذي
"جیسا کہ اہل بیت ع سے نقل ہوا ہے کہ تعقیبات میں سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ تکبیر کہے اور ہر دفعہ اپنے ہاتھ اپنے کانوں کے کناروں تک لے جائے اور پھر دوبارہ اپنے رانوں پر رکھے۔"
(تحریر الاحکام: ج1 ص263)
شیخ بہائی لکھتے ہیں:
چون مصلّے از نماز فارغ شود سنّت است بتعقیب اشتغال نماید و اوّل تعقیب سہ نوبت اللہ اکبر گفتن است و در ہر نوبت دستھا را بنزدیک گوش برساند و بعد از آن بگوید لا الہ الاّ اللہ الھا واحدا ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
"جب نماز نماز سے فارغ ہو جائے تو سنّت ہے کہ تعقیبات میں مشغول ہو جائے۔ اور پہلی تعقیب یہ ہے کہ تین دفعہ اللہ اکبر کہے اور ہر دفعہ اپنے ہاتھوں کو کانوں کے قریب لے جائے۔ اور اس کے بعد کہے لا الہ الا اللہ الھا واحد ۔۔۔۔۔۔ الخ"
(جامع عبّاسی چاپ قدیم: ص50)
ہم نے طوالت کے خوف سے اس پوری دعا کا ذکر نہیں کیا۔ قارئین دعاؤں کی کتب سے رجوع کر سکتے ہیں۔
صاحب جواہر لکھتے ہیں؛
ثم يستحب التعقيب أيضا بما روي من الأذکار والأدعية في خصوص التعقيب وهي کثيرة جدا منها التکبيرات الثلاث رافعا يديه بکل واحدة منها علي هيئة الرفع في غيرها من تکبيرات الصلاة
"پھر تعقیبات مستحب ہیں جن سے مراد وہ اذکار و دعائیں ہیں جو تعقیبات کے ضمن میں مروی ہیں اور یہ تعقیبات بہت زیادہ ہیں۔ جن میں سے تین تکبیریں ہیں، اور ہر تکبیر پر اپنے ہاتھوں کو اسی صورت میں اٹھائے جس طرح نماز کی باقی تکبیروں میں اٹھاتے ہیں۔"
(جواھر الکلام: ج10 ص408)
نتیجہ: مندرجہ بالا کلام سے حاصل ہوا کہ تین دفعہ تکبیر کہنا ہرگز نماز کا حصّہ نہیں جیسا کہ آجکل یہ خیال رائج ہے۔ دوسرا یہ کہ ان تکبیرات کے ساتھ ایک دعا بھی ہے اور یہ دونوں ایک تعقیب کا حصّہ ہیں۔ انسان سلام پڑھتے ہی نماز سے خارج ہو جاتا ہے اور سلام نماز میں مستحب ہے کہ اگر انسان خود نماز پڑھ رہا ہو یا امامت کرا رہا ہو تو ایک دفعہ دائیں طرف چہرے کو تھوڑا پھیر کر سلام کرے، اور اگر ماموم ہے تو دونوں جانب سلام پھیرے۔ اور اگر بائیں طرف کوئی نہیں تو دائیں جانب اکتفا کرے۔ ابن ادریس حلّی لکھتے ہیں کہ دائیں طرف کے سلام کو کبھی ترک نہ کرے۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ